عوامی تاثر کا یہ ایک عجیب پہلو ہوتا ہے کہ اس کو سمجھا تو جا سکتا ہے مگر اس کا تجزیہ محال ہوتا ہے اور اس تاثر کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ کامیاب نہیں ہوتی۔وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے خطاب پر جو مجموعی قومی تاثر ابھرا ہے وہ سمجھ تو سبھی گئے ہیں مگر اپنی اپنی سیاسی سوچ کے حساب سے جب لوگ اس تاثر کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سوائے ان کی اپنی اپنی سیاسی سوچ کے اور کچھ سامنے نہیں ۔آتا جو کٹر مخالفین ہیں ان کا کہنا ہے کہ تقریر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جو محض مخالفین ہیں وہ کہتے ہیں کہ باتیں تو ٹھیک ہیں مگر عمل دکھائی نہیں دیتا ۔جو مخالف ہیں نہ حامی ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ جو مسلم لیگ ن کے حامی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنا دل کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا ہے اور جو اس جماعت کے کٹر قسم کے حامی ہیں وہ میاں نوازشریف کی اس تقریر کو تاریخی اہمیت کاخطاب قرار دے رہے ہیں۔ ان تمام آراء کا مجموعی عوامی تاثر سے موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مجموعی عوامی دانش کسے کہتے ہیں۔ میری رائے میں عام آدمیوں نے وزیراعظم کی اس تقریر پر جو عمومی تاثر پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ابھی ملکی مسائل پوری طرح وزیراعظم کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ اللہ خیر کرے گا۔ میں نے اس عوامی تاثر کا اندازہ کسی گیلپ پول کے ذریعے نہیں لگایا۔ عام آدمیوں نے وزیراعظم کی تقریر کے حوالے سے میڈیا پر جو تاثرات بیان کیے اور گلیوں بازاروں میں اس حوالے سے مجھے جو کچھ سنائی دیا اس سے مجھے واضح طور پر یہ تاثر ملا کہ ہمارے ہاں عام لوگ اگرچہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل ابھی موجودہ حکومت کے قابو میں نہیں آئے ہیں مگر وہ ابھی مزید انتظار کرنے پر آمادہ ہیں کیونکہ ان کی امید ابھی قائم ہے۔ اب میں مختلف لوگوں سے وزیراعظم کی تقریر کے حوالے سے ہونیوالی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جس کی بنیاد پر میں نے اس عوامی تاثر کا ذکر کیا ہے۔ ایک صاحب کا تبصرہ تھا ’’میں نے تھوڑی سی تقریر سنی، مجھے اندازہ ہوگیا کہ میاں صاحب کے پاس ابھی بتانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ دوسرے صاحب جو ان صاحب کے ہمراہ پان والے کی دکان پر آئے تھے بولے ’’مجھے تو شکل دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ابھی میاں نے بوتل دو انگلیوں سے پکڑی ہے۔ گرپ پوری نہیں ہوئی ہے۔‘‘ اس کے بعد موصوف نے دکان سے سوڈے کی ایک خالی بوتل اٹھائی اور پھر اس کو دو انگلیوں سے پکڑ کر دکھاتے ہوئے: ’’اس وقت میاں بس اتنی گرپ ہے۔‘‘ پھر انہوں نے پانچوں انگلیوں سے بوتل پکڑی اور بولے ’’اگر اس طرح گرپ ہوگئی تو ہمارے مسئلے حل ہونا شروع ہوجائیں گے ورنہ دو انگلیوں سے بوتل زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رہ سکتی‘‘۔ یہ جو گفتگو میں نے بیان کی ہے یہ میں نے پنجابی زبان میں ہونے والی بات چیت کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ گفتگو کرنے والے ان دونوں حضرات سے میں نے پوچھا کہ جب تقریر آپ لوگوں نے پوری سنی نہیں تو یہ تبصرے کیسے کررہے ہیں۔ یہ سن کر وہ ہنسنے لگے۔ ایک بولا: ’’کام کی بات ہو تو پتہ لگ ہی جاتی ہے‘‘ دوسرا بولا: ’’ہم نے تقریر سن کر کیا لینا ہے‘‘ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ووٹ کس کو دیا تھا تو وہ بولے کہ ہم نے کبھی کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ اب کچھ ذکر ایک حلوہ پوری کی دکان پر ہونے والی گفتگو کا۔ ایک صاحب کے جواب میں دوسرے نے کہا تم لوگ پانچ برس جو کچھ کرتے رہے ہو وزیراعظم اس کا رونا رورہے تھے ۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے حامی ایک دوسرے پر طنز کرتے رہے۔ جب وہ چلے گئے تو ایک شخص ،جو ان کی گفتگو سن رہا تھا ،دکاندار کو مخاطب کرکے بولا۔ ’’لڑی وی جاندے نیں تے حکومتاں وی واری واری کردے جاندے نیں۔‘‘ یعنی لڑتے بھی رہتے ہیں اور باری باری حکومتیں بھی کرتے جارہے ہیں۔ یہ شخص جب پوریاں لیکر چلا گیا تو دکاندار نے بتایا ’’ایہہ تحریک انصاف دا اے‘‘ میں نے دکاندار سے پوچھا کہ تم نے رات تقریر سنی تھی۔ اس کا جواب بھی وہی تھا یعنی پوری نہیں سنی تھی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیوں پوری نہیں سن سکے۔ وہ بولا ’’ویسے تو میں اس وقت فارغ تھا مگر مجھے کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ وزیراعظم جو باتیں کررہے تھے ٹھیک ہی ہوں گی۔ ہمیں کیا۔ ہم تو کوئی پکی بات بتائیں تو سنیں گے۔ شروع شروع میں سب کچی کچی باتیں کرتے ہیں۔ وہی کررہے تھے‘‘۔ اسی طرح کے تین چار تجربات مجھے اور ہوئے جن میں ایک چیز مشترک تھی۔ جن عام عوام سے میں نے اس تاثر کا اندازہ لگایا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی تقریر پوری نہیں سنی، یا پوری نہیں سن سکا، لیکن رائے ہر ایک ،قائم کی ہوئی تھی، جن سے یہی تاثر ابھرتا تھا جو میں بیان کر چکا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم نوازشریف حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کو وہ کس انداز میں قابو میں لانے کے لیے کوشاں ہے ،لیکن میں اس عوامی تاثر سے متفق ہوں کہ ابھی تک مسائل پر موجودہ حکومت کی گرفت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ ان کی بدن بولی (Body Language) سے امید کی کرنیں پھوٹ سکیں۔ ملک جن مسائل میں ڈوبا ہوا ہے ان کے لیے تو واضح لائحہ عمل پیش کیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی نے جس طرح ملک کو بے حال کر رکھا ہے اس کا حل صرف یہ نہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی پیش کش کر دی جائے۔ یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گردی کسی اکائی کا نام نہیں ۔ دہشت گرد گروپوں کی شکل میں لڑ رہے ہیں۔ یہ آپس میں بھی ایک نہیں ہیں۔ بعض گروپ ایک دوسرے کے خلاف بھی برسر پیکار رہتے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ جب ہم ان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان گروپوں میں سے ان کی نمائندگی کون کرے گا؟ دوسرا مسئلہ لوڈشیڈنگ کا ہے۔ اس پر بھی حکومت کو کوئی روڈ میپ بنانا ہو گا۔ کبھی چھ ماہ کبھی تین برس اور کبھی پانچ برس کے بعد لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اعلانات سے سوائے کنفیوژن کے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ بے روزگاری بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ جو ادارے نقصان میں جا رہے ہیں ان کی بحالی کی کوشش بھی ہونی چاہیے۔ لیکن ان تمام مسائل کو صرف ڈسکس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ کام سابق حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ بلند و بانگ دعوے کرنا بہت آسان لیکن مسئلے کا حل پیش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم جو حکومت وعدے کر کے اور مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آتی ہے اس کے لئے راہ فرار آسان نہیں۔ تاہم اس میں ناامیدی کی جھلک بھی تاحال نہیں ہے۔ اس صورتحال کا واضح مطلب یہ ہے کہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے جو بڑے بڑے فیصلے ہونے ہیں وہ ابھی اس حکومت نے نہیں کیے ہیں۔ کیا دہشت گردی کو طاقت سے ختم کرنے پر واقعتاً یہ حکومت تیار ہوجائے گی ؟کیونکہ مذاکرات سے کامیابی کا امکان تو ہر کوئی جانتا ہے کہ صفر ہے۔ وزیراعظم نے کہا تو ہے مگر اس کہنے کے پیچھے کوئی فیصلہ نظر نہیں آتا۔ دوسرے تمام معاشی بحرانوں کی وجہ بجلی کا بحران دور کرنے کے لیے جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے اس کی چونکہ ابھی تک کوئی ضمانت فراہم نہیں ہوئی لہٰذا اس حوالے سے بھی حکومت Wait and See کی کیفیت میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس نوعیت کے بڑے فیصلے جب ہوجائیں گے تو وزیراعظم کی تقریر بھی مختلف ہوگی اور اس پر عوامی تاثر بھی مختلف ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved