''افغانستان: ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ کے ٹائٹل پر جناب ابرار حسین نے ''تراجم و تحاریر‘‘ لکھا ہے، اس کا مطلب یہ ہے: یہ کتاب بیک وقت تالیف بھی ہے اور تصنیف بھی۔ تالیفی حصے کے مندرجات پر ہم نے گزشتہ کالم میں گفتگو کی، آج تصنیفی حصے پر گفتگو کریں گے۔ کالم میں کسی کتاب کا احاطہ یا اُس سے انصاف عملاً دشوار ہے؛ تاہم کوشش کی جائے گی کہ آپ کو مصنف کی بنیادی فکر اور کوشش سے آگہی ہو جائے:
افغانستان میں شکست سے امریکہ کا یک قطبی سپر پاور ہونے کا سحر تحلیل ہو گیا، اس کی سبکی ہوئی، امریکہ کے اپنے لوگوں اور اتحادیوں کا امریکہ اور اس کی قیادت پر اعتماد متزلزل ہوا اور اب وہ اپنے دفاع کے بارے میں ایک طرح سے عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ لیکن جنگیں تخلیق کرنا امریکہ کی ضرورت بھی ہے اور مشغلہ بھی۔ اُس نے یوکرین کے سابق مزاحیہ اداکار اور موجودہ صدر زیلنسکی کو بانس پر چڑھایا اور اس کا ملک، جو ایک مستحکم معاشی قوت تھا، تاراج ہو گیا۔ روس کے اقتصادی بائیکاٹ کی امریکی پالیسی نے خود یورپ اور امریکہ کی معیشت کو بھی متزلزل کر دیا، کیونکہ یورپ کے بیشتر ملکوں کا انحصار روس کے قریب ترین اور سستے ایندھن (پٹرول اور گیس) پر تھا، اس پابندی کے نتیجے میں مغربی ملکوں اور امریکہ میں منہگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
مصنف نے افغانستان و مشرقِ وُسطیٰ کی جنگ کے نتیجے میں انسانی جانوں کے اتلاف کے اعداد و شمار مختلف ذرائع سے جمع کیے ہیں، لیکن یہ بھی بتایا کہ ہماری طرح پنٹاگون اور امریکی اسٹبلشمنٹ بھی حقیقی اعداد وشمار کو اپنی قوم سے چھپاتے رہے ہیں۔ افغانستان کا نام پہلے پہل 1747ء احمد شاہ ابدالی کے دور میں رائج ہوا۔ خوش حال خان خٹک نے کہا ہے: ''افغان اور پشتون ہم معنی ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملتِ افغان، در آن پیکر دل است
از فساد او، فساد آسیا
از کُشاد او، کُشادِ آسیا
تا دل آزاد است، آزاد است تن
ورنہ کاہی، در رہِ باد است تن
مفہوم: ''ایشیا ایک پیکر آب و گِل ہے اور ملتِ افغان کی حیثیت اس پیکر میں دل کی سی ہے، لہٰذا اگر افغانستان میں فساد ہو گا تو ایشیا اس سے محفوظ نہیں رہے گا، افغانستان میں امن ہو گا تو ایشیا میں بھی امن و ترقی کی راہیں کھل جائیں گی، کیونکہ جب تک دل آزاد ہو، جسم بھی آزاد رہتا ہے، ورنہ اگر دل آزادی سے محروم ہو جائے تو جسم کی مثال بادِ مخالف کے سامنے ایک پرِ کاہ کے برابر رہ جاتی ہے‘‘۔
ابرار حسین صاحب کے بقول امریکہ افغانستان کو ''جیو پولیٹکل‘‘ یعنی سیاسی تزویراتی زاویے سے دیکھتا ہے اور چین افغانستان کو اقتصادی تزویراتی زاویے سے دیکھتا ہے، یعنی امریکہ کواپنے یک قطبی سپر پاور کے سٹیٹس کی فکر ہے، جبکہ چین جنگوں سے بچتے ہوئے اقتصادی سپر پاور بن کر امریکہ کے مقابل آنا چاہتا ہے۔ اس معنی میں چین دور اندیش اور امریکہ کوتاہ اندیش ہے، کیونکہ چین کو اندازہ ہے کہ سوویت یونین کا زوال حربی صلاحیت کی کمی سے نہیں ہوا، بلکہ اقتصادی کمزوری سے ہوا اور امریکہ سوویت یونین کی راہ پر چل رہا ہے۔ امریکی طاقت کا راز آرگنائزیشن اور ٹیکنالوجی میں تھا، اس نے اپنی لبرل سیکولرازم پر مبنی تحریک کے لیے جمہوریت، حقوقِ انسانی، حقِ آزادیٔ اظہاراور حقوقِ نسواں کے بُت تراشے، نیز ایل جی بی ٹی پلس کی صورت میں حیوانی سطح کی جنسی آوارگی اور لذت کوشی کی جنت تشکیل دی، فوجی طاقت کے رعب اور دولت کی لالچ سے قوموں کے ضمیر کو خریدکر اپنی غلامی کی زنجیر میں باندھنا چاہا، لیکن تحریکِ طالبان کے صبر، عزیمت اور استقلال نے اسے شکست دے دی۔ وہ کبھی جلد بازی میں نہیں رہے، ایک مفلوک الحال قوم کے لیے بیس سال کا صبر کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ابرار حسین صاحب نے اعداد و شمار اور ارضیاتی تجزیوں سے بتایا ہے کہ افغانستان کھربوں ڈالر کے معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ ان میں سونا، چاندی، تانبا، المونیم، لوہا، جَست، مَرکری، کوئلہ اور تیل‘ الغرض سب کچھ موجود ہے، اس کے علاوہ بڑی مقدار میں لیتھیم، سیریم اور میوڈینیم کی صورت میں نایاب مٹی موجود ہے، جس کے بارے میں ان کی تحقیق ہے کہ یہ مستقبل کا سعودی عرب ہو گا۔ علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کے زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ پائیدار اعتقادی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم نہیں ہے، اس کا سارا مدار جنسی اور جسمانی راحت ولذت پر ہے، ایک دن یہ تہذیب مر مٹنے والی ہے؛ اگرچہ ہمارے لبرلز اس پر علامہ اقبال کا مذاق اڑاتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے کہا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے، آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
ابرارحسین لکھتے ہیں: ''یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہم کہتے ہیں کہ افغانستان پر امریکی حملے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں تھا، امریکہ نے طاقت کے گھمنڈ میں بلاجواز افغانستان پر حملہ کیا تاکہ وہ یہاں بیٹھ کر اس خطے سے وابستہ اپنے سیاسی اور تہذیبی عزائم کی تکمیل کر سکے۔ مزید برآں امریکہ دنیا کو دکھانا چاہتا تھا کہ وہ تباہ و برباد کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، ساری دنیا کو چاہیے کہ وہ مرعوب ہوکر امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے اور اس پر فخر بھی کرے۔ بیس برس بعد جب جنگ کا نتیجہ سامنے آیا تو پتا چلا کہ امریکہ کا سپر پاور کا سٹیٹس مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ امریکہ کے اتحادی خوف زدہ ہیں اور اس کی طرف سے شکوک وشبہات کا شکار ہیں۔ مغرب کا بنایا ہوا عالمی نظام شدید تضادات کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ تضادات بالآخر اس نظام کو زمیں بوس کر دیں گے۔ طاقت کے نئے مراکز وجود میں آ چکے ہیں، دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، اب صرف امریکہ کی مرضی سے سب کچھ نہیں ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کائنات بے خدا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر تاریخ کے گھوڑے پر سواری کرتی ہے، جباری و قہاری فقط اس ذاتِ صمد کو زیبا ہے، وہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا، زمین و آسمان میں حکم صرف اسی کا چلتا ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے۔ امریکہ کی شکست کی توجیہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ یہ اندھی طاقت کے زعم پر نظریے کی فتح ہے۔ طالبان نظریے اور اخلاق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں برتر تھے، نظریے کے ساتھ ناقابلِ شکست وابستگی، اخلاص اور وفاداری اور اس کی حفاظت کے لیے مر مٹنا اخلاق کی سب سے اعلیٰ قدر ہے‘‘۔
ہمارے بعض علماء نے طالبان کو اسلامی بینکنگ سکھانے کی پیشکش کی جو سودی بینکنگ کی چھتری تلے اپنی تحدیدات کے دائرے میں مقیَّد ہے۔ بہتر ہے کہ طالبان کو اپنا تجربہ کرنے دیا جائے، افغانوں میں کاروبار کا بے پناہ شعور ہے، وہ درآمدات و برآمدات کے لیے بارٹر سسٹم (سامان کے بدلے سامان کی تجارت) بھی اختیار کر سکتے ہیں، وہ درہم و دینار کے دور کی طرف بھی پلٹ سکتے ہیں۔ ہمارے برعکس بعض کمزوریوں کے باوجود اسلامی تہذیب افغانوں کے مزاج میں ڈھلی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قمیص شلوار پہنے، کندھے پر چادر ڈالے داڑھی و پگڑی کے ساتھ دنیا کے جدید ترین ملٹری ڈریس اور کِٹ میں ملبوس اتحادی افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا، لوگوں کی نظر میں یہ وضع قطع باعثِ عار ہو گی، انہوں نے اپنی عزیمت سے اسے باوقار بنا دیا۔
ہماری نظر میں پاکستان کو اپنی سالانہ منصوبہ بندی میں افغانستان کی ضروریات کو بھی شامل کرنا چاہیے، جتنا افغانستان کا پاکستان پر انحصار ہو گا، اتنا ہی عوامی سطح پر تعلقات میں بہتری آئے گی، اعتماد پیدا ہو گا۔ تاریخ میں پہلی بار طالبان نے پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، امن قائم کر چکے ہیں، اگر یہ امن دیرپا ہو جائے تو از شرق تا غرب پوری دنیا کے لیے پاکستان اور افغانستان پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زمینی راستے سے یورو ایشیا جڑ جائیں گے اور امریکہ الگ تھلگ رہ جائے گا۔ بھارت بھی خود پاکستان سے پُرامن تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ امریکہ چین کی طرح امکانات اور مواقع کی تلاش کے بجائے انڈو پیسفک (بحرِ ہند و بحر الکاہل) خطے میں چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ تخلیق کر رہا ہے، اس کے لیے اس نے امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا پر مشتمل چار ملکی اتحاد (Quad) تشکیل دیا ہے۔ نیز آسٹریلیا، یوکے اور امریکہ پر مشتمل الائنس (Aukus) بنایا ہے، الغرض امریکہ سرد و گرم جنگیں تخلیق کر رہا ہے اور چین مشتعل ہوئے بغیر ''ون بیلٹ‘ ون روڈ، سی پیک، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ کے ذریعے اپنے آپ کو اقتصادی و حربی سپر پاور بنانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ ٹرمپ کا فلسفہ یہی تھا: ''سب سے پہلے امریکہ‘‘، یعنی امریکہ کو اپنی فکر کرنی چاہیے، اپنے وسائل دوسروں پر خرچ نہیں کرنے چاہئیں حتیٰ کہ وہ اپنے نیٹو اتحادیوں سے بھی کہہ چکا تھا: ''اپنے دفاع کا بوجھ خود اٹھائو‘‘، اقوامِ متحدہ اور اس کے بہت سے ذیلی اداروں کو امریکہ جو مالی اعانت دیتا تھا، اُس نے اُس سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ ابراہیم ذوقؔ نے کہا ہے:
رِندِ خراب حال کو، زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
ابرار حسین صاحب نے لکھا ہے: ''ہمارا سوال یہ تھا: اگر طالبان کامیاب ہو گئے تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے، طالبان کی کامیابی کے اثرات ممکنہ طور پر دو دائروں میں مرتب ہوں گے، ان میں پہلا دائرہ بلاواسطہ جدید مغربی تہذیب کا ہے، جبکہ دوسرا دائرہ ملتِ اسلامیہ کا ہے۔ ہمارے نزدیک افغانستان میں امریکہ کی شکست کی نوعیت صرف جنگی اور سیاسی نہیں ہے، بلکہ یہ مغربی اقدار کی شکست کا آغاز ہے۔ جدید مغربی تسلّط کے دو بنیادی امتیازات ہیں: ٹیکنالوجی اور آرگنائزیشن، پس امریکی شکست نے دونوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 2001ء میں امریکہ نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر کے افغانستان میں مغربی طرز کی سیاست، معاشرت اور معیشت قائم کرنے کی کوشش کی۔ 15 اگست 2021ء کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو یہ نظام روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ گیا۔ امریکہ نے اس نظام کو قائم کرنے پر تین ٹریلین ڈالرخرچ کیے، مگر یہ مصنوعی نظام پلک جھپکنے میں بکھر گیا اور نتیجتاً افغانستان مغربی تہذیب کا ایندھن بننے سے بچ گیا‘‘۔ میرا ایک بار پھر نوجوان علماء کو مشورہ ہے کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں تاکہ آپ کے اندر گرد و پیش کی دنیا کو سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو، کسی کی ہر بات سے نہ اتفاق ضروری ہے اورنہ اختلاف۔ عربی کا مقولہ ہے: ''خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرَ: فائدہ مند چیز کو لے لو اور نقصان دہ چیز کو چھوڑ دو‘‘۔ کالعدم ٹی ٹی پی پر ہم الگ سے لکھ چکے ہیں‘ دونوں کو خلط ملط نہ کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved