جن لوگوں کے وہم وگمان میں بھی یہ تصور یا تجزیہ موجود ہے کہ دنیا بھر میں چلنے والی اسلامی شدت پسند تحریکیں اور مسلح جدوجہد کسی ملک کے اندرونی حالات و واقعات کی پیداوار ہیں اور بعد میں وہ ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ بنیں تو یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا نہ تو حقیقت سے کوئی واسطہ ہے اور نہ تاریخ سے کوئی تعلق۔ گیارہ ستمبر کے واقعہ سے پہلے ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کی شدت پسندی اور جہادی تنظیموں کا ذکر امریکہ اور یورپ کے ہر بڑے پالیسی ساز ادارے، تعلیمی درس گاہ اور میڈیا ہائوس میں بکثرت ملتا تھا۔ لیکن سب کے سب انہیں کسی خاص علاقے، کسی بڑے تنازعے یا کسی نظریاتی جدوجہد کے حوالے سے پہچانتے تھے۔ یہ فلسطینی ہیں، کشمیری ہیں، افغان ہیں، افریقی ممالک کے جنگجو ہیں۔ لیکن گیارہ ستمبر کے بعد دنیا انہیں عالمی نیٹ ورک کے حوالے سے یاد کرنے لگی اور اس کی ایک بہت بڑی علامت اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو دنیا میں دہشت گردی کا قائد اور لیڈر تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے بعد انڈونیشیا ہو یا عراق، افغانستان ہو یا بنگلہ دیش، مالی ہو یا لیبیا‘ جہاں بھی کوئی علاقائی تنظیم اپنے مخصوص حالات و واقعات کے مطابق جدوجہد کر رہی تھی اور اس میں شدت پسند انہ خیالات موجود تھے‘ اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ دیا گیا۔ لیکن القاعدہ نے کیسے جنم لیا اور مسلح جدوجہد کا تصور ایک عالمی حیثیت کیسے اختیار کر گیا؟ یہ وہ قابل غور نکتہ ہے جس سے دنیا بھر کے دانشور، سیاست دان اور عسکری حلقے جانتے بوجھتے ہوئے آنکھیں پھیر کر اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ دنیا بھر میں تمام سیکولر دانشور اور جمہوری اقدار کے فروغ کے علمبردار ایک بات زور دے کر کہتے ہیں کہ مسلم اُمہ نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے۔ یہ ایک خواب ہے۔ یہ کبھی ایک نہیں رہی۔ اس تصور کے حق میں سب سے بڑی مثال یہ دی جاتی ہے کہ جو امیر مسلمان ممالک ہیں اور تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ دوسرے غریب مسلم ممالک کے افراد سے مزدوریاں کرواتے ہیں‘ انہیں نوکریاں دیتے ہیں‘ لیکن نہ توانہیں شہریت دیتے ہیں اور نہ ہی برابری کا درجہ۔ بلکہ یہ ممالک دنیا کے کسی بھی علاقے سے پناہ کے لیے آئے ہوئے لُٹے پٹے مسلمانوں کو اپنے علاقوں میں مہاجر کی حیثیت سے بھی نہیں رہنے دیتے۔ یہ کیسی مسلم اُمہ ہے؟ یہ سوال وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے خود پوری دنیا کو جنگ عظیم اوّل کے بعد ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ملک بنائے، سرحدیں بانٹیں، پاسپورٹ اور ویزے کا تصور پیدا کیا ا ور پھر ایک مصنوعی وطنیت کا تصور پیدا کر کے دنیا کے تمام انسانوں کو چڑیاگھر کے پنجروں کی طرح قید کر دیا۔ اسلامی دنیا بھی انہی قوتوں کے ہاتھوں قومیتوں کے عذاب میں مبتلا ہوئی۔پھر ان پر ایسے ظالم اور ڈکٹیٹر حکمران مسلط کیے گئے جنہوں نے ملکوں کو ایک قوم کی ملکیت نہیں بلکہ اپنی جاگیر سمجھا اور جاگیر میں کوئی کسی دوسرے کو گھسنے نہیں دیتا۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی جاگیر میں بھی جاگیردار دوسروں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتا اور اس کے پیچھے ایک خوف چھپا ہوتا ہے کہ کہیں میری جاگیر پر قبضہ نہ ہو جائے۔ ان جاگیردار، ظالم، آمر اور مغربی طاقتوں کے مسلط کردہ حکمرانوں کے رویوں اور ایک دوسرے سے لاتعلقی کو دیکھ کر مذکورہ تبصرہ نگار، دانشور اور سیاست دان گذشتہ ایک سو سال سے یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ مسلم اُمہ یا امت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں۔ انہیں اندازہ تک نہ تھا کہ ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں اور پچاس سے زیادہ حکمرانوں اور ان کے چند لاکھ حواریوں میں کیا فرق اور ان کی سوچ میں کیا اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس بات سے لا علم رہے کہ اس ا مت کے دل جس طرح ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے ہیں، اس سے ایک دن ان حکمرانوں کے لیے ایسا ردّ عمل پیدا ہوگا کہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں گے لیکن پھر بھی اس کا حل نہ نکلے گا۔ایسا کیسے ہو گیا کہ مراکش کے ساحلوں، صومالیہ کے ریگستانوں، مصر کے دریائے نیل کے سبزہ زاروں، حجاز، عراق، تاجکستان، ازبکستان، افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے جزائر تک کتنے ایسے لوگ تھے جو دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر مدتوں تڑپتے رہے، ان کے دل خون کے آنسو روتے رہے، ان کے اندر ایک لاوا پکتا رہا۔ ان کے حکمرانوں نے لاکھ کہا، تجزیہ نگاروں نے لاکھ سمجھایا کہ فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، عراق اور افغانستان کا مسئلہ ان ملکوں اور علاقوں کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں، ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بھی لگا لیکن اس کے باوجود وہ لوگ جو مسلسل زیادتیوں اور ظلم کی وجہ سے ایک جذباتی الائو میں جل رہے تھے انہوں نے اس منطق کو تسلیم نہ کیا۔ وہ اسے پوری مسلم امّہ کا مسئلہ ہی سمجھتے رہے اور پھر یہ لوگ عالمی سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے لگے۔ ایک دوسرے کے ملک میں جا کر لڑنے لگے ان کے نزدیک یہ تمام سرحدیں جو مسلمانوں کے درمیان بنائی گئی تھیں‘ بے معنی ہو کر رہ گئیں۔ آپ ان لوگوں کا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، ان کی ویب سائٹس پر گھوم لیں‘ آپ کو کہیں بھی یہ لوگ ایک ملک یا علاقے کے ظلم کی داستان بیان کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ سب کے سب دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی کہانیاں سنائیں گے۔ یہ ہے وہ ردّ عمل جو مسلم امّہ کے تصور کی نفی سے جنم لیتا ہے۔ یہ سب کے سب لوگ‘ جو عالمی طاقتوں اور اپنے نام نہاد مسلمان حکمرانوں سے بیزار ہیں‘ شدت پسندی کے پرچم بردار ہیں۔ لیکن اگر ان تمام مسلم ممالک کے عوام کے درمیان سروے کروایا جائے اور کسی بھی دور دراز کے ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بابت پوچھا جائے تو سب کے سب اس کو بحیثیت امت ظلم ہی کہیں گے اور اس کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار بھی کریں گے۔ یہ وہ عمومی فضا ہے جو تمام امت کے ممالک کے عوام میں پائی جاتی ہے۔ آپ حج کے دوران کسی بھی دوسرے ملک کے حاجی سے اس طرح کے مظالم کے بارے میں سوال کر کے دیکھ لیں‘ وہ پھٹ پڑے گا اور پھر اپنے بے غیرت حکمرانوں کو بے نقط سنانے لگے گا جو اس ظلم پر خاموش رہتے ہیں۔ جہاں جہاں ایسے حکمران موجود ہیں جو مغرب کی چاپلوسی اور ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے اس ظلم پر خاموش رہتے ہیں‘ وہاں شدت پسندی اپنی جڑیں مضبوط کرتی جا رہی ہے‘ لیکن جہاں جہاں حکمران غیرت و حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے، مسلم امت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں وہاں نہ شدت پسندی ہے اور نہ ہی حکومت مخالف جذبات۔ ہمارے سیکولر دانشور ترکی کے اسلام کی بہت تعریف کرتے ہیں اور اس کی جمہوریت اور معاشی ترقی کے گن گاتے ہیں۔ ترکی میں یہ استحکام کس لیے آیا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اور طیب اردوان اور حکمرانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ وہ مسلم امّہ کے کسی بھی ملک کے لیے ویسے ہی تڑپتا ہے جیسے اس کے شہریوں کے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔ اسرائیل کے زیر تسلط پورا غزہ شہربلکتا ہے تو فریڈم فیوٹیلا کا جہاز روانہ ہوتا ہے۔ برما میں مسلمان شہید ہوں تو اس کی بیوی وہاں جا پہنچتی ہے۔ بنگلہ دیش میں اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں پر ظلم ہو تو ترکی احتجاج کرتا ہے، شام میں لاکھوں بے کس شہری مارے جائیں تو مدد کو دوڑتا ہے۔ امریکہ عراق پرحملہ کرے تو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے انکار کرتا ہے اور اب مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر اخوان کے ساتھ یک جہتی کا ایسا اظہار کرتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے چار انگلیوں کے نشان کو ایک علامت بنالیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ وہاں القاعدہ پنپتی ہے اور نہ کوئی اور شدت پسند تحریک ۔ شدت پسندی کی جڑیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمران منافق ہو جائیں۔ عوام کے سامنے کچھ بولیں اور مغربی آقائوں کے سامنے جھک کر خوف سے تھرتھر کا نپتے ہوئے کچھ اور وعدے کرتے پھریں۔ یہ خوف زدہ منافق حکمران آپ کو اکثر مسلم ممالک میں ملیں گے۔ اللہ نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر52میں ان کی پہچان یہ بتائی ہے: ’’تو آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں مرض ہے‘ وہ کافروں کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں کہ کہیں ہم پر آفت نہ آجائے‘‘۔ یہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے‘ یہ کیسے مان لیں کہ سب مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ اس وقت مانتے ہیں جب سب بندوقیں ایک ساتھ ان کے خلاف گرجنے لگ جائیں۔ مصر میں ظلم و بربریت پر خاموش رہنے والے لاکھ سکیورٹی پالیسی بنائیں‘ لوگ ان کے رویوں کو جانتے ہیں۔ یہی رویوں اور پالیسیوں کی منافقت ہوتی ہے جو شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved