یہ کتاب پروفیسر علامہ ابرار حسین کی تالیف ہے، مؤلّف علومِ دینیہ کے فاضل ہیں، انگریزی زبان و ادب میں ایم فِل کر رکھا ہے، اہلسنّت و جماعت کے ایک ممتاز ادارے جامعہ غوثیہ رضویہ سرگودھا کے مہتمم ہیں۔ اس ادارے کے بانی حضرت مفتی محمد افضل رحمہ اللہ تعالیٰ کے مایہ ناز فرزند ہیں۔ اپنے ادارے میں دینی علوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ کالج میں انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔ سی ایس ایس کے امیدواروں کو امتحانات کی تیاری کراتے ہیں۔ آپ نے خود بھی سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، کچھ عرصہ بیورو کریسی کا حصہ رہے، لیکن پھرتدریس کے شعبے سے طبعی میلان کے سبب سرکاری عہدے کو خیرباد کہا اور تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ دینیات، ادب، فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدّن، سیاسیاتِ عالَم اور بین الاقوامی تعلقات آپ کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ آپ کی نگارشاتِ قلم مستند جرائد میں چھپ چکی ہیں۔
''افغانستان: ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ نامی کتاب مجھے ڈاک سے موصول ہوئی۔ یہ میری دلچسپی کا موضوع ہے، میں نے اسے تقریباً ایک ہی تسلسل میں پڑھ لیا۔ پھر میں نے مصنف کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے لیے اُن سے رابطہ کیا، پتا چلا کہ وہ ہمارے مکتبِ فکر کے شخص ہیں۔ یہ بات میرے لیے خوشگوار حیرت اور قلبی مسرّت کا باعث بنی، کیونکہ عام طور پر ہمارے مکتبِ فکر میں ان موضوعات کے بجائے صرف دینی علوم اور مسلکی خلافیات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے لیے وسعتِ نظر اور ہمہ گیر مطالعہ درکار ہے، معاصر سیاسی حرکیات، تہذیبی، ثقافتی، علمی، تحقیقی و تاریخی ارتقا پر نظر رکھنی ہوتی ہے، عالمی جرائد، ذہن ساز مفکرین اور نسبتاً منصف مزاج اہلِ صحافت اور محققین کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے، یہ سہل پسند لوگوں کا کام نہیں ہے۔ یہ انہی کا حصہ ہے جو علمی، تحقیقی، تصنیفی و تالیفی مشقت کے خوگر ہوتے ہیں، جتنا وہ کسی شعبے کے بحرِ علم میں غوّاصی کرتے ہیں، اتنا ہی ان کی علمی پیاس میں اضافہ ہوتا ہے۔
میری عرصے سے خواہش رہی ہے: ہمارے نوجوان علماء میں وسعتِ نظر اور مطالعے کا ذوق پیدا ہو، معاصر دنیا سے آگہی حاصل ہو، جدید علمی و ابلاغی اصطلاحات کا ادراک ہو، کیونکہ اسلام دینِ دعوت ہے اور دین کی دعوت کے لیے صلاحیتِ ابلاغ بے حد ضروری ہے۔ آج کے دور میں اپنے نظریات کو دوسروں پر تھوپا نہیں جا سکتا، یہ فریقِ مخالف کو دلیل سے قائل کرنے بلکہ اپنی جانب مائل کرنے کا دور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''حکمت، موعظۂ حَسَنہ ا ور اَحسن طریقے سے بحث کر کے لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو، بے شک تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے، کون اپنے راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہی ہدایت یافتہ لوگوں کو بہتر جانتا ہے‘‘ (النحل: 125)۔ حکمت ایک جامع اصطلاح ہے، لیکن یہاں اس سے مراد ہے: مبلغِ دین کو اپنے مخاطَب کی ذہنی و علمی سطح کو پیشِ نظر رکھ کر دین کا ابلاغ کرنا، نصیحت کا انداز دلرُبا، دلکش اور دلآویز ہو، مخاطَب کو محسوس ہو کہ آپ اس کے ناقِد اور معاند نہیں ہیں، بلکہ اس کے مخلص، ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔ اگر خدا نخواستہ مباحَثے کی نوبت آ جائے تو انداز علمی، باوقار اور سنجیدہ ہونا چاہیے، مقصد فریقِ مخالف کو محض چرب زبانی سے زیر کر کے اپنے نفس یا اپنے مداحین کی تسکین نہیں، بلکہ حق کا ابلاغ اور مخاطَب کے دل و دماغ میں حق کو قبول کرنے کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ فارسی ضرب المثل ہے: ''ہَر چَہ اَز دِل خیزَد بَر دِل ریزَد‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے
پَر نہیں‘ طاقتِ پرواز‘ مگر رکھتی ہے
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے مجھے بہاولپور ڈویژن کے خطبائے کرام کی ایک تربیتی نشست میں دعوت دی، میں نے دورانِ گفتگو کہا: ''میں نے ایک تشہیری ماہر سے پوچھا: ''آپ لوگ جب کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے سمعی اور بصری اشتہار بناتے ہیں، تو آپ کی سائنس کیا ہوتی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: ''ہم سامع اور ناظر کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر آپ نے اس پروڈکٹ کو نہ خریدا تو نقصان آپ کا ہوگا‘‘۔ سو میں نے خطبائے کرام سے عرض کی: ہم نے اپنے آپ کو خالق اور خَلق کے سامنے دین کے نمائندے اور ترجمان کے طور پر پیش کیا ہے، دین نہ کسی مجرَّد، تصوراتی اور تخیّلاتی چیز کا نام ہے اور نہ انسان کے بنائے ہوئے کسی خوبصورت ماڈل یا شاہکار کا نام ہے کہ جسے ہم لوگوں کے سامنے پیش کر کے بتائیں: ''یہ اسلام ہے‘‘، دین ایک عارض ہے جو مسلمان کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے، سو لوگ دین کو ہمارے قول و فعل سے جانیں گے، اگر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہو گا، ہمارے دامنِ ایمان و عمل میں جَھول ہو گا، تو لوگ اُسے دین کی طرف منسوب کریں گے، دین کا نَقص قرار دیں گے، اگر ہمارا دامنِ ایمان و عمل حسین، شفّاف، بے داغ اور دلکش و دلربا ہو گا تو لوگ اسے دین کا کمال سمجھیں گے، سو ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا وجود دین کے لیے عزت و تکریم کا یا ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔ حفیظ جالندھری نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں ہدیۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
ترا در ہو، مرا سر ہو‘ مرا دل ہو‘ ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے، مگر تمہید طولانی
الغرض میری تمہید بھی طولانی ہوگئی۔ قارئین سے بصد ادب معذرت اور آمدم برسرِ مطلب!
''افغانستان: ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ نامی کتاب میں افغانستان کی تاریخ کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے، نیز اس میں مغرب کے نامور صحافیوں اور اہلِ قلم کی نگارشات کے تراجم بھی شامل ہیں۔ جنابِ علامہ ابرار حسین نے انگریزی مضامین کا ترجمہ بامحاورہ اردو میں اس کمالِ مہارت سے کیا ہے کہ ترجمے کے بجائے اصل کا گمان ہوتا ہے، ورنہ اگر کوئی اناڑی کسی اعلیٰ تحریر کا بھی ترجمہ کرے تو قاری کی طبیعت اکتا جاتی ہے۔ اس میں مغربی مفکرین نے نہایت صراحت کے ساتھ افغانستان میں امریکی انخلا کو رُسوا کن شکست سے تعبیر کیا ہے۔ کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا، تحریکِ طالبانِ افغانستان کی شَجاعت، عزیمت اور اولو العزمی کو تسلیم کیا ہے۔ ان تحریروں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ صرف ہماری بات ہی نہیں، امریکہ جیسے ملک میں بھی اہلِ سیاست اور اُ ن کے دفاعی مراکز اپنی قوم کو پورا سچ نہیں بتاتے۔ یہ بھی بتایا کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگ کو ''آئوٹ سورس‘‘ کیا، یعنی بے پناہ مراعات یافتہ، دنیا کے جدید ترین حربی ساز و سامان سے لیس امریکی فوجیوں نے یہ ساری جنگ خود اور براہِ راست نہیں لڑی، بلکہ بہت سے کام ٹھیکے پر دیے۔ اسی کو فوجی اصطلاح میں ''Mercenary‘‘ یعنی کرائے کی فوج کہا جاتا ہے۔ نیز انہوں نے اعتراف کیا: ''امریکی اور اتحادی افواج کو نہ اس جنگ کے مقاصد معلوم تھے، نہ اُن کے اندر کوئی جوش و جذبہ تھا، کیونکہ درحقیقت یہ اُن کے وطن کے دفاع کی جنگ نہیں تھی بلکہ امریکی اور اتحادیوں کے توسیع پسندانہ عزائم اور دنیا کو مرعوب کرنے کے جذبے کی آئینہ دار تھی، اُن فوجیوں کو اس جنگ کے انجام کا بھی علم نہیں تھا، بس حربی اور اقتصادی طاقت کا فرعونی زعم تھا‘‘، نیز انہوں نے اعتراف کیا: ''امریکہ اور اتحادیوں نے نہ افغانستان کی تاریخ کو جانا اور نہ اُس سے کوئی سبق حاصل کیا، وہ اُسی دَلدَل میں پھنستے چلے گئے، جس میں ان کے پیش رو برطانیہ اور سوویت یونین پھنس چکے تھے، نتیجتاً وہ بھی اُسی انجام سے دوچار ہوئے۔ اطہر نفیس کے الفاظ میں وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہوں گے:
اطہرؔ تم نے عشق کیا، کچھ تم بھی کہو، کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
الغرض سب کا احوال ایک ہی جیسا ہوا، ایسا نہیں کہ ہمارے بعض سہل پسند تجزیہ نگاروں کی طرح گھر بیٹھے مفروضوں پر مبنی داستان لکھ دی ہو، بلکہ اُن میں سے بعض تہہ تک پہنچے۔ ملّا محمد عمر کے ٹھکانے، اُن کے محافظ اور اُن کے میزبان کی تلاش میں در در کی خاک چھانی، پہاڑوں اور ریگزاروں کے چکر کاٹے، محنتِ شاقّہ سے کام لیا، پھر اپنے مشاہدے اور معلومات کو قلم بند کیا۔ خاتون ڈچ صحافی بیٹی ڈیم نے ''ملاعمر کی پُراسرار زندگی‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ یہ خاتون صحافی 2009ء سے 2014ء تک کابل میں رہی۔ فروری 2019ء میں اس نے ڈچ زبان میں ''دشمن کی تلاش‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ملا محمد عمرکو اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بے پناہ یقین تھا، وہ صوفیانہ نظریات کے حامل مجاہد تھے، وائس آف امریکہ کو ملا محمد عمر کا ایک مختصر انٹرویو بھی اس کتاب میں شامل ہے جو نشر تو نہ ہو سکا، لیکن امریکی پریس میں طبع ہوا۔ اسی طرح روسی یہودی فلسفی و سیاست دان الیگزینڈر ڈوگن کا نسبتاً مزاحیہ انداز میں: ''افغانستان سے فرار، امریکی سلطنت کا خاتمہ‘‘ کے عنوان سے مضمون شامل ہے، ''مسلم دنیا ناقابلِ تسخیر ہے‘‘ کے عنوان سے امریکی مشنری تنظیم فلاس کے صدر رابرٹ نکلسن کا مضمون ہے، چین کے معروف صحافی اور پیپلز ڈیلی کے سینئر ایڈیٹر ڈنگ گینگ کا مضمون بعنوان ''طالبان کی فتح اور مغرب کی تہذیبی توسیع کی زبردست ناکامی‘‘، برطانوی صحافی ڈیوڈ ہرسٹ کا مضمون بعنوان: ''کیا طالبان کی فتح مغرب کی سلطنت کے خاتمے کا نقطۂ آغاز بنے گی‘‘، برطانوی صحافی پیٹر اوبورن کا مضمون بعنوان: ''افغانستان میں امریکی ذلّت عالمی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے‘‘، سکاٹش مصنف وِلیم ڈیلرمپل کا مضمون بعنوان: ''افغانستان میں ماضی کی جنگوں میں کی جانے والی غلطیوں کا اعادہ‘‘، برطانوی ادارے ''واچ ڈاگ ایئروارز‘‘ کی ٹی آر ٹی ورلڈ میں شائع شدہ رپورٹ بعنوان: ''نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور معصوم انسانوں کا قتل‘‘ وغیرہ معلوماتی اور تاثراتی مضامین شامل ہیں۔
یہ کسی مسلمان کی خود ستائشی پر مبنی تحریریں نہیں ہیں، بلکہ تلخ حقائق ہیں جو اُن کے اپنے اہلِ قلم نے رقم کیے ہیں۔ ان میں یہ بھی اعتراف ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو اپنی چھتری تلے یکجا رکھنے کے لیے ''اسلام کو تہذیب مغرب کے لیے ایک خطرے‘‘ کے طور پر پیش کیا، یہ بھی دانستہ جعلسازی اور فکری خیانت تھی۔ ہم اگر کہیں: ''افغانستان میں پچاس اتحادی ممالک کی ایک لاکھ تیس ہزار افواج کو شکست ہوئی‘‘ تو ہمارے لبرلز کو بہت برا محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک شکست کے ایک ہی معنی ہیں: ''میدان جنگ میں مفتوح فوج کا سپہ سالار فاتح سپہ سالار کے سامنے ہتھیار ڈال دے‘‘، وہ ذلت آمیز شکست کے عظیم تر مفاہیم کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ میری خواہش ہے: ہمارے نوجوان علماء اس کتاب کو پڑھیں، اسے عکس پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved