پاکستان تحریک انصاف نے ابتدائی دنوں میں موروثی سیاست کے خلاف آواز بلند کی تھی‘ جس نے نسل در نسل سیاسی حکمرانوں سے بیزار آئے پاکستانیوں کے دل میں ایک امید جگائی تھی کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد عام آدمی بھی ایم این اے، ایم پی اے اور وزیراعظم بن سکے گا۔ قابلیت، سادگی، دیانت داری اور عوامی مقبولیت پارٹی ٹکٹ ملنے کا معیار ہو گا۔ گو کہ دانشوروں کی اکثریت کا خیال اس کے برعکس تھا لیکن عام آدمی کو یہ حقیقت جاننے میں کافی وقت لگ گیا کہ تحریک انصاف کا فوکس ملک میں موروثی سیاست کے خاتمے پر نہیں ہے۔ بھلے وقتوں میں چیئرمین تحریک انصاف مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز کے علاوہ مونس الٰہی کو بھی موروثی سیاست کی علامت بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ آج کل وہ اس موضوع پر لب کشائی سے احتراز برتتے ہیں کیونکہ اب تحریک انصاف کے اندر بھی موروثی سیاست کی جڑیں خاصی مضبوط دکھائی دیتی ہیں۔ ملتان سے زین قریشی کی چھوڑی گئی نشست پر شاہ محمود قرشی کی صاحبزادی کی الیکشن امیدوار کے طور پر نامزدگی کے فیصلے پر پارٹی میں شدید مخالفت دیکھنے میں آئی‘ اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا ہے لیکن اس فیصلے میں تبدیلی شاید ناممکن ہے۔ مبینہ طور پر اعلیٰ قیادت میں یہ رائے قائم کر دی گئی ہے کہ اس حلقے میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی سے بہتر کوئی امیدوار نہیں ہے۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو موروثی سیاست کے حق میں اس طرح کی رائے قائم کرنا معمول کا حصہ رہا ہے۔
تحریک انصاف بھی ایک روایتی سیاسی جماعت کی طرح نظریۂ ضرورت کے تحت اپنے نظریات کو بدلتی رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے جن کا سامنا ماضی کی جماعتیں کرتی آئی ہیں۔ اب تحریک انصاف کی قیادت پر غداری کے مقدمے درج کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے شہباز گل صاحب کو گرفتار کر لیا ہے اور بنی گالا میں چیئرمین تحریک انصاف کے گھر کے گرد و نواح میں بھی غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے گرفتار عہدیداران‘ ان کے والدین سرکار سے معافی مانگ رہے ہیں۔ تحریک انصاف ان کارکنوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان سے اظہارِ لاتعلقی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ممکنہ طور پر آرٹیکل 62‘ 63 کے تحت مائنس عمران خان فارمولے پر بھی تیزی سے کام ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چئیرمین تحریک انصاف شاید اس خطرے کو بھانپ گئے ہیں‘ اس لیے وہ سیاسی مقابلے کو حق و باطل کا معرکہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش شاید کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اپنے نظریے کو لمبے عرصے تک زندہ رکھنے اور موقف کو سچ ثابت کرنے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔ جیل اور قید و بند کی مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ شاید چیئرمین تحریک انصاف ان مشکل منزلوں کو عبور نہ کر سکیں۔ بظاہر تو ان کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے کو تیار ہیں اور جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن جیل جانے سے بچنے کے لیے وہ کئی ہفتوں تک خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر رہے۔ اب بھی وہ ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے ہیں۔ جیل جانا شاید انہیں پسند نہیں ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے چاہنے یا نہ چاہنے سے حالات کا بدلنا شاید مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جن جماعتوں پر آج مارشل لا کی پیداوار کا الزام لگتا ہے‘ ان کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور سزائیں بھی کاٹی ہیں۔ نواز شریف کو جیل بھیجنے والے آج خود جیل جانے سے بچنے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہراتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو ماضی اور حال سے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے سے سیاسی دشمنی نبھانے کے بجائے سیاسی نظام میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی راہ ہموار ہو سکے کیونکہ سیاسی نظام مضبوط ہونے سے بیرونی طاقتوں کی مداخلت مشکل ہو جاتی ہے۔ مضبوط سیاسی نظام ہی ملک کی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں کمزور سیاسی نظام کی کوکھ سے کمزور معاشی نظام نے جنم لیا ہے جسے چلانے اور بچانے کے لیے اب سہاروں کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اچھی خبر کا انتظار جاری ہے۔ اسی دوران ورلڈ بینک نے 345 ملین ڈالر کا قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک طرف سیاسی نظام کمزوری کا شکار ہے اور دوسری طرف بیورو کریسی اہم معاملات میں حتمی فیصلے پر پہنچنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ ورلڈ بینک نے حکومت کو پابند کیا تھا کہ پراپرٹی ویلیو ایشن کو مارکیٹ ریٹ پر لانے اور سیلز ٹیکس لاگو کرنے سے متعلق اقدامات کیے جائیں۔ پراپرٹی ویلیو ایشن کم از کم مارکیٹ ریٹ کے پچاسی فیصد کے برابر ہونا ضروری ہے لیکن ایف بی آر اور صوبائی حکومتیں کے اختلافات کا شکار ہونے کے باعث ابھی تک اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد کا غریب آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا اور نہ ہی سرکار کو اس کے لیے کسی اضافی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ پاکستان کو اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے مگر دوست ممالک سمیت بڑے‘ چھوٹے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کو قرض دینے پر راضی نہیں ہیں۔ ورلڈ بینک کی شرائط عمومی طور پر سب سے زیادہ آسان سمجھی جاتی ہیں اور قرض پر سود کی شرح بھی مارکیٹ کی نسبت کم ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان آسان شرائط پر عمل درآمد نہیں کر پا رہا تو مستقبل میں آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر کس طرح عمل کر پائے گا۔ ورلڈ بینک کی جانب سے انکار آئی ایم ایف کے قرض پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں وزیر خزانہ صاحب کا کردار اہمیت کا حامل ہے لیکن ان کی جانب سے بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملکی اداروں اور صوبوں کو ہدایات دینے کے بجائے امریکہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ورلڈ بینک کو پاکستان کو بجٹ سپورٹ کی مد میں 950 ملین ڈالرز دینے کے لیے آمادہ کرے۔ اس سے پہلے آرمی چیف امریکہ سے آئی ایم ایف پر دبائو ڈالنے کی بات کر چکے ہیں اور اب وزیر خزانہ ورلڈ بینک سے بات کرنے کے لیے امریکہ سے درخواست کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ورلڈ بینک نے شرائط پوری ہوئے بغیر قرض دینے سے معذرت کر لی ہے جس سے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان حالات میں ملک کی بڑی سرمایہ کار ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی من مانی کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور سرکار کا ان پر بھی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈالر ریٹ 240 پر جانے سے آٹو سیکٹر نے گاڑیوں کی قیمتوں میں تقریباً تین لاکھ سے تیس لاکھ روپے تک اضافہ کر دیا تھا لیکن اب ڈالر کے ریٹ میں تقریباً اٹھارہ سے بیس روپے کمی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات نہیں کیے جا رہے۔ اصولی طور پر درآمد کی جانے والی تمام اشیا کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کمی کے بجائے ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر ڈالر کی قیمت کم ہونے سے عام آدمی کی زندگی میں مہنگائی کا طوفان نہیں تھمتا تو ڈالر ریٹ کم ہونے کا کوئی فائدہ نہیں‘ بلکہ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر بڑھا کر آٹو کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے کوشش کی گئی ہے۔ جب تمام آٹو کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں تب ڈالر کی قیمت گرا دی گئی۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ایسا محض اتفاق نہیں ہو سکتا بلکہ منصوبہ بندی کے تحت یہ کیا گیا ہے۔ میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عوامی رائے کا اثر کم کرنے کے لیے سرکار کو کار کمپنیوں سمیت تمام درآمدی کمپنیوں کو قیمتیں کم کرنے کا پابند کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر سکتی ہے کہ سرکار اور درآمدی مافیا مل کر عوام کی مشکلات بڑھا رہے ہیں اور شاید سرکار خود بھی ڈالر سیکنڈل کی حصہ دار ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved