سوشل میڈیا دورِ حاضر میں ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آیا ہے لیکن اس کو چلانے کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ یہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند سرپٹ بھاگتا دکھائی دے رہا ہے جو لوگوں کی عزتوں کو سرعام روندتا جا رہا ہے اور کسی کے قابو میں نہیں آ رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید عوامی سطح پر ابھی تک یہ باور نہیں کرایا جا سکا کہ سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا قابلِ گرفت جرم ہے۔ عملی میدان میں بھی اس طرح سزائیں نہیں دی جا رہیں جس طرح دیگر جرائم پر ایکشن لیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر حادثے اور شہدا کے حوالے سے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ نامناسب خیالات کا اظہار کیا گیا۔ بظاہر یہ ایک منظم کمپین تھی جسے دانستہ طور پر چلایا گیا۔ اس کے لیے سوشل میڈیا پیجز استعمال کیے گئے؛ تاہم ابھی تک یہ پتا نہیں لگایا جا سکا کہ یہ مبینہ مہم پاکستان کے اندر سے چلائی گئی یا بیرونِ ملک سے سوشل میڈیا پیجز مینج کیے گئے۔ آج کے دور میں یہ معلومات حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہا۔ چند منٹوں میں مطلوبہ ہدف تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔ اس طرح کی مہمات سے عوام کے ذہنوں کو منتشر اور نوجوانوں کو کنفیوز کیا جا رہا ہے جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لہٰذا ان ضمن میں فی الفور کارروائی ضروری ہے۔
سیاسی اعتبار سے پاکستان میں سوشل میڈیا کا بہترین استعمال پاکستان تحریک انصاف نے کیا ہے۔ اب پنجاب میں حکومت سازی کے بعد چیئرمین تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر ہونے والے الیکشن میں خود ہی کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے اور ان کے حامیوں کی جانب سے اس فیصلے کی سوشل میڈیا پر پذیرائی کی جا رہی ہے لیکن یہ فیصلہ جمہوری روایات کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات کا مقصد عوامی نمائندگان کو اسمبلی میں لانا ہوتا ہے تا کہ وہ ملک کی قانون سازی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور عوام کی ترجمانی کر سکیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان الیکشن جیتنے کے بعد عوام کی نمائندگی کے لیے اسمبلی کا رخ کریں گے؟ قانونی طور پر عمران خان ایک نشست اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو پہلے بھی ان کے پاس ہے‘ ابھی تک ان کے استعفے کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ ان حلقوں سے الیکشن جیتنے کی صورت میں انہیں ایک سیٹ اپنے پاس رکھ کر باقی سب کو خالی کرنا ہو گا اور ان سب پر دوبارہ الیکشن کروانے کی ضرورت پیش آئے گی اور ایک مرتبہ پھر عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا ضیاع ہو گا۔ آنے والے دنوں میں سیاسی معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ لیکن معاشی میدان سے اب کچھ اچھی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
آرمی چیف کی جانب سے امریکا کو آئی ایم ایف پر دبائو ڈالنے کے حوالے سے کی گئی درخواست کے مثبت نتائج آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے معاشی استحکام کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں تاریخی کمی دیکھی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ اگلے چند روز تک کمی کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آرمی چیف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی بات کی ہے جس کے بعد وہ چار ارب ڈالرز تیل کی مد میں دینے پر راضی ہو گئے ہیں اور مبینہ طور پر آئی ایم ایف کو اس حوالے سے مطلع کر دیا گیا ہے۔ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ پاکستان کے دوست ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے کے بعد تقریباً آٹھ ارب ڈالرز کا قرض پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی بانڈز‘ جو پچاس فیصد پر بیچے جا رہے تھے‘ کی قیمت بھی مکمل طور پر بحال ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی ریٹنگ منفی سے دوبارہ مثبت کر دی ہے۔
اگر ڈالر کا ریٹ کم ہونے کے معاملے پر نظر ڈالی جائے تو اس حوالے سے حکومت پاکستان اور سٹیٹ بینک کی کوششوں کو بھی سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ درآمدات پر پابندی لگانے کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے منی ایکسچینجرز کے خلاف کریک ڈاؤن نے مبینہ طور پر ڈالر کی مصنوعی قیمت کو نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سٹیٹ بینک ذرائع کے مطابق سٹیٹ بینک کے اہلکار اپنی شناخت چھپا کر بطور عام شہری منی ایکسچینجرز کے پاس جا کر ڈالر کی خریدوفروخت کر رہے تھے جس سے یہ انکشاف ہوا کہ منی ایکسچینجرز ڈالرز ہونے کے باوجود یہ بتا رہے تھے کہ ڈالرز ختم ہو گئے ہیں اور اصرار کرنے پر زیادہ ریٹ بتا کر بیچ رہے ہیں۔ کچھ کمپنیوں کی فرنچائزز کو بند کیا گیا ہے اور کچھ پر جرمانے عائد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے بھی متحرک دکھائی دیتی ہے۔ اس کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے نجی بینکوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وہ مبینہ طور پر مارکیٹ سے 240 کا ڈالر خرید کر 255 روپے کا بیچ رہے تھے۔ ان بینکوں کو جرمانہ ہو سکے گا‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بینکوں نے کئی سالوں کا منافع گزشتہ پندرہ دنوں میں کما لیا ہے۔ شوکت ترین صاحب کے دور میں بھی سٹیٹ بینک نے ڈالر کا ریٹ مصنوعی طور پر بڑھانے پر بینکوں کو وارننگ دی تھی لیکن سزا نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر پر سٹہ کھیلنے کا عمل رک نہیں پا رہا اور ہر سال اس نظام کے تحت مبینہ طور پر اربوں روپیہ کما لیا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ جب تک بینکوں کو بھاری جرمانے نہیں کیے جائیں گے ملک میں ڈالر غیر مستحکم رہے گا۔ حکومت اور سٹیٹ بینک کو اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے اور اگر اس حوالے سے عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رائے تقویت اختیار کر سکتی ہے کہ ڈالر کی سٹے بازی مافیاز اور سرکار کی ملی بھگت سے تھی۔
اس کے علاوہ بین الاقومی سطح پر تیزی سے بدلتی صورتحال بھی ڈالر ریٹ میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے۔ تائیوان کے معاملے پر امریکا اور چین کے مابین حالات کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چین میں پیداواری صنعت کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ تیل کی مانگ کم ہوئی ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں جس کا فائدہ پاکستانی مارکیٹ کو ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اوپیک پلس ممالک نے تیل کی پیداوار بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جس سے ڈیمانڈ اور سپلائی میں واضح فرق آنے کی توقع ہے۔ اس کا اثر بھی آنے والے دنوں میں پاکستانی مارکیٹ پر پڑ سکتا ہے اور ڈالر کی مانگ میں کمی آ سکتی ہے۔ ڈالر کی قدر مزید کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس مہینے پاکستان کو ممکنہ طور پر تیل کی ادائیگی نہیں کرنی کیونکہ پاکستان کے پاس تیل کے ذخائر ضرورت کے مطابق موجود ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر ہر سال مئی اور جون میں تیل زیادہ خریدا جاتا ہے اسی لیے ان مہینوں پر روپے پر زیادہ دبائورہتا ہے۔ پچھلے مہینوں میں خریدے گئے تیل کا ریلیف ممکنہ طور پر اس مہینے مل سکتا ہے۔ برآمد کنندگان پر حکومتی دبائو بھی کام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ڈالر مافیا ان حالات سے بخوبی آگاہ دکھائی دیتا ہے شاید اسی لیے مارکیٹ میں ڈالر بیچا جا رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ڈالر 210 روپے تک گر سکتا ہے لیکن اس کے بعد دوبارہ 225 روپے کی سطح پر آ کر کچھ عرصے کے لیے مستحکم ہو سکتا ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں ڈالر کی قیمت کا انحصار عالمی منظر نامے، پاکستان کی افغان پالیسی اور پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات پر منحصر دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اگر امریکا پاکستان کی مدد کر رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ امریکا نے بھی اس کے بدلے کچھ مطالبات رکھے ہوں‘ جن کی بروقت تکمیل پاکستان کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved