تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     13-08-2022

جمہوریت پیچھے ہٹ رہی ہے؟

سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں جمہوریت کی افادیت اور ادارہ جاتی حدود و قیود پر وسیع بحث و مباحثہ نے پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل پر سوالات اٹھا کر مقننہ، مقتدرہ اور اداروں کے دائرۂ اختیارکی ازسر نو توضیح کے تقاضوں کو بڑھا دیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ادارہ جاتی نظام میں توازن پیدا کرنے کی صلاحیتوں کی افزائش نہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی وجود جمہوری اقدار کو سنبھالنے کے قابل نہ ہو سکا۔ افسوس کہ جس وقت اِس خطے کے اقتصادی ماحول اور طرزِ حکمرانی کے تقاضے بدلنے لگے تو عین اسی لمحہ ہم بھی لیلائے جمہوریت سے ہم آغوش ہونے کے قریب آ پہنچے۔ آج جس طرح بعض مغربی ممالک کی جمہوریتیں بتدریج ایک نوع کے استبدادی نظامِ حکومت کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ اسی طرح ہمارے مشرق میں بھارت بھی ان دنوں ایک پاپولر کلٹس لیڈر نریندر مودی کی قیادت میں پارلیمانی جمہوریت سے ''مقدس آمریت‘‘ کی طرف رینگتا دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی قوت چین بھی یک جماعتی نظام کے سہارے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے جدید معاشی ماڈل کو ترقی دینے میں کامیاب ہو رہا ہے لیکن ہمارا مخمصہ یہ ہے کہ یہاں پچھتر سالوں سے قائم کھلی اور ظاہری آمریتوں سے نالاں شہری آج بھی اُس پارلیمانی جمہوریت کے رومانس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں‘ ہمارے نیم قبائلی سماج میں جسے بروئے کار لانے کا داعیہ ہی موجود نہیں۔ پچھتر سالوں میں ہم شخصی اخلاقیات، سماجی انصاف اور ذہنی انکسار جیسی وہ اعلیٰ صفات پیدا نہیں کر سکے جو جمہوری تمدن کے فروغ کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔
اگرچہ جمہوریت کے اساسی تصورات ہمیں یونان کی تہذیبی اقدار سے ملے، جہاں پہلی بار جمہور کی حکمرانی کا ناکام تجربہ کیا گیا اور جس میں بپھری ہوئی اکثریت نے دنیا کے عظیم فلسفی سقراط کی جان لے لی تھی؛ تاہم موجودہ تصورِجمہوریت کا آغاز 1648ء کے ویسٹ فلیا معاہدے کے بعد نمودار ہوا جسے والٹیئر کی یاسیت سے لبریز تحریروں اور بیتھون کے پُرسوز نغمات نے مقبولیتِ عامہ کے درجے تک پہنچایا؛ تاہم جمہوریت کو سازگار ماحول 1789ء میں فرانسیسی انقلاب کے بعد میسر آیا جس میں روسو جیسے مفکرین نے جمہوریت کی وکالت کرتے ہوئے اسے حکومت کی جائز شکل قرار دیا۔ تبھی طویل بادشاہتوں اور چرچ کی بالادستی سے اکتائے ہوئے لوگوں نے اسے دل کھول کر پذیرائی دی، جس کے بعد حکمرانی کی وہ بے رحم صورتیں مغرب کے بہت سے ممالک سے نقل مکانی کر گئیں جن کی روح طاقت کی جبریت میں مضمر تھی۔ جمہوریت دنیائے مغرب کے نظام ہائے حکومت میں ایسی چنگاری بن کر داخل ہوئی کہ صدیوں کی اساس رکھنے والی پرشکوہ مذہبی اور خاندانی بادشاہتیں مہینوں میں زمین بوس ہونے لگیں لیکن اس کے باوجود جمہوریت یورپ میں قوم پرستی کا دخول نہ روک سکی اور وہاں بھی نسل پرستی کی عصبیتوں نے جمہوریت کے حقیقی تصورات کو ہمیشہ اپنی گرفت میں رکھا۔
بیسویں صدی کی جمہوریت جبلی محرکات سے آزاد نہیں تھی، اسے جزوی طور پر نازی ازم کے چیلنج کا سامنا رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فاشزم اور مطلق العنانیت کی مہیب لہریں جمہوری تمدن کے سر پہ منڈلاتی نظر آئیں؛ البتہ 1945ء کے بعد کے معیارات پہ مبنی جمہوریت مقبول ہو کر پوری دنیا کے نفسیاتی ماحول پہ چھا گئی۔ جمہوریت محض چند حکومتی اداروں کے مجموعے پر مشتمل ریاستی ڈھانچے کا نام نہیں بلکہ چند بنیادی اصولوں، اقدار، ذہنیت اور طریقوں پہ مبنی ایسا منقسم نظامِ حکومت ہے جسے صرف رائے عامہ ہی متوازن رکھ سکتی ہے، یعنی جمہوریت میں حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ آزاد میڈیا ان کے اعمال سے عام لوگوں کو باخبر رکھتا ہے اور جمہوری و غیرجمہوری معاشرے کے مابین یہی بنیادی فرق ہے۔ بلاشبہ آزاد اور فعال میڈیا ہی کسی معاشرے میں جمہوری اصولوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ریاستوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نہایت اہم آرا پیش کرنے والے ارسطو کہتے ہیں کہ جمہوریت بدترین طرزِ حکومت ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ بھی مغربی طرزِ جمہوریت کے حق میں نہیں تھے؛ تاہم اقبال جمہوریت کو ناپسند کرنے کے باوجود ایک نمائندہ حکومت کے قیام کو ضروری متصور کرتے تھے لیکن اس نمائندگی کی عملی صورتوں کے حوالے سے وہ بھی خاموش نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی میں جمہوریت کو فلاحی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کرنے والے ابھی تک ان معاشی تغیرات کی وضاحت نہیں کر سکے جن میں غیرجمہوری ریاستوں نے اقتصادی ترقی کی محیر العقول مثالیں قائم کیں۔ 1950ء کی دہائی میں کمیونسٹ جمہوریہ رومانیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان اور 1970ء کی دہائی کے دوران مستحکم برازیل میں آمرانہ اداوار میں ریکارڈ اقتصادی ترقی ہوئی۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی میں چین، سنگاپور اور جنوبی کوریا سمیت جن اقتصادی ٹائیگرز نے معاشی ترقی کی معراج کو چھوا‘ ان تمام ممالک میں آمرانہ حکومتیں قائم تھیں۔
آزادی کے بعد سے ہمارا ملک اقتدار کی رسہ کشی کے باعث رولنگ سٹون بنا رہا ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی نظامِ حکومت اور 1962ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام کے تجربات کے علاوہ اس مملکت کو کئی بار مارشل لاء ادوار کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن مجموعی سیاسی استحکام، قومی شناخت اور اقتصادی پالیسیاں ہمیشہ دگرگوں رہیں۔ ہمارے بعض سیاستدانوں کی غیرجمہوری روش کی بدولت مملکت کو آج بھی سنگین مسائل کا سامنا ہے؛ تاہم سماجی تعمیر پسندی کہتی ہے کہ اصول، شناخت اور خیالات کا تناظر دنیا کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک عالمی اصولی ڈھانچہ ریاستوں کی شناخت اور مفادات کو تشکیل دیتا ہے۔ انہی طریقوں اور تعامل سے ریاستیں اپنی ساخت کی تشکیلِ نو کرتی ہیں۔ جمہوریت کے تصور کو سمجھنے کے لیے دوسری جنگِ عظیم کے بعد بالخصوص سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ابھرنے والی جنگی جمہوریت کے مطالعے کی بھی ضرورت پڑے گی۔ عصری دنیا کی سیاست میں امریکہ ایک غالب جمہوری طاقت بن کے ابھرا۔ اکثر امریکی صدور بالخصوص صدر ریگن اور جارج ڈبلیو بش نے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا میں جمہوریت کا پھیلاؤ ان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی جز ہے۔ اسی پالیسی کے تحت امریکہ نے عراق اور افغانستان پر جنگیں مسلط کیں لیکن امریکی قیادت اپنے اعلانیہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ عراق سے امریکی انخلا کے بعد وہاں مہیب فرقہ واریت نے پنجے گاڑ کر معاشرتی امن کو تباہ کر دیا اور افغانستان کو اسی امارتِ اسلامی کے حوالے کرنا پڑا جس سے نجات کی خاطر امریکہ نے بیس سال تک یہاں آتش و آہن کی بارش کرکے لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہایا۔ بھارت‘ جس کا شمار دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں کیا جاتا ہے‘ وہاں اب بھی کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، حالانکہ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ایک حقیقی جمہوری ریاست ہی عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا سکتی ہے۔ اسی لیے عوام حقیقی جمہوری ریاست کا مطلب فلاحی ریاست لیتے ہیں لیکن اس کے برعکس عصرِ حاضر میں چین جیسی 'غیر جمہوری‘ ریاست نے جس تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر لیںاس سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا کہ صرف جمہوری ریاست ہی اقتصادی ترقی اور سماجی فلاح و بہبود کا رول ماڈل بن سکتی ہے۔ جمہوریت کی بنیادی خصوصیات میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات، فعال میڈیا، حصولِ تعلیم اور ترقی کے یکساں مواقع، آزاد عدلیہ، قانونی کی حکمرانی، آزادیٔ اظہار کی شعوری حدود، مذہبی آزادی اور رواداری کی جڑیں بھی انسانی ارتقا اور اُن اخلاقی اقدار کی کوکھ سے پھوٹتی ہیں جنہیں انبوہی سیاست بجائے خود اجاڑنے کا سبب بنتی ہے۔ جمہوریت کی اٹھان کیلئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد لازم ہے جس میں تمام شہریوں کو انتخابی عمل اور بیلٹ تک مساوی رسائی اور خفیہ رائے دہی کا حق ملے تاکہ منصفانہ انتخابات سے شہریوں کو مرضی کے نمائندے منتخب کرنے میں مدد ملے۔ سیاسی اور سماجی مسائل سے آگاہی اور حل کی وسیع بحث کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرنا، سیاسی و سماجی تعلیم دینے اور رواداری کی حوصلہ افزائی کرنا میڈیا کے وظائف میں شامل رہا ہے لیکن میڈیا خود اپنی آزادیوں کے تحفظ میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved