دھارے کے خلاف بہنے اور دھارے کے رحم و کرم پر بہتے رہنے میں جو فرق ہے‘ وہی فرق دوسروں کی دیکھا دیکھی غیر فعال انداز سے زندگی بسر کرنے اور بھرپور جوش و ولولے کے ساتھ متحرک زندگی بسر کرنے میں ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی بسر نہیں کر رہے بلکہ زندگی انہیں گزار رہی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک زندگی چند سانسوں کا نام ہے جن کی گنتی پوری ہونے تک انہیں دنیا میں رہنا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ماحول کو دیکھ دیکھ کر تحریک و تحرّک سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ جب وہ ماحول میں محنت نہ کرنے والوں کو کسی نہ کسی طور بہت کچھ حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو لیاقت و استعداد پروان چڑھانے، محنت کو شعار بنانے اور دیانت کی راہ پر گامزن ہونے کا خیال ترک کرتے ہوئے ''ہجوم‘‘ سے جا ملتے ہیں۔ جو لوگ تبدیل ہونے پر یقین نہیں رکھتے وہ رفتہ رفتہ ازکارِ رفتہ ہوتے چلے جاتے ہیں یعنی پھر اُن کا کوئی خاص مصرف نہیں رہتا۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ پُرجوش انداز سے جینا کیا ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اصلاحِ احوال پر مائل ہونے کے لیے تیار بھی نہیں۔ یعنی زندگی جس راہ پر گامزن ہے اُسی راہ پر اُسے گامزن رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ تبدیلی کے نام سے بدکتے ہیں جبکہ خود بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ تبدیل ہونے ہی پر لوگ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ ہم میں سے بیشتر زندگی بھر بہت کچھ دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں مگر اُسے اچھی طرح سمجھنے اور سیکھنے کی کچھ خاص کوشش نہیں کرتے۔ یہ نیم دِلی یا بے دِلی زندگی کا معیار تواتر سے گراتی چلی جاتی ہے۔ آج زندگی کا ڈھانچا ایسا ہے کہ ہم بہت کچھ بگڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر پاتے۔ اب اصلاحِ احوال کے حوالے سے متحرک ہونا بہت مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہر طرف حوصلہ شکن معاملات ہیں۔ قدم قدم پر بہت سے معاملات ہماری راہ میں دیوار بنتے ہیں اور ہم کچھ مثبت کرنے کے حوالے سے زیادہ تحریک پانے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہوتے۔ ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران ہمارا معاشرہ اس قدر تبدیل ہوا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ ماحول سے بہت کچھ غائب ہو چکا اور دوسرا بہت کچھ آچکا ہے۔ جو کچھ جاچکا اُسے یاد کرکے رونے سے کچھ فائدہ نہیں۔ ہاں‘ جو کچھ ہمارے ماحول میں آچکا ہے اُسے سمجھنا اور برتنا لازم ہے۔ زندگی کوئی ہنسی مذاق کا معاملہ نہیں۔ قدم قدم پر سنجیدگی لازم ہے۔ ناگزیر ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں محض پوری دلچسپی ہی نہ لیں بلکہ بھرپور سنجیدگی کے ساتھ معاملات درست کرنے کی لگن بھی برقرار رکھیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے کی تقسیم پر نظر ڈالیں تو بہت سے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جن پر کبھی متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ دیہی پاکستان کا رقبہ گھٹتا جارہا ہے۔ بہت سے دیہات اب قصبوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ قصبے چھوٹے شہروں کا روپ دھارنے میں مصروف ہیں۔ چھوٹے شہروں کا رقبہ بڑھ رہا ہے۔ آبادی کا دباؤ بڑھنے سے چھوٹے شہر بڑے تو ہو رہے ہیں مگر لوگ اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی سطح پر الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اب کسی کے لیے معاشی طور پر پنپنا آسان نہیں رہا۔ بڑے ہوتے ہوئے شہر روزگار کے مواقع تو پیدا کر رہے ہیں؛ تاہم لوگوں کی مجموعی کارکردگی بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
بڑے شہروں کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، حیدر آباد وغیرہ کے معاملات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ بہت غور کرنے پر بھی بہت کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ شہر تو بڑے ہو رہے ہیں، اُن میں رہنے والے بڑے نہیں ہو رہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہروں کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں ڈھنگ سے جینے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا ہی نہیں‘ سب سے منفرد شہر بھی ہے۔ اِس کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں ملک کے ہر صوبے اور علاقے کے لوگ ہی آباد نہیں بلکہ ہر گروپ کی تعداد بھی نمایاں ہے۔ پوری پوری برادریاں آباد ہیں۔ یہ شہر کے لیے بہت اچھی بات بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ اچھی یوں کہ یہاں زندگی کا تنوع غیر معمولی ہے۔ شہر میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ باہر سے آکر آباد ہونے والے شہر کو مکمل طور پر اَون کرنے سے کتراتے ہیں۔ بہت سی لسانی برادریاں سات آٹھ عشروں سے آباد ہیں جو اب یہاں کے ماحول میں ضم ہو چکی ہیں مگر اُن سے تعلق رکھنے والے نو وارد یہاں کمانے کی خاطر آباد تو ہو جاتے ہیں مگر شہر کو اپنا نہیں پاتے۔ یہ بڑی خامی ہے جو دور کی جانی چاہیے۔ کراچی کی آبادی تو بلوچوں، پارسیوں، مسیحیوں اور سندھیوں پر مشتمل تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد کراچی دارالحکومت قرار پایا۔ یہاں بھارت سے آنے والے مہاجرین بھی آباد ہوئے اور ملک بھر سے بھی لوگ آ آکر آباد ہوتے گئے۔ اِس کے نتیجے میں شہر کی آبادی کسی حد تک گل دستے کی سی حیثیت اختیار کرگئی۔
کراچی ملک کی معاشی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے اور مالیاتی معاملات کا دارالحکومت بھی‘ اس لیے ملک بھر کے لوگوں کے لیے اس میں غیر معمولی کشش کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ ملک کے کم و بیش ہر علاقے کے لوگوں نے یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ سرمایہ کاری شہر کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے مرکز میں بدلنے کا ذریعہ بھی بنی ہے۔ یہاں قائم ہونے والے صنعتی یونٹس میں ملک بھر سے آنے والے افراد کام کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے کراچی میں زندگی مجموعی طور پر اب خاصی پُرکشش ہے۔ معاشی نمو کی گنجائش اچھی خاصی ہے۔ ہاں‘ معاشرتی، ثقافتی اور لسانی معاملات کو متوازن رکھنے پر متوجہ نہ ہونے کے باعث کچھ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں جو شہر کی مجموعی کیفیت کو الجھنوں سے دوچار کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور دیگر بہت سے شہروں کی آبادی بڑھتی گئی ہے مگر اصل مقامی باشندوں نے اپنے آپ کو بدلنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اس کے نتیجے میں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ پیچھے رہ جانا بہت سی معاشی، معاشرتی اور نفسی خامیوں اور خرابیوں کا باعث بنا ہے۔ اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساسِ محرومی بھی شدید معاشرتی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ ہر بڑے شہر میں ایک بنیادی مسئلہ یہ پایا جاتا ہے کہ مقامی لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور اُن کا پس ماندہ رہ جانا معاشرتی اور نفسی الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ کراچی میں یہ کیفیت شدید تر ہے۔ لاہور میں بھی باہر سے آئے ہوئے لوگ آباد ہوئے ہیں اور ملتان میں بھی۔ راولپنڈی بھی ایک خاص حد تک گل دستے کا سا انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔ ملک بھر سے آنے والے وہاں بھی آباد ہوئے ہیں مگر مقامی لوگوں نے اپنے آپ کو متحرک رکھا ہے۔
کراچی میں آبادی کا تناسب بگڑ چکا ہے۔ اب مقامی آبادی میں اتنی صلاحیت و سکت نہیں کہ شہر کی پوری معیشت کا بوجھ اٹھاکر چل سکے۔ جب تک کراچی میں روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہوتے رہیں گے، ملک کے کونے کونے سے باصلاحیت افراد اس شہرِ بے مثال کا رخ کرتے رہیں گے۔ ایسے میں شہر کا معاشرتی حُسن اُسی وقت برقرار رہ سکتا ہے جب مقامی نوجوان بھی اپنے آپ کو شہر کی ورک فورس کا بھرپور حصہ بنانے پر متوجہ ہوں۔ یہ کام سنجیدہ ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved