تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-08-2022

یہ غلامی کی زلفِ دراز

آج کل آزادی کا بڑا غلغلہ ہے۔ قدم قدم پر یقین دلایا جارہا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں مگر سوچیے تو سہی کہ محض کہہ دینے سے ہم آزاد قوم قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ آزاد قوم کی حیثیت سے ہم میں خود مختاری کا جو احساس پایا جانا چاہیے وہ مفقود ہے۔ ہم کہنے کو تو آزاد ہیں۔ مگر ایک طرف حکومتی پالیسیاں ہیں جو ہمیں بیرونی آقاؤں کا غلام بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور دوسری طرف ہمارے اپنے اعمال غلامی کی زنجیر توڑنے کی گنجائش پیدا نہیں ہونے دیتے۔ حکیم مومن خاں مومنؔ نے کہا تھا ؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ہم بھی مومنؔ کے یار کے سے ہیں۔ ہمارے پاؤں بھی ہماری اپنی ہی زلفِ دراز میں الجھ گئے ہیں۔ اب کسی صیاد کو دام بچھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ کسی نے خوب کہا ہے کہ صارف معاشرے میں دو طرح کے غلام پائے جاتے ہیں: ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو لَت کے قیدی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو رشک و حسد کے پنجرے میں بند رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں میں گم ہوکر ہم کبھی نہیں سوچتے کہ سوچنے ہی سے زندگی سنورتی ہے‘ کچھ بن پاتی ہے۔ ہم مرتے دم تک زندگی کا ساتھ نبھاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی کو اپنا وجود سونپنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ساری تگ و دَو صرف اس لیے ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ آسائشوں کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ زندگی کا بنیادی مقصد محض آسائشوں کا حصول یقینی بنانا نہیں بلکہ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانا ہے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے وجود کو عمومی اور روایتی انداز کی زندگی کے دائرے سے نکالیں۔
غلام کس معاشرے کے لوگ ہوتے ہیں؟ صارف معاشرے کے! صارف معاشرہ یعنی ایسا معاشرہ جس میں زور صرف کرنے پر ہو، کچھ بنانے پر زیادہ دھیان نہ دیا جائے۔ صارف معاشرے اپنی ضرورت کی بیشتر اشیا درآمد کرتے ہیں۔ درآمدات پر جینے والے معاشرے ہمیشہ غلام ہی رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا شمار بھی ایسے ہی معاشروں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ترسیلاتِ زر سے برآمدات کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ ہم کچھ ایسا بنانے کی زیادہ کوشش نہیں کرتے جو دنیا بھر میں آسانی سے فروخت ہو اور طلب کبھی کمزور نہ پڑے۔ خدمات کے ذریعے آمدن کے شعبے میں ہم کسی حد تک مضبوط کہے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے باصلاحیت نوجوان گھر بیٹھے دنیا بھر کا کام کرتے ہیں اور زرِ مبادلہ کی شکل میں خوب کماتے ہیں مگر اِس سے ملک کو کچھ خاص فائدہ نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ زرِ مبادلہ درآمدات کا بل چکانے میں کھپ جاتا ہے۔ ہم برآمدی صنعتیں پروان چڑھانے کے معاملے میں بہت بُودے واقع ہوئے ہیں۔ صلاحیت کی بھی کمی نہیں اور سکت کے ساتھ ساتھ لگن کا معاملہ بھی گیا گزرا نہیں۔ اس کے باوجود ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں تو اِس کا کوئی نہ کوئی تو ٹھوس سبب ہوگا۔
معاملہ یہ ہے کہ ہمارے پیچھے رہ جانے کا کوئی ایک سبب نہیں بلکہ متعدد اسباب ہیں اور یہ فہرست طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ ہم بہت سے لتوں میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف محنت سے گریز کا چلن عام ہے اور دوسری طرف وقت کے ضیاع کا فیشن ہے۔ یہ فیشن ویسے تو خیر ایک زمانے سے ہمارے ہاں آیا ہوا ہے مگر اب معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ وقت یوں ضائع کیا جا رہا ہے گویا ہمارے لیے لامحدود ہو۔ نئی نسل کو اپنی ترجیحات کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ بوڑھی نسل اپنے تجربے سے نئی نسل کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ جو عمر گزار چکے ہیں وہ نئی نسل سے اس قدر نالاں ہیں کہ اُس سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ روش نئی نسل کو بزرگوں سے مزید دور کر رہی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے بزرگوں نے ''اپنی عزت اپنے ہاتھ‘‘ کے اصول کو ذہن نشین رکھتے ہوئے نئی نسل کو کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بعض معاملات میں تو کچھ کہنا فضول ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مکمل چُپ سادھ لی جائے اور گھر کا کونا پکڑ لیا جائے۔ ہم نے بہت سے معاملات اپنے اوپر لاد لیے ہیں۔ بعض معاملات میں غلط فہمیاں عام ہیں اور بعض میں خوش فہمیاں۔ یہ دونوں معاملات ہمارے ذہنی انتشار میں اضافہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے ہی اعمال کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ ہر معاملے میں بیرونی سازش تلاش کرنے کا چلن عام ہے مگر یہ چلن کس قدر بُودا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کو کیا پڑی ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں کرتی پھرے؟ دنیا کو اور بھی بہت سے کام ہیں۔ چند ایک معاملات میں تو یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ بعض قوتیں پاکستان کو پسماندہ رکھنے پر بضد ہیں مگر ہم اپنی بھرپور کوششوں سے بہت کچھ بدل سکتے ہیں۔ عالمی برادری میں نام کمانا مشکل سہی‘ ناممکن ہرگز نہیں۔ اپنے آپ کو بدلنے کی صورت میں ہم اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ عالمی برادری میں پنپنے والوں کی قدر دانی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ کئی اقوام نے اپنی شدید پسماندگی سے چھٹکارا پایا اور ایک نئی‘ بھرپور زندگی کی طرف قدم بڑھایا۔ ہم بہت سے معاملات میں محض مفروضوں کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے طور پر طے کرلیا ہے کہ اب قابلِ رشک انداز سے سنبھلنا اور اپنے آپ کو کسی بلند مقام تک پہنچانا ممکن ہی نہیں۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے اور ہمیں یہ دکھائی بھی دے رہا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمت ہار دی جائے، تھک ہار کر تمام ارادوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے، ولولوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے۔ جو اپنی صلاحیت و سکت کا درست اندازہ لگاکر جامع منصوبہ سازی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، حالات کی پیدا کردہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں وہ بالآخر کامیاب ہوتے ہیں۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا، ترکیہ، ملائیشیا اور دوسرے بہت سے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان ممالک نے حالات کی پیدا کردہ ہر الجھن کا پامردی سے سامنا کیا اور تمام مشکلات کو پچھاڑ کر عالمی برادری میں بلند ہوکر دکھایا۔ہمیں بھی اگر کچھ کر دکھانا ہے تو سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ کچھ کر دکھانا ہے۔ اس مرحلے سے آگے بڑھنے ہی صورت ہی میں کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ہم نے غلامی کے جتنے بھی انداز اختیار کر رکھے ہیں اُنہیں باری باری ترک کرنا ہوگا۔ بہت سی بُری عادتیں ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہیں۔ کرپشن ہماری نفسی ساخت کا حصہ بن چکی ہے۔ دیانت کو زندگی بسر کرنے کا بہترین طریقہ سمجھنے والے اب خال خال ہیں۔ اخلاقی اقدار پر جان دینے والوں کی تعداد بھی اب اُتنی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے۔ ہم نے بہت سے معاملات میں خام خیالی اور بے راہ روی کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ جب تک یہ زنجیر نہیں ٹوٹے گی تب تک کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔
سب سے پہلے تو ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھنا ہے۔ وقت ہی سب سے بڑی دولت ہے۔ اِس کے ضیاع کا ازالہ ہم کسی صورت نہیں کرسکتے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں طے کرنا ہے کہ وقت کو بہترین طریقے سے بروئے کار لانے کو زندگی کی اولین ترجیح بنائے بغیر گزارا نہیں۔ وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد یا ہدف ہونا چاہیے۔ جو کچھ بازار میں دستیاب ہے وہ سب کا سب ہمارے لیے نہیں۔ جو لوگ کسی مہنگی چیز کے متحمل ہوسکتے ہیں بس وہی اُس چیز کو خرید کر بروئے کار لائیں۔ اپنے وسائل کی حدود سے نکل کر کوئی چیز خریدنا دیگر معاملات کو بگاڑ دیتا ہے۔ رشک و حسد سے چھٹکارا بھی ناگزیر ہے۔ کسی کے پاس اگر کوئی معیاری چیز ہے تو ہمیں بھی اُس کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی نہ کسی طور وہ چیز حاصل کرہی لی جائے۔ کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ ''حاصلِ کالم‘‘ یہ ہے کہ آزادی کی بات کرنے سے پہلے ہر طرح کی فضولِ طرزِ غلامی سے نجات یقینی بنائی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved