ڈوبتی معیشت‘ بدترین سیاسی منافرت اور معاشرتی تقسیم کے اس دور میں جب قومی یکجہتی پارہ پارہ ہے‘ ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہے اور سوشل میڈیا پر کی پیڈ واریئر ایک دوسرے کے خلاف ففتھ جنریشن وار لڑ رہے ہیں‘ کہیں شہباز گل کی گرفتاری کا شور ہے تو کہیں ایک نجی چینل کی بندش کا۔ ایسے میں کامن ویلتھ گیمز میں شامل پاکستانی ایتھلیٹس کی بہترین کارکردگی تازہ ہوا کے ایک ایسے جھونکے کی طرح محسوس ہوئی جس نے حبس اور گھٹن کے اس موسم کا اثر قدرے کم کردیا۔ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کے مقابلوں میں 40سے زائد ممالک نے حصہ لیا‘ جس میں پاکستان نے 2 طلائی‘ 3 چاندی اور 3 کانسی کے تمغے حاصل کرکے 18ویں پوزیشن حاصل کی۔ یہ پوزیشن عالمی معیار کے اعتبار سے شاید بہت قابلِ تحسین نہ ہو لیکن ہمارے قومی معیار کے مطابق بری نہیں کیونکہ ایک ایسا ملک جہاں کا قومی کھیل ہاکی تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ تمام تر توجہ اور بجٹ کا بڑا حصہ کرکٹ کی جانب مبذول ہے‘ سکول کالج کی سطح پر ایتھلیٹکس اور کھیلوں کی سرپرستی کا کلچر دم توڑ چکا ہو‘ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی کارکردگی حوصلہ افزا نہ ہو تو ایسے میں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی ایتھلیٹس کی یہ کارکردگی قابلِ تحسین بھی ہے اور قابل فخر بھی۔
بلاشبہ ارشد ندیم اور نوح بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغے جیت کر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ جیولین تھرو کے مقابلوں میں ارشد ندیم نے بہترین کارکردگی دکھا کر دل جیتنے کے ساتھ ساتھ میڈل بھی حاصل کیا۔ آپ کو یاد تو ہوگا کہ ٹوکیو اولمپکس میں ارشد ندیم نے پانچویں پوزیشن حاصل کی تھی لیکن اس وقت بھی ان کا جذبہ اور جنون سب کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا حتیٰ کہ اس ایونٹ کے ونر بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا بھی بہت متاثر ہوئے تھے کہ ایک انجرڈ کھلاڑی‘ جس کوباقاعدہ کوچنگ کی سہولت بھی میسر نہ تھی‘ اس نے اتنی دلجمعی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ لیکن اب کی بار کامن ویلتھ گیمز میں تو ارشد ندیم نے کمال کردیا‘ انہوں نے انجری کے باوجود 90 اعشاریہ 18 میٹر کی سب سے لمبی تھرو پھینک کر ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ تھرو نہ صرف کامن ویلتھ گیمز کا نیا ریکارڈ ہے بلکہ ارشد ندیم کے کیریئر کی بھی بہترین تھرو ہے۔
ان کی اس کامیابی پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود سپورٹس کے دلداہ افراد کی طرف سے مبارکباد کا تانتا بندھ گیا۔ ارشد ندیم کی اس کامیابی پر نامور کھلاڑیوں نے تو مبارکباد دی ہی‘ وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی ان کی بہت ہمت بندھائی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ''جسم ٹوٹا ہوا تھا پر ہمت ہمالیہ سے بھی بلند تھی‘‘۔ کرکٹر شاداب خان نے ٹویٹ کیا کہ ''ایک ہی دل ہے کتنی بار جیتو گے ارشد۔ پاکستان کی شان۔ پاکستان کے لیے مزید میڈل جیتیں اور وہ تمام احترام اور سہولتیں آپ حاصل کریں جس کے آپ حقدار ہیں۔ ان شاء اللہ اولمپکس کا میڈل بھی آئے گا‘‘۔
اسی طرح ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے مجموعی طور پر 405 کلوگرام وزن اٹھا کر کامن ویلتھ گیمز میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور پاکستان کو ایک اور طلائی تمغے سے ہمکنار کیا۔ اسی کیٹیگری میں انڈیا کے گردیپ سنگھ نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ اس سے قبل 2018ء کے کامن ویلتھ گیمز میں نوح دستگیر بٹ +105 کی کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ بھی جیت چکے ہیں۔ نوح کا تعلق پہلوانوں کے مشہور شہر گوجرانوالہ سے ہے اور انہیں ویٹ لفٹنگ کا شوق ورثے میں ملا ہے۔ 24 سالہ نوح دستگیر بٹ کے والد غلام دستگیر بٹ 5 مرتبہ ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیت چکے ہیں‘ جنہوں نے 18مرتبہ قومی چیمپئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ نوح نے یہ تمغہ اپنے والد صاحب کی ٹریننگ اور مدد سے حاصل کیا ہے اور وہ شکوہ کناں بھی دکھائی دیتے ہیں کہ سپورٹس بورڈ یا اولمپک ایسوسی ایشن انہیں ٹریننگ کی عالمی معیار کی سہولتیں مہیا نہیں کر پا رہی۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا تو میرے والد بہت ناراض ہوئے تھے۔ کچھ وقت تک انہوں نے مجھ سے بات بھی نہیں کی تھی۔ اس لیے میرا ہدف تھا کہ میں اس بار بہتر پرفارم کروں گا‘ جو میں نے کیا۔ نو ح کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی حنظلہ دستگیر بٹ بھی پاکستان کے قومی جونیئر چیمپئن رہ چکے ہیں۔
کچھ مزید مقابلوں کا ذکر کریں تو کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی ریسلر عنایت اللہ نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ انہوں نے کانسی کے میڈل کیلئے میچ میں مقابل کھلاڑی کو 10 صفر سے شکست دی۔ ورلڈ ریکارڈ ہولڈر محمد انعام بٹ نے گولڈ میڈل کے لیے انڈین کھلاڑی دیپک پونیا سے مقابلہ کیا لیکن وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے‘ انعام بٹ ایک بہترین پہلوان ہیں اور پوری امید تھی کہ وہ پاکستان کے لیے ایک اور طلائی تمغہ حاصل کریں گے لیکن بہرحال انہوں نے بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا اور سلور میڈل اپنے نام کیا۔ اسی طرح 125 کلوگرام کیٹیگری ریسلنگ کے فائنل میں پاکستان کے زمان انور کینیڈا کے امرویر ڈیشی سے ہار گئے اور سلور میڈل کے حق دار ٹھہرے۔
کامن ویلتھ گیمز میں ایک اور اہم میڈل کا ذکر کریں تو جوڈو کے ایونٹ میں پاکستان کے شاہ حسین شاہ نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کے کھلاڑی تھامس لیسلو بریٹن باخ کو ہرا کر یہ اعزاز حاصل کیا۔ شاہ حسین شاہ نے دوسری مرتبہ کامن ویلتھ گیمز میں تمغہ حاصل کیا ہے‘ اس سے قبل وہ 2014ء کے کامن ویلتھ مقابلوں میں چاندی کا میڈل جیت چکے ہیں۔ شاہ حسین شاہ مشہور پاکستانی باکسر سید حسین شاہ کے بیٹے ہیں۔ سید حسین شاہ کراچی سے تعلق رکھنے والے باکسر تھے جنہوں نے 1988ء کے گرمائی اولمپکس میں کانسی کا میڈل جیتا تھا۔ یہ میڈل اولمپکس میں پاکستان کا باکسنگ کے ایونٹ میں پہلا میڈل تھا۔ سید حسین شاہ پچھلے 50 برسوں میں انفرادی سطح پر اولمپکس میں کوئی میڈل حاصل کرنے والے واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں۔
پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں اب تک مجموعی طور پر 27 طلائی‘ چاندی کے 27 اور کانسی کے 29 تمغے جیتے ہیں۔ ویٹ لفٹنگ میں جیتے گئے طلائی تمغوں کی تعداد 2 ہے جبکہ اس کھیل میں پاکستان نے چاندی کے 2 اور کانسی کے 3 تمغے بھی جیت رکھے ہیں۔ یعنی ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ کامن ویلتھ گیمز میں ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہماری حکومت ہو‘ ادارے ہوں یا افراد‘ سب کو پاکستان میں کھیلوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ اور مثبت سوچ کے ضامن ہوتے ہیں۔ کھیل کے میدان‘ ہمارے معاشرے میں سپورٹس مین سپرٹ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ پاکستان کئی برسوں سے کھیلوں کے شعبے میں بھی ریورس گیئر لگا کر تنزلی کی جانب گامزن رہا۔ لیکن کامن ویلتھ کے ان مقابلوں میں ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں صلاحیت کا فقدان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ان کے پاس نہ ٹریننگ کے مواقع ہیں اور نہ ہی کھیل کے اچھے میدان اور سٹیڈیمز موجود ہیں۔ اب ہی ہم اپنی ترجیحات درست کر لیں تو کھیل کے میدان میں پاکستان اپنا لوہا دوبارہ منوا سکتا ہے جیسا کہ کسی زمانے میں ہم نے ہاکی‘ کرکٹ‘ سکواش اور سنوکر میں منوایا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved