دنیا بھر میں تمام ممالک کو وقتاًفوقتاًقدرتی آفات اور تباہی کا سامنا رہتا ہے‘ تاہم ان کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ان چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے کسی بھی ریاست اور سوسائٹی کی استعداد مختلف ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی شدید بارشوں‘سیلاب‘ سمندری طوفانوں‘زلزلوں اور بیماریوں کی صورت میںمختلف قدرتی آفات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ اپنے داخلی وسائل سے ان آفات کا مقابلہ کیا ہے جس میں تینوںمسلح افواج سمیت سرکاری ایجنسیوں کی خدمات کے علاوہ رضاکارانہ طورپر افراد اور تنظیموں کی بھرپور معاونت شامل رہی۔اکثر اوقات دوست ممالک‘یو این او جیسے اداروں‘رضاکار گروپس اور اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے بھی مالی اور مادی امداد ملتی رہتی ہے۔ان دنوں بھی پاکستا ن کے مختلف حصے شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی زد میں ہیں؛چنانچہ گلگت بلتستان سمیت پاکستا ن کے تمام صوبوں میں شدید جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ان میں صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ بارشوں سے متاثر ہو ا ہے۔ناقص منصوبہ بندی‘وسائل کی قلت اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے اس صوبے کے پاس پہلے ہی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
جس طرح کووڈ کی وبا نے دنیا بھر کے ممالک میں جانی او رمالی تباہی مچائی پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے پہلے کسی عالمی وبا اور قدرتی آفت نے اتنا نقصان نہیں پہنچایاتھا۔پاکستان میں اس کا پہلا مریض فروری 2020ء کے آخری ہفتے میں منظر عام پر آیا تھا اور وسط مارچ تک پورا پاکستان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آگیا۔حکومت پاکستان نے اس عالمی وبا سے نمٹنے کیلئے ایک الگ انتظامی ادارہ قائم کر دیا اور دنیا کے اکثر ممالک کے برعکس پاکستان اس قدرتی آفت سے انتہائی دانشمندی سے نبردآزما ہوا۔کووڈ کے ابتدائی مراحل میں تو پاکستان کے پاس وائرس ٹیسٹ کرنے والی کِٹس‘میڈیکل گائونز‘ ماسک اور وینٹی لیٹرز کی شدید کمی تھی۔شروع میں تو پاکستان نے یہ تمام آئٹمز چین سے خریدے‘تاہم بعد میں اس نے دیگر ممالک سے بھی ضروری آلات خریدے اور ان میں سے زیادہ تر آلات خود بھی تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی۔ اگر ہم کووڈ‘ماضی میں آنے والے زلزلوں‘حالیہ بارشوں اور سیلابوں کے انتظامات کااجتماعی جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی آفات اور تباہی ہمارے داخلی امن وامان‘گورننس اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ قدرتی آفات بھی ہماری سکیورٹی کیلئے اتنی ہی سنگین ہوتی ہیں جتنی ہماری جغرافیائی سرحدوں کے باہر سے ہونے والی جارحیت یا بیرونی عناصر کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی ہماری سکیورٹی کیلئے خطر ناک ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی کا بھرپور جائزہ لیں جس میں داخلی خطرات کے ساتھ ساتھ خارجی خطرات بھی پیش نظر ہوں۔ یاد رکھیں کہ داخلی چیلنجز ہمارے معاشرے کی اندرونی تباہی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
ریلیف او رریسکیو کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہمیں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ ان اقداما ت کے سماج کے مختلف طبقات پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔آبادی کے متمول طبقات اور جہاں بہتر شہری سہولیات وافر مقدار میں میسر ہوتی ہیں‘کے مقابلے میں ان طبقات کو زیادہ نقصان اور تباہی کا سامناکرنا پڑتا ہے جہاں کسی بھی معاشرے کے افلاس زدہ یا نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے افراد یا وہ لوگ رہتے ہیں جنہیں ان دور دراز علاقوں میں محدود بنیادی انسانی اور شہری ضروریات میسر ہوتی ہیں۔اس لیے ریلیف اور ریسکیوکی سہولیات فراہم کرتے وقت ہمیں اپنے عوام اور ان کی سہولیات کے ڈھانچے اور خصوصیات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جب کورونا کے سخت چیلنج کے دنوں میں ہمیں لاک ڈائون اور سماجی فاصلے جیسی احتیاطی تدابیر پر عمل پیراہونا پڑا تو عوام پر اس کے متنوع قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔متمول کمیونٹی کے مقابلے میں غریب اور نچلے طبقا ت پر کووڈ کی پابندیوں کے سنگین منفی اثرات پڑے۔ان قوانین نے امرا کے مقابلے میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے معاشی مواقع محدود کر دیے تھے کیونکہ دیہاڑی دار طبقے کو اپنا گھر اورکچن چلانے کے لیے روزانہ کام کی ضرورت ہوتی ہے۔وفاقی حکومت کی سطح پراپریل 2020ء میں شہروں اور قصبات کو مکمل بند کرنے کے بجائے سمارٹ اور ٹارگٹڈ لاک ڈائون کا دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا۔
اگر ہم حالیہ برسوں کی قدرتی آفات پر توجہ دیں مثلاًآزاد کشمیر اور اس سے ملحق علاقوں میں اکتوبر 2005ء کا زلزلہ ہو‘ 2010ء میں آنے والا سیلاب ہو یا حالیہ بارشوں اور سیلاب کو دیکھ لیں توہمیں انتہائی اہم پہلوئوں پر غور وخوض کی ضرورت ہے۔آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد حکومتی اور سماجی حلقوں کی طرف سے فوری ردعمل سامنے آیا تھا۔سماجی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں نے حکومتی ایجنسیوں کے مقابلے میں تیز رفتار ریلیف کا کام کیا۔دیگر ممالک کی طرف سے بھی مالی اور مادی سپورٹ فراہم کی گئی۔کچھ عالمی تنظیموں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانی او رکشمیری شہریوں نے بھی دل کھول کر امدادی کام میں حصہ لیا۔فوری طورپر تو انتہائی عمدہ ریلیف فراہم کر دیا گیا مگر بعد کے حالات میں پاکستان او رآزادکشمیر کی حکومتوں نے زلزلے سے متاثرہ افراد اور علاقوں کی بحالی میں ناقص کارکردگی کامظاہر ہ کیا۔
حالیہ بارشوں او رسیلاب کے دوران خاص طور پر بلوچستان میں سرکاری امداد کی فراہمی کا سلسلہ انتہائی سست رفتار تھا۔حکومتی حلقوں کی طرف سے ریسکیواو رریلیف کا موثر کام کرنے میں تاخیراورکوتاہی سے کام لیا گیا۔ ریلیف کے کام میں تیزی لانے کیلئے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ان متاثر ہ علاقوں میں خود جانا پڑا۔مستقبل قریب میں ایسی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ہمیںمتعدد ایشوزپر فوری توجہ دینا ہوگی۔بنیادی سوال یہ ٹھہرا کہ ریلیف کے کام میںتیزی لانے کیلئے وزیر اعظم کا دورہ ہی کیوں ناگزیر ہے؟آخر ضلع کی بنیاد پر ایک دیر پا اور پائیدار ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کیوں موجود نہیں ہے جو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے موقع پردستیاب ہو؟
ایسے مواقع پر تینوںمسلح افواج اور پیر املٹری ٹروپس خاص طورپر پاک آرمی کی خدمات پر ہی ریسکیواور ریلیف کیلئے انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مجبوری اس امر کی عکاسی کیلئے کافی ہے کہ ہماری سویلین اتھارٹیز کسی بھی مشکل اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی استعداد نہیں رکھتی۔جب آفت اور تباہی کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے تو سویلین حکام بھی لوگوں اور علاقے کی بحالی کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا شروع کر دیتے ہیں؛چنانچہ آفت زدہ علاقوں میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوجاتا اور عوام میں اشتعال اور نظر انداز کیے جانے کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔قومی سطح پر این ڈی ایم اے اور صوبائی لیول پر پی ڈی ایم اے آفات اور ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے انتہائی مفید کام کررہے ہیں مگر انہیں چاہئے کہ ضلعی سطح پر بارشوں‘ سیلاب اور دیگر آفات سے نمٹنے کیلئے اپنی استعداد میں اضافہ کریں۔
آب وہوا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بارشوں اور سیلاب کے پیٹرنز پر ریسرچ اور سٹڈی کرنے کی فوری ضرورت ہے۔پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کے بہائو کی سمت کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری پلاننگ ہونی چاہئے۔اس طرح ہمیں پانی کی وافر مقدار میں دستیابی کے دنوں میں اسے ذخیرہ کرنے اور خشک موسم میں اسے استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اب یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ کوئی آفت آئے گی توہم اس کے بعد ہی سرگرم عمل ہو ں گے۔ہمیں متاثرہ افراد کی بروقت مدد کیلئے مطلوبہ وسائل اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved