ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں سبھی کو کچھ نہ کچھ بولنے کا ہَوکا ہے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ بولنے کا ہوکا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے اور ہر عہد میں رہا ہے۔ ہاں‘ اب بے مثال مادّی ترقی نے انسان کو بدحواس کردیا ہے اور وہ شدید ذہنی انتشار کے ساتھ جی رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ بولنے اور خاموش رہنے کے فرق کو بھی نظر انداز کرچکا ہے۔ ہر عہد میں بہت سے ایسے اہلِ علم رہے ہیں جو خاموش بھی رہتے تھے تو بول رہے ہوتے تھے اور دوسری طرف ایسے احمق بھی بڑی تعداد میں تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر ڈھنگ سے کچھ کہہ نہیں پاتے تھے۔ بہت بولنے کے باوجود اُن کا کہا اَن کہا رہ جاتا تھا۔ انسان جب علم کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے تو سوچ بچار کے ذریعے عقلِ سلیم کی منزل تک بھی پہنچ جاتا ہے تب اُس کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کے بارے میں اُس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ شخصیت نکھرتی ہے تو سبھی کچھ نکھر جاتا ہے۔ ایسے میں نہ بولنا بھی بولنے کے مساوی ٹھہرتا ہے۔ جو لوگ بولنے کے معاملے میں شعور کو زحمتِ کار دینے کے روادار نہ رہے ہوں وہ اِس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ بولنے کے فن کی بلندی کا ایک عملی مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں خاموش رہنا ہو وہاں بالکل خاموش رہا جائے۔
افلاطون کا ایک خوبصورت جملہ کچھ یوں ہے کہ عقل مند اُس وقت منہ کھولتے ہیں جب اُنہیں کچھ کہنا ہوتا ہے اور بے وقوف کچھ نہ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے اب گلی گلی، بلکہ گام گام ''اہلِ دانش‘‘ پائے جاتے ہیں۔ اِن کا صرف ایک کام ہے‘ بولنا۔ بولتے وقت یہ کچھ بھی نہیں سوچتے۔ سوچتے تو بولتے ہی کیوں؟ جیسے ہی اِنہیں کچھ معلوم ہوتا ہے یہ دوسروں تک ''علم‘‘ پہنچانے کے لیے منہ کھول بیٹھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے ذریعے طرح طرح کی معلومات اِن تک پہنچتی رہتی ہیں اور اِن میں بہت سی باتیں نہ اِن سے متعلق ہوتی ہیں نہ اُن سے متعلق جنہیں یہ بتانے پر تُل جاتے ہیں۔ تو پھر یہ بتانا کس کھاتے میں آئے گا؟ بولنے کے کھاتے میں! کہنے اور بولنے میں بہت فرق ہے مگر یہ فرق ہمارے ہاں یوں نظر انداز کردیا گیا ہے کہ انسان بس دیکھتا اور سوچتا ہی رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی عطا کی ہے تو صرف اس لیے کہ اِس کی مدد سے اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنائی جائے۔ قوتِ گویائی کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتا ہی رہے۔ انسان اِس لیے کھاتا ہے کہ زندہ رہ سکے۔ ہم اس لیے زندہ نہیں کہ کھاتے ہی رہیں۔ یہی معاملہ بولنے کا ہے۔ زبان بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور بولنے کی لیاقت و مہارت بھی۔ یہ ساری نعمت اس لیے نہیں کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کی صورت میں ضائع کردی جائے۔
کسی بھی انسان کے لیے بولنا لازم ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر ایسے بہت سے مراحل سے گزرتے ہیں جب بولنا ہی پڑتا ہے۔ جہاں ضروری ہو وہاں بولنا ہمارے فائدے کا سودا ہے اور اگر ہم ڈھنگ سے بولنا جانتے اور چاہتے ہوں تو دوسروں کا بھی بھلا ہو جاتا ہے۔ بولنے کے مرحلے میں انسان اگر عقل بروئے کار لانے پر متوجہ ہو تو معاملات کو آسانی سے درست کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ لوگ زبان کو متحرک کرنے سے قبل سوچنے کی زحمت گوارا کرنے کے عادی نہیں رہے۔ بولنے کی عادت اس مفروضے کے تحت انتہائی حد تک پروان چڑھائی گئی ہے کہ بولنا ہی زندگی ہے۔ زندگی بہت سی باتوں اور بہت سے معاملات سے مل کر بنتی ہے۔ بولنا بھی اُن معاملات کا حصہ ہے۔ محض بولنے یا بولتے رہنے کو زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہر عہد کے اہلِ دانش نے ڈھنگ سے بولنے کی اہمیت اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ہر عہد کے عام آدمی کو یہ بتانے والے موجود رہے ہیں کہ ڈھنگ سے بولنے ہی کو بولنا کہا جاسکتا ہے۔ فضول گفتگو کو ہم گویائی کی صلاحیت کی توہین سے بڑھ کر کچھ بھی قرار نہیں دے سکتے۔ معاشرہ یہ توہین تواتر سے‘ بلا ناغہ کیے جارہا ہے اور اصلاحِ احوال پر آمادہ بھی نہیں۔
اہلِ دانش نے ہمیشہ اس نکتے پر زور دیا ہے کہ بولنے سے پہلے تولا جائے یعنی بہت سوچ سمجھ کر بولا جائے۔ جہاں بولنے کی ضرورت نہ ہو وہاں ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگائے رہنے میں کچھ حرج نہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاں بولنا لازم ہو وہاں نہ بولنے سے نقصان پہنچتا ہے؛ تاہم یہ نقصان اُس نقصان سے کم ہوتا ہے جو بولنے کی ضرورت نہ ہونے پر لب کشائی سے پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا بھی ہے۔ ہمارا معاشرہ ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران غیر معمولی تیزی سے اور خطرناک حد تک تبدیل ہوا ہے۔ تبدیلیاں (یقینا منفی) اِتنی زیادہ ہیں کہ اُن کے بارے میں اور بالخصوص اُن کے مضمرات پر گھنٹوں سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے۔ فکر کی کجی بھی کم نہیں اور کم نظری نے بھی بہت گل کھلائے ہیں۔ اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ فکری ساخت اور مزاج میں در آنے والی خرابیوں اور خامیوں نے ہمیں کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم بلا ضرورت بولنے، بلکہ بولتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ معاملات کو بگاڑنے والی عادتیں اور بھی بہت سی ہیں مگر یہ عادت کچھ زیادہ بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ زیادہ اور بلا ضرورت بولنے سے خرابیاں کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بنتے کام بھی بگڑنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ ضرورت محسوس ہونے پر خاموش رہنے میں بھی قباحت ہے مگر کمتر درجے کی۔ بلا ضرورت اور بلا جواز لب کشائی الجھنوں کو راہ دیتی ہے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران پنپنے والی بُری عادتوں اور ذہنی الجھنوں نے عام شہری کو بظاہر کسی جواز کے بغیر‘ یہ باور کرایا ہے کہ بولنے ہی سے اُسے پہچانا اور تسلیم کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بولنا انسان کی پہچان نہیں بلکہ پہچان یقینی بنانے کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ ڈھنگ سے بولنا انسان کو مقبولیت سے ہم کنار کرتا ہے۔ ڈھنگ سے اپنی بات کہنا ہی انسان کے لیے کامیابی کی راہ آسان کرتا ہے۔ میڈیا کے بُوم نے جہاں اور بہت کچھ بگاڑا ہے وہیں انسان کی بولنے کی لیاقت کا بھی تیا پانچہ کردیا ہے۔ یہ ایک ایسی لیاقت ہے جس کے درست استعمال سے زندگی کا توازن برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ بولنے کا فن سیکھنے پر متوجہ ہونے والے مختلف شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اداکاری کیا ہے؟ بولنا! اشتہارات میں بھی بولنے ہی کا فن کام آتا ہے۔ بہت سے لوگ بولنے کے فن میں مہارت حاصل کرکے وائس آرٹسٹ کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں اور خوب کما رہے ہیں۔ سیلزمین کیا کرتا ہے؟ بولتا ہی تو ہے۔ استاد کون ہوتا ہے؟ جو درست الفاظ کے چنائو سے اپنی بات مخاطب کے ذہن میں اتارنے کا فن جانتا ہے ۔اِسی طور گلی گلی گھوم کر مال بیچنے والے بھی درحقیقت بولنے کے فن میں مہارت ہی کے سبب کچھ کما رہے ہوتے ہیں۔ سٹینڈ اَپ کامیڈی کیا ہے؟ بولنا اور ہنسانا۔ تجزیہ کار کس بنیاد پر کامیاب ہیں؟ صرف بولنے کی مہارت کے بل پر۔ عام آدمی زندگی بھر بہت سوں کو دیکھتا ہے کہ ڈھنگ سے بولنے کی مہارت پروان چڑھاکر کامیاب ہوئے ہیں مگر پھر بھی وہ کچھ سیکھنے کی طرف نہیں آتا۔
بولنے کے معاملے میں شعور کو زحمتِ کار دینے کی جتنی ضرورت اِس وقت ہے اُتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ غلط وقت اور ضرورت سے بہت کم یا بہت زیادہ بولنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کبھی کبھی ناممکن ٹھہرتا ہے۔ دنیا میں ہماری آمد صرف ایک بار کا معاملہ ہے۔ اِتنی قیمتی زندگی کو بے ڈھنگے انداز سے کی جانے والی لب کشائی کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ بولیے ضرور کہ بولے بغیر چارہ نہیں مگر اچھا بولیے، تول مول کر بولیے، صرف کام کی بات بیان کرنے کے لیے بولیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو چپ رہنے میں بہتری ہے۔ آپ کی لیاقت دل کی گہرائی سے اُسی وقت تسلیم کی جائے گی جب آپ کی خاموشی بولنا سیکھ جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved