دلخراش خبریں تو ہم روزانہ سنتے اور پڑھتے ہیں اور جو دل پہ گزرتی ہے اس کو بیان کریں تو زخم اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں۔ چپ سادھ لیتے ہیں‘ اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں۔ پرانا زمانہ تو گیا جب صبح کو اخبار پڑھنے کو ملتے تھے اور شام کو خبر نامہ سننے کو ملتا تھا‘ صرف سرکاری ٹیلی وژن کی اجارہ داری تھا۔ بہت کچھ بدل چکا ہے مگر بہت کچھ بدلنے کا نام نہیں لیتا۔خیر‘ خبریں کہاں رکتی ہیں؟ اچھی‘ بری‘ سب ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ تو ہم بزدل درویش ان کا راستہ بند کرنے کی پوری کوشش ضرور کرتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ تشدد‘ لڑائیوں‘ باہمی انتقام‘ بدزبانی اور دہشت گردی کے واقعات سے مانوس ہو چکے ہیں اور معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔ لیکن میں نہیں مانتا کہ کوئی فرد یا معاشرہ ایسے حالات کے جبر کو فطری طور پر قبول کر سکتا ہے‘ اور ہم جیسے لوگ سیاسی کشمکش کی ہنگامہ خیزی سے دور بھاگ بھی نہیں سکتے۔ ایسا مگر اب ممکن نہیں کہ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنا پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اپنی بنائی دنیا سے حقیقی دنیا میں دن کے کسی حصے میں لوٹنا ہی پڑتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کسی بھی ملک میں جب سیاسی لڑائیاں زوروں پر ہوں‘ غیر یقینی کی صورتحال ہو‘ معیشت گر رہی ہو اور صاحبِ اقتدار ٹولے قانون اور اداروں کے ساتھ وہ سلوک کررہے ہوں جو آپ دیکھ رہے ہیں تو معاشرے میں سماج دشمن عناصر حوصلہ پکڑتے ہیں‘ لا قانونیت پروان چڑھتی ہے اور شہریوں کی زندگیاں غیرمحفوظ ہو جاتی ہیں۔
جب سے عدم استحکام کی تحریک چلی ہے اور ہر نوع کے سیاسیوں کو اکٹھا کر کے ایوانِ اقتدار کی چابیاں انہیں دی گئی ہیں‘ شہر اور دیہات میں جرائم پیشہ لوگ دھڑلے سے ابھرنے لگے ہیں۔ ہمارے اجڑے ہوئے دیاروں سے دل دہلانے والی خبریں آرہی ہیں۔ بلوچستان‘ سندھ اور راجن پور کے بارانی علاقوں میں تباہ کن سیلاب آیا تو نہ جانے کتنی بستیاں اجڑیں‘ کتنے خاندان بے گھر ہوئے۔ جو بچ گئے ان کی فصلیں‘ مویشی اور سال بھر کیلئے ذخیرہ کیا ہوا غلہ ہمیشہ کی طرح پانیوں کی نذر ہو گیا۔ موسمِ برسات میں ہزاروں ایکڑ پر کاشت کپاس تباہ ہو چکی ہے۔ ہمارے شہروں کے محفوظ اور خوشحال باسیوں کو کیا معلوم کہ آج کی مہنگائی کے دور میں فی ایکڑ کپاس کی کاشت پر کتنا سرمایہ لگانا پڑتا ہے اور اکثر کاشتکار قرض پر کھاد اور کرم کش دوائیاں خریدتے ہیں۔
ہم خاص اس مٹی کے ہیں‘ دیار اجڑے ہی سہی‘ ہیں تو اپنے۔ اجڑے ہیں‘ اس لیے میں کہتا ہوں کہ زمانے کی رفتار نے ان علاقوں اور باشندوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ظاہری طور پر آپ کو خوشحالی کے جزیرے نظر آئیں گے۔ ادھر ہریالی‘ کھیت اور ادھر کوئی باغ‘ کچھ کاروباری سرگرمیاں‘ مگر سماجی اور معاشی ترقی کے اعتبار سے راجن پور نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ غربت‘ ناخواندگی اور معاشی ناہمواری‘ خصوصاً عورتوں کے ساتھ سلوک کے واقعات کی شرح کو دیکھتا ہوں تو دل کڑھتا ہے۔ روزانہ باوثوق ذرائع سے خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر ظلم‘ ناانصافی اور زیادتی کی داستان تحریر میں نہیں لا سکتے۔ کوئی وہاں سے فون کی گھنٹی بجائے تو دھڑکا سا لگ جاتا ہے۔ چار اگست کی صبح ایسا ہی ایک فون آیا۔ کسی نے اطلاع دی کہ سپاہی راؤ راحت سلیم سندھ کی سرحد پر ڈاکوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ غمزدہ تو وہاں کے حالات سے ہم رہتے ہی ہیں اور اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی دل بیٹھ گیا۔ ایسے کہ سارا جسم سن ہو گیا۔ دماغ ماؤف۔ خوبرو‘ دراز قامت نوجوان کو دیکھا تھا۔ ان کے خاندان سے ہماری پرانی تعلق داری ہے۔ ان کا آبائی پیشہ سپہ گری ہی ہے اور نسلوں سے انہوں نے اسے قربانیاں دے کر خوب نبھایا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اُن کے والد صاحب بھی ڈاکوئوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جائے وقوعہ سے بارہ پندرہ کلومیٹر دور شہید ہوئے تھے۔ ان کے صوبے دار دادا بشیر احمد مرحوم پرانے فوجی مکتب کے سپاہی تھے۔ وضع دار‘ سفید پوش اور نہایت ہی نفیس انسان جن کے پاس آخری دم تک ہماری حاضری کا سلسلہ جاری رہا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ والد محترم کے دوستوں سے سعادت مندی کا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع تو نہیں کہ دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں پولیس کے جوان نے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے جان کی قربانی دی ہو مگر اس دفعہ شناسائی نے دکھ کی شدت بڑھا دی۔
ویسے تو میں اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہوں اور نہ جانے کتنی مرتبہ ان راستوں سے گزرا ہوں۔ ہر چند سال بعد ابھرتے ہوئے ڈاکوئوں کے نئے قصے اپنے ذرائع سے سنتا رہتا ہوں‘ مگر حالات کا بہتر جائزہ لینے کے لیے جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس احسان صادق صاحب کی مصروفیات میں مخل ہونا پڑا۔ سب کام چھوڑ کر ہمیشہ کی طرح فون پر ہی ہمارے پنجابی کلچر میں پولیس کے بارے میں جو کہا اور لکھا جاتا ہے اس پر یقین کر لیں تو ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔ ذاتی طور پر جو کچھ ہمارے مشاہدے اور معلومات میں ہے‘ کہنا پڑے گا کہ سارے انگلیاں برابر نہیں۔ فضول حوصلہ شکن بیانیوں سے ہم اکثر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تمام صوبوں کی پولیس کی قربانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ پولیو ٹیم کی نگرانی پر مامور پولیس اہل کار بھی شہید ہوتے ہیں‘ کہیں وہ سیاسی رہنمائوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردیتے ہیں۔ بیس پچیس کلومیٹر کے اس محدود علاقے میں جہاں پولیس کے سپاہی اور افسر شہید ہوتے رہتے ہیں‘ اب تک گزشتہ دس پندرہ سال ہوگئے‘ 78 آپریشنز ہو چکے ہیں۔ چھوٹو گینگ کے خلاف فوج کی مدد لینی پڑی تھی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہر چند سال بعد یہاں ایک نیا گینگ کھڑا ہو جاتا ہے؟ کچے کے علاقوں کا جغرافیہ‘ سندھ کے دریائی جنگلات تک رسائی اور وہاں قائم ڈاکوؤں کے اڈے‘ قریب ہی بلوچستان کی سرحد اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے یہ مرکز ہیں۔ سب سے بڑی وجہ سماجی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی‘محدود وسائل اور تعلیمی اداروں کی ان علاقوں میں زبوں حالی کی وجہ سے صرف غربت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ کچھ سال پہلے ''ڈاکو کا خواب‘‘ ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کی بنیاد گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں پیش آنے والا ایک واقعہ تھا۔ ڈاکو بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے سکولوں میں پڑھیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ڈاکو بنیں‘ جنگلوں میں رہیں‘ جیلوں میں گلیں سڑیں یا مقابلوں میں مارے جائیں۔
پولیس کو تو اپنا پیشہ ورانہ فرض نبھانا ہوتا ہے۔ جب ایسے گینگ سر اٹھاتے ہیں تو وہ ان کو ختم کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہے۔ پولیس نے یہاں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں مگر یہ وقتی علاج ثابت ہوا ہے۔ اسباب کی طرف توجہ اہل اقتدار و حکمرانوں کو دینی ہوتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ سینکڑوں ارب روپے جو آپ لایعنی کاموں کی نذ ر کرتے ہیں چند ارب سے کچے کے سکولوں‘ آمدورفت کے لیے پختہ سڑکوں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے خرچ کردیں تو ایسے گینگ سراٹھانا بند کردیں۔ ڈاکوئوں کی پشت پناہی کرنے والوں پر بھی کوئی حکمران ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ پولیس کے سپاہیوں کی جانیں حاضر ہیں۔ رائو راحت سلیم جیسے نڈر اور بہادر سپاہی سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔ ہمارے اجڑے دیاروں کی قسمت ہی ایسی ہے۔ ایک اور قربانی‘ ایک اور شہید‘ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved