تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     07-08-2022

یہ نسل جو بھی ہے!

اکیسویں صدی کے آغاز میں جوان ہونے والی نسل 'جنریشن ایکس‘ جبکہ عالمی وبا کورونا کے دوران جوان ہونے والی نسل 'جنریشن وائی‘ کہلاتی ہے۔ دورِ حاضر کی اکثریتی آبادی کو دیے گئے یہ دوعنوانات ہیں۔ نوجوان ہمیشہ ہی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ وہ آبادی کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے خاندانوں کے باہمی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی پسند‘ ناپسند خریداری کے رجحانات کا تعین کرتی ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو قومی اور سماجی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہوئے انتخابات میں سیاسی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ ہر دور کی توجہ کا مرکز نوجوان ہی رہے ہیں۔ تحقیق ان کے ذہنوں کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ والدین اُنہیں سمجھنے اور فکری طور پر اُن کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ تنظیمیں اس کوشش میں رہتی ہیں کہ ان کے انوکھے رجحانات کوکیسے بھانپا جائے جن کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ روایتی سماج کو ان کا رویہ صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ ہر نسل پہلی اور موجودہ نسل کے درمیان فرق پاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ آنے والی نسل کہیں زیادہ پیچیدگی لیے ہوئے ہے۔
تو کیا آپ حیران ہوتے ہیں جب آپ کا چھ ماہ کا بچہ آپ کے سمارٹ فون پر ''کوکو میلن وہیل اِن دی بس‘‘ گانا لگانے کی ضد کرتا ہے؟ کیا آپ یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں کہ آپ کا تین‘ چار سالہ بیٹا کمپیوٹر پر آپ کے ٹیکنیکل مسائل کو آناً فاناً حل کردیتا ہے؟ کیا آپ کو یہ دیکھ کر جھٹکا سا لگتا ہے کہ آپ کا نیا جونیئر ایگزیکٹو بہت ''عامیانہ‘‘ سا لباس پہن کر دفتر میں آ جاتا ہے؟ کیا آپ یہ دیکھ کر غصے سے کھول اٹھتے ہیں کہ بہت مہنگی معاشیات کی ڈگری لینے والا نوجوان ایک روز وِڈیو گیمر بن جاتا ہے؟
اب یہاں 'جنریشن زیڈ‘ بھی ہے۔ آپ اسے 'جنریشن سی‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جو انتہائی غیرمعمولی ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر کا تعلق دوسری عالمی جنگ کے بعد کی نسل سے ہے۔ ہم نے عالمی جنگوں کے بعد بیسویں صدی کا انتہائی پُرامن دور بھی دیکھا۔ 70 اور 80 کی دہائیاں نئے لبرل ازم اور آزاد تجارت کا دور تھا۔ پاکستان خطے میں فروغ پاتی ہوئی معیشت تھا اور اسے کئی ایک آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے جمہوری عدم تسلسل کے باوجود جنوبی ایشیا میں اہمیت حاصل تھی۔ آئیے بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز پر قائم ہونے والی کچھ موجودہ نسلوں کا جائزہ لیں:
اکیسویں صدی کے آغاز میں پیدا ہونے والی نسل: یہ نسل ایک ہنگامہ خیز دنیا میں پیدا ہوئی۔ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت اس نسل کے زیادہ تر افراد کی عمریں 5 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔ یہ نسل عراق اور افغانستان کی جنگوں کے سائے میں پروان چڑھی۔ ان جنگوں نے فریقین کے نظریات کو شدت بخشی اور انتہائی سیاسی قطبیت پیدا ہوئی۔ موجودہ سیاسی ماحول کی ساخت اس کٹھالی سے ہوئی ہے۔ وہ ایک سیاہ فام شخص‘ اوباما کو وائٹ ہاؤس میں دیکھ کر جوش سے وارفتہ ہوگئے لیکن اب ان کے سامنے کساد بازاری اور تیزی سے غیر محفوظ ہوتی ہوئی دنیا بھی تھی۔ روزگار کی تلاش جو اُنہیں معاشی تحفظ فراہم کر سکتی اور ملازمت کے نت نئے مواقع کی تلاش میں وہ دنیا بھر میں پھرے۔ اس پر اُن کے سینئرز نے اُنہیں بے وفا بھی قرار دیا۔ کہا گیا کہ وہ ذہین لیکن ہرجائی اور تخلیقی لیکن غیر مستقل مزاج ذہن رکھتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی نوخیز نسل: یہ نسل اکیسویں صدی میں پیدا ہوئی اور اب یہ نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہی ہے۔ اسے زومر بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے ہائی ٹیک دنیا میں آنکھ کھولی ہے۔ یہ ایک ذہین نسل ہے جو مصنوعی ذہانت کی دنیا سے محبت کرتی ہے جو روایتی اصولوں کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ روایت شکن نسل ہے۔ اسے اپنی تعلیم غیر متعلقہ معلوم ہو سکتی ہے، نوکریاں بے کیف لگ سکتی ہیں، تعلقات بوجھل محسوس ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی کو بھی غلط ثابت کرنا پسند کرتی ہے۔ بہتر کیریئر کے انتخاب میں کسی بھی مشورے سے خود کو مکمل طور پر آزاد سمجھتی ہے۔ پاکستان میں ہم نے اس نوجوان نسل کا عروج دیکھا ہے جہاں وہ سٹارٹ اَپس میں گئے اور قابلِ رشک کمپنی پروفائلز بنانے میں کامیاب رہے؛ تاہم اس کی تکنیکی اور کاروباری ذہانت کے باوجود اس کی مستقل مزاجی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ آپ اسے ایک انتہائی خود غرض زندگی گزارتے ہوئے پائیں گے جہاں کوئی بھی روایتی چیز اس کے لیے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔
عالمی وبا کورونا کے دوران پروان چڑھنے والی نسل: اس پر میرا ایک اور نظریہ ہے۔ یہ نقطۂ نظر مزید تحقیق طلب ہے؛ تاہم گزشتہ دو برسوں میں اس دنیا میں جو انوکھے حالات رونما ہوئے‘ ان کے اثرات جاننے کے لیے طویل عرصے تک مطالعہ کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی نسل ہے جو وبائی امراض کے دوران اور ان کے بعد پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ شاید 5 سے 20 سال تک کی عمر کے ہوں۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے جس کا تجربہ ان کے والدین اور آباؤ اجداد نے کبھی کیا ہو۔ کورونا کے دوران انہیں کمروں میں بند کر دیا گیا۔ سکولوںاورکالجوں سے دور ہوگئے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ملاقات نہ کریں، مصافحہ نہ کریں اور کسی کو گلے نہ لگائیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو ساکت و جامد ہوتے اور چاروں طرف اپنے عزیز و اقارب کو مرتے دیکھا۔ درحقیقت اس نسل نے ایسی خوف ناک فلموں جیسی زندگی بسر کی ہے جو اس سے پہلے کی نسل سکرین پر دیکھ کر لطف اندوز ہوتی تھی۔ کارکنوں کے لیے گھر سے کام کرنا ایک ڈراؤنا خواب بن گیا تھا۔ کام کے دوران گھر میں توازن رکھنا بہت اکتا دینے والا چیلنج تھا۔ وہ جس جسمانی اور ذہنی صدمے سے گزرے‘ وہ دردناک تھا۔ ذہنی تنائو، گھبراہٹ اور بے چینی کا غلبہ رہا۔ گھر میں ملازمت یا ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے باہمی مسائل نے طلاق اور گھریلو تشدد کی شرح میں اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نسل کو محض ''ایک اور نئی نسل‘‘ سمجھنا ان کی درست تفہیم نہیں۔ اس نسل سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ والدین اور دفاتر کے باسز کو اس سے نمٹنے کے لیے ایسی حکمت عملی درکار ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اپنائی گئی تھی۔
1۔ بتائیں مت‘ پوچھیں: زیادہ تر والدین کے علاوہ منیجر حکم چلانے، مشورہ دینے، ہر چیز کے فوائد اور نقصانات کی وضاحت کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن اب سامنے ایک ایسی نسل ہے جو آزاد ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ درحقیقت ٹچ ٹیکنالوجی کی بدولت بہت سی دوسری نسلوں سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ والدین سمارٹ فون کے پکے مخالف ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے سکرین ٹائم سے پریشان ہیں۔ وہ خاندان کے ساتھ وقت کی کمی پر اداس ہیں۔ یہ بے چینی صرف فاصلے بڑھائے گی۔ صبر کرنے کی کوشش کریں اور بتانے کے بجائے پوچھیں۔ انہیں اپنے نظام الاوقات تجویز کرنے دیں۔ اپنے کیریئر کو خود ڈیزائن کرنے دیں۔ والدین کے کردار کو ایک ماسٹر اور ایک مشیر کے بجائے ایک اعتماد کرنے اور سننے والے میں تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ مشکل ہے لیکن ایک بار جب آپ ان کا اعتماد حاصل کر لیں گے تو چیزیں آسان ہو جائیں گی۔ ''مجھے آپ پر بھروسا ہے‘‘، ''آپ کا کیا خیال ہے‘‘، ''پلیز تجویز کریں‘‘ جیسے الفاظ استعمال کریں۔
2۔ معنی خیز کام فراہم کریں: زومرز اس وقت تک زُوم کریں گے جب تک وہ اپنی زندگی میں کوئی قابلِ قدر چیز تلاش نہ کر لیں۔ منیجروں کو ان کے ساتھ قائدانہ گفتگو کرنی چاہیے۔ اگر وہ ملازمت برائے ملازمت کے بجائے اس کی روایتی حدود سے باہر کچھ کرنا چاہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ موسیقی سے محبت کرنے والے ہیں تو انہیں کمپنی میں میوزک ٹیم تیار کرنے دیں۔ اگر وہ ماحولیاتی وجوہات رکھتے ہیں تو انہیں سی ایس آر کا سربراہ بنائیں۔ آپ جتنا زیادہ ان کے ملازمت کے اضافی جذبوں کا خیال رکھیں گے اتنا ہی وہ ملازمت میں اضافی جذبہ ڈالیں گے۔
3۔ اقدار کی حوصلہ افزائی : یہ ایک نسل ہے جو جلدی میں ہے۔ اس کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے خاندان اور والدین‘ دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس میں بنیادی انسانی اقدار کو یقینی بنائیں۔ تیز رفتار آن لائن بزنس کا طریقہ نوجوانوں کو سٹارٹ اَپس کی طرف راغب کر سکتا ہے لیکن اس نسل کے منصوبوں کو دیرپا بنانے کے لیے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسے سمجھایا جائے کہ عزت، دیانت اور محنت مستقل حقائق ہیں۔ دنیا میں لیڈروں کا موجودہ مجموعہ ان اقدار کا عظیم رول ماڈل نہیں ہے، اس لیے کام کی زندگی، کھیلوں اور سول سوسائٹی میں مقامی رول ماڈلز کی شناخت کی ضرورت ہے تاکہ اس میں مضبوط یقین پیدا ہو۔
خیال کبھی کبھی محض فریب ہوتا ہے۔ لوگ اکثر کورونا دور کی نسل کے غیرمعمولی اور لاتعلق رویے کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ اس بظاہر رویے کے پیچھے ایک نسل موجود ہے جو کسی بھی دوسرے سے زیادہ ہوشیار اور روشن ہے۔ اس کے اندر ایک بہت ہی حساس دل اور پریشان اور بے تاب روح ہے۔ اس جگہ خاندانوں اور کمپنیوں کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ''جو بھی ہے‘‘ رویے کو اصل سمجھ کر دھوکا نہ کھائیں۔ اس بظاہر لاتعلقی کے لبادے کے نیچے جھانک کر دیکھیں۔ اس مہم جو نسل کے حوصلوں کو ذرا مہمیز دیں اور دیکھیں یہ کیسی اجنبی، نامعلوم اور نت نئی دنیائوں کے افق کھولتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved