پھیلنا اور مسلسل پھیلتے جانا کچھ کراچی پر موقوف نہیں۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، حیدر آباد اور دوسرے بہت سے شہر بھی مسلسل پھیل رہے ہیں اور اِس عمل کے نتیجے میں کچھ سے کچھ ہوتے جارہے ہیں۔ شہروں کا پھیلنا حیرت انگیز نہیں کیونکہ یہ رجحان تو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ دیہی آبادی کا شہری علاقوں میں منتقل ہونا فطری امر ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب دیہی علاقوں میں روزگار اور بنیادی سہولتوں کے حوالے سے زیادہ کشش نہ رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام آدمی کو بڑے شہروں میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے جبکہ یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے دیہات کا معیار ہمارے شہروں سے بہتر ہے!
خیر، دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف متواتر نقل مکانی کی نفسی اور معاشرتی وجوہ پر بحث پھر کبھی سہی۔ اس وقت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کا ہے۔ یہ مسئلہ روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ شہروں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دیہات سے آکر شہروں میں بسنے والے تمام افراد خالی ہاتھ آتے ہیں۔ آج پاکستان بھر میں دیہات سے کھاتے پیتے لوگ بھی سب کچھ بیچ کر شہروں میں آباد ہو رہے ہیں یا آباد ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دیہات میں صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سفر کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ دیہات کو مضبوط بنانے پر بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں آبادی کی منتقلی کا زیادہ دباؤ کراچی برداشت کر رہا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ دونوں شہر بھی معاشرے کی ساخت یعنی ہیئت اور معاشرت کی طرز کے اعتبار سے یوں تبدیل ہو رہے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ جنوبی پنجاب میں دیہات سے نقل مکانی کا بوجھ بہت حد تک ملتان اور رحیم یار خان کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہر سطح کی حکومت محض تماشا دیکھ رہی ہے۔ شہروں کو بے ہنگم طریقے سے پھیلنے دیا جارہا ہے۔ ٹاؤن پلاننگ کے حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومت کا قیام معاملات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی ذہنیت نہیں پنپ رہی۔
کراچی سمیت تمام بڑے شہروں کو اس وقت جامع ٹاؤن پلاننگ کی ضرورت ہے۔ شہر کے جو حصے گنجان آباد ہیں اُن میں زیادہ تبدیلیاں اور بہتری نہیں لائی جا سکتی مگر مضافات میں تو ترتیب پیدا کی ہی جا سکتی ہے۔ جہاں جہاں سے شہر پھیل رہے ہیں اُن علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا نظام بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ جامع ماسٹر پلان کا متقاضی ہے۔ کراچی کے بہت سے علاقوں میں اب بہتری کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ لوگ بھی اس کے لیے تیار نہیں۔ تجاوزات شہر بھر میں ہیں اور عام ہیں۔ بہت سے علاقوں میں لوگوں نے گھر کے آگے دیواریں کھڑی کرکے آدھی گلی ہتھیا لی ہے۔ اور اس پر کوئی شرمندہ بھی نہیں۔ بعض علاقوں میں معاملہ یہ ہے کہ گزرنا بھی محال ہوگیا ہے۔ جسے جہاں بھی ذرا سی جگہ دکھائی دیتی ہے گھیر لیتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اگر انتظامی مشینری تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو لوگ احتجاج پر اُتر آتے ہیں اور سڑکیں بند کرکے باقی شہر کے لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی پریشر گروپوں نے پوری کردی ہے۔ اگر کہیں کسی غیرقانونی کام کی روک تھام کے لیے انتظامی مشینری متحرک ہوتی ہے تو سیاسی عناصر سرگرم ہوکر مظلوموں کی حمایت کے نام پر ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے کمر کَس کر میدان میں آ جاتے ہیں۔ یہ ایسا عجیب رجحان ہے کہ روز بروز مضبوط ہو رہا ہے مگر اس کے سدِباب کے لیے سوچا نہیں جارہا۔
دیہات سے آکر آباد ہونے والوں کو شہروں میں سب سے زیادہ پریشانی رہائش کے حوالے سے لاحق ہوتی ہے۔ دیہات میں کُھلے ماحول میں رہنے کی عادت اُنہیں شہروں میں غیر معمولی الجھن سے دوچار کرتی ہے کیونکہ شہروں میں جگہ کم اور مہنگی ہے۔ دیہات میں بڑے بڑے آنگنوں والے گھروں میں رہنے والے جب شہروں میں پچاس ساٹھ گز کے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں تب زندگی سوہانِ روح محسوس ہونے لگتی ہے۔ اِس طرزِ زندگی سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک زمانہ لگتا ہے۔ ہر حکومت بہتر رہائشی سہولتیں یقینی بنانے کے دعوے کرتی ہے۔ غریبوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اُن کے لیے سستے گھر بنانے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ غریب بے چارے انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاملات ''ککھ نہ ہلیا‘‘ والی کیفیت پر ختم ہوتے ہیں۔ بہتر رہائشی سہولتیں نہ ہونے سے ہمارے ہاں افرادی قوت اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے۔ شہروں میں رہائش کا مسئلہ حل کرنے پر ہر سطح کی حکومت کو فوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ لوگ کام پر جانے اور آنے ہی میں خرچ ہو رہے ہیں۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کی گنجائش پیدا نہیں ہو پارہی۔ اُجرت اتنی نہیں کہ انسان ڈھنگ سے کسی اچھے مکان میں آباد ہو سکے۔ اگر محدود آمدنی کا بڑا حصہ رہائش کی بہتر سہولت یقینی بنانے ہی پر خرچ ہو جائے تو دیگر معاملات کا کیا ہوگا؟ پانی، بجلی، گیس، تعلیم و صحتِ عامہ اور یومیہ سفر پر بھی اچھا خاصا خرچ ہو رہا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے لیے اچھی رہائش ممکن نہیں رہی۔
ایک مثالی ریاست میں حکومتی مشینری لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے لیے درکار بنیادی سہولتیں آسانی سے اور خاصے کم خرچ پر فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ جو لوگ ڈھنگ سے آباد نہ ہو پائیں تو ملک و قوم کے لیے کیا کر پائیں گے؟ جب تک بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کردی جاتیں تب تک عام آدمی سے قومی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرنے کی توقع وابستہ نہ کی جائے۔ سابق حکومت نے پچاس لاکھ مکانات بناکر کم آمدنی والے طبقے کو اُن میں آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایسے وعدے غیر حقیقت پسندی کا مظہر ہیں۔ پاکستان میں بننے والی کوئی بھی حکومت اس نوعیت کے وعدوں کو حقیقت کا روپ نہیں دے سکتی۔ ملک کے حالات ایسے ہیں ہی نہیں کہ کوئی بھی حکومت اِتنی بڑی تعداد میں سستے مکانات بناکر انتہائی غریب طبقے میں تقسیم کر سکے۔ ہاں، حقیقت پسندی سے مطابقت رکھنے والی منصوبہ سازی کے ذریعے سستے مکانات بنائے جا سکتے ہیں اور کم آمدنی والے طبقے کو دیے بھی جا سکتے ہیں۔ اِس حوالے سے دوسرے بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے اِسی نوعیت کے منصوبوں کا جائزہ لے کر معقول، حقیقت پسندانہ اور جامع منصوبہ سازی کی جا سکتی ہے۔ بڑے پلاٹس کے بجائے محض 40 گز کے پلاٹ پر بھی گراؤنڈ پلس ون طرزِ تعمیر کے ذریعے غریب طبقے کو سستے مکانات فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ اِس طرح کے تجربے ممبئی اور دہلی میں کامیاب رہے ہیں۔ اِن شہروں کا ٹاؤن پلاننگ کا ریکارڈ بہت کچھ سمجھا اور سکھا سکتا ہے۔ عام آدمی کو کرائے پر بڑے مکانات لینے کے بجائے بہت چھوٹے مگر اپنی ملکیت والے مکان میں رہنے کی ذہنیت پروان چڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ عام آدمی کو اگر خاصی کم قیمت پر بہت چھوٹے رقبے کا اپارٹمنٹ یا مکان بھی مل جائے تو وہ صبر و شکر کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ یہ بنیادی مسئلہ حل ہو جانے پر دیگر معاملات درست کرنے کی راہ خود بخود ہموار ہوتی جاتی ہے۔
کراچی، لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں کی آبادی میں اضافے کی یہی رفتار رہی تو آگے چل کر بہت سے معاشی، معاشرتی اور نفسی مسائل پیدا ہوں گے۔ شہروں کی بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی ٹائم بم کی طرح ہوتی ہے۔ منطقی حد آ جانے پر یہ بم پھٹتا ہی ہے۔ کیا حکومت کو ٹِک ٹِک سُنائی نہیں دے رہی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved