مقتدرہ مخالف سیاست‘ ہمارے لیے نئی بات نہیں۔ اس کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود پاکستان کی تاریخ۔سیاست کا ہر طالب علم اس سے واقف ہے‘ الّا وہ نوواردانِ سیاست‘ جن کا خیال ہے کہ عمران خان صاحب پہلے سیاسی Homo Sapien ہیں۔ اُن سے پہلے راوی کسی سیاسی مصلح سے واقف نہیں۔طویل کہانی کو کیا دہرائیں۔ ایوب خان کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ایک طویل جنگ لڑی۔ اس وقت مارشل لا تھا‘ اس لیے ایوب خان براہِ راست تنقید کی زد میں تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کی متفقہ امیدوار تھیں۔ بحیثیت عالم‘ مولانا مودودی عورت کی سربراہی کو درست نہیں سمجھتے تھے لیکن بطور سیاست دان‘ قوم کو فوجی آمریت سے نجات دلانا‘ ان کے نزدیک زیادہ اہم تر تھا۔ اس لیے وہ بھی اس اتحاد میں شامل تھے۔ مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کی بطور صدارتی امیدوار ان الفاظ میں حمایت کی ''ایک طرف ایوب خان ہیں‘ جن میں اس کے علاوہ کوئی خوبی نہیں کہ وہ ایک مرد ہیں اور دوسری طرف فاطمہ جناح ہیں‘ جن میں اس کے علاوہ کوئی خامی نہیں کہ وہ ایک عورت ہیں‘‘۔
فوجی آمر نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا۔ اُس وقت کا نظامِ عدل آج سے چار ہاتھ آگے تھا۔ مولانا مودودی کو ایک بار پھانسی کی سزا سنائی گئی اور دوسری بار جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ الزام غیر ملکی فنڈنگ کا تھا۔ جماعت نے دونوں بار عدالت سے رجوع کیا اور سر خرو رہی۔ اسی طرح کی ایک لڑائی پیپلزپارٹی نے ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف لڑی۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی محض 26 سال کی عمر میں جس جرأت کے ساتھ اس معرکے میں جمہوری قوتوں کی قیادت کی‘ وہ حیرت انگیز ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ ہمیشہ اقتدار کی جماعت رہی ہے۔ نواز شریف صاحب نے اس کو ایک مزاحمتی جماعت میں بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس کی قیمت ادا کی۔ جیل میں ڈالے گئے۔ جہاز میں ہتھکڑی لگائی گئی۔ سزا ہوئی۔ چند سال پہلے‘ انہوں نے بیٹی کے ساتھ ایک بار پھر جیل کاٹی۔ یہ جانتے ہوئے کہ انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا‘ انہوں نے ملک کا رخ کیا۔ سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں۔ رعایت ملتی ہے اور رعایت دی بھی جاتی ہے۔ لیکن یہ ناانصافی ہوگی کہ مقتدرہ کے سیاسی کردار کے خلاف‘ شریف خاندان کی مزاحمت کا وہ لوگ مضحکہ اڑائیں جنہیں ان مشکلات کی ہوا بھی نہیں لگی۔
اس مزاحمت میں تمام سیاسی جماعتوں کا ہدف صرف یہ تھا کہ مقتدرہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق نہ بنے۔ انہوں نے بطور ادارہ‘ فوج کو مضبوط دیکھنا چاہا۔ ایوب خان کی مخالفت کے باوجود‘ جب پاک بھارت جنگ چھڑی تو ساری اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ریڈیو پاکستان سے مولانا مودودی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے فوج کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے واضح کیا کہ مقتدرہ مخالف سیاست کا مفہوم‘ ان کے نزدیک کیا ہے۔ یہ فوج کی مخالفت نہیں‘ مقتدرہ کے سیاسی کردار کی نفی ہے۔ عمران خان نے مقتدرہ مخالف سیاست میں ابھی پہلا قدم رکھا ہے۔ ابھی تو ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ ایک دن کیلئے گرفتار نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اس راہ میں جو مشقتیں کاٹیں‘ انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں۔ کبھی پرویز رشید سے سنیں کہ ان کے ساتھ مشرف دور میں کیا ہوا؟ جاوید ہاشمی کی کتاب پڑھیں کہ مخالفین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ اس سے پہلے تو عدالتوں کا تکلف نہیں ہوتا تھا۔ آج تو شہباز گل صاحب کو پولیس نے گرفتار کیا۔ 24گھنٹے گزارنے سے پہلے عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ نہ اغوا ہوئے اور نہ تشدد ہوا۔
خان صاحب نے مقتدرہ مخالف سیاست کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں سمجھا کہ اس کے آداب کیا ہیں۔ انہوں نے فوج بطور دفاعی ادارہ اور چند افراد کے سیاسی کردار میں فرق نہیں کیا۔ اس کی شعوری کوشش کی گئی کہ فوج کو بطور ادارہ اپنی قیادت کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ شہباز گل صاحب کا بیان اس باب میں برہانِ قاطع ہے۔ خان صاحب سمیت تحریکِ انصاف کے کسی رہنما نے‘ تادمِ تحریر‘ اس کی مذمت نہیں کی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ پارٹی کی پالیسی ہے‘ کوئی انفرادی رائے نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان کسی ادارے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن اس بات کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب ذاتی مفاد اور قومی ادارے کا مفاد آمنے سامنے ہو۔ اگر آپ انفرادی مفاد کے لیے ادارے کے مفاد کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر آپ کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت مزید سوچنا پڑے گا۔
پھر یہ کہ ان کا مقدمہ یہ نہیں کہ مقتدرہ سیاست میں دخل نہ دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ساتھ دے۔ اس لیے کہ وہ حق کے داعی ہیں اور دوسرے باطل کے۔ اُن کے مطابق حق و باطل کی کشمکش میں نیوٹرل ہونا‘ جانور ہونا ہے۔ اس مقدمے کو دیکھیے تو ان کی سیاست روایتی مفہوم میں مقتدرہ مخالف نہیں؛ تاہم پس منظر جو بھی ہو‘ امرِ واقعہ یہ ہے کہ وہ مقتدرہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ مقتدرہ اپنے سابقہ کردار کی طرف لوٹ جائے۔ وہی کردار جسے چودھری پرویز الٰہی نے ایک مثال سے سمجھایا تھا۔
عمران خان صاحب اگر مقتدرہ کے خلاف سیاست کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس وقت دو باتیں پیشِ نظر رکھنا ہوں گی۔ ایک یہ کہ وہ ایک واضح بیانیہ اپنائیں۔ یہ وہی ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سے مقتدرہ مخالف سیاست کرنے والوں کا رہا ہے‘ وہ یہ کہ مقتدرہ اقتدارکی سیاست سے دور رہے۔ وہ نیوٹرل ہو۔ دوسرا یہ کہ انہیں فوج بطور دفاعی ادارہ اور چند افراد کے مابین فرق کرنا ہوگا۔ ان کا ہدف افراد ہونے چاہئیں نہ کہ ادارہ۔ اس باب میں انہیں تاریخ سے رہنمائی لینی چاہیے۔
نواز شریف صاحب نے کھل کر افراد کے نام لیے۔ خان صاحب تو ابھی تک یہ ہمت نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے یہ نام بھی اُس وقت لیے جب پانی سر سے گزر گیا۔ یہ معلوم ہے کہ نواز شریف صاحب کے خلاف سازش کا آغاز 2014ء کے دھرنے سے ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے کون تھا‘ اب اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں ہے۔ ڈان لیکس سمیت بہت سے واقعات اتنے پرانے نہیں کہ کسی کو یاد نہ رہے ہوں۔ اس کے باوجود نواز شریف صاحب اپنے احتجاج میں بلند آہنگ نہیں ہوئے۔ اس دوران میں 2018ء کے انتخابات بھی گزر گئے۔ ان میں جو کچھ ہوا‘ اسے دیکھتے ہوئے بھی نواز شریف صاحب نے کسی کا نام نہیں لیا۔ نام لینے کا مرحلہ تو 2019-20ء میں آیا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو صاحبہ نے مقتدرہ مخالف سیاست کی لیکن ان پر فوج کی مخالفت کا الزام کوئی نہیں لگا سکا۔ انہوں نے سخت حالات میں بھی اس فرق کو سامنے رکھا کہ ان کا ہدف اقتدار کے خوگر چند نفوس ہیں‘ ایک ادارہ نہیں جو ہماری قومی ضرورت ہے۔ غلام مصطفی کھر نے بھارتی ٹینکوں پر چڑھ کر آنے کی بات کی تھی مگر وہ بے نظیر صاحبہ سے الگ ہو کر ضیاء الحق صاحب کے کیمپ میں چلے گئے۔
عمران خان صاحب اگر مقتدرہ مخالف سیاست کرنا چاہتے ہیں تو میں ان کی کامیابی کی دعا کروں گا‘ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ ان کا موقف وہی ہو جو دوسروں سیاست دانوں کا ہے اور تھا۔ اگر وہ یہ کہیں کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے اور فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے کہ ا ن کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ مقتدرہ مخالف سیاست کے لیے خان صاحب کو پاکستان کی تاریخ‘ بے نظیر بھٹو اورنواز شریف سے سیکھنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ شہبازگل صاحب کی گرفتاری عشق کی ابتد اہے‘ انتہا نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved