پاکستان‘ ہمارا پیارا وطن‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان ماشاء اللہ 75 برس کا ہو چکا۔ آج اس کی ڈائمنڈ جوبلی منائی جا رہی ہے۔ پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا‘پاکستان نے ہمیں کیا دیا‘ اور ہم نے اسے کیا دیا‘ ہم بحیثیت قوم کتنا آگے بڑھے اور کتنا پیچھے ہٹے‘ کیا حاصل کر پائے‘ اور کیا حاصل نہیں کر پائے‘ کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا‘ جو کسی نہ کسی غلطی‘ کوتاہی یا خامی سے حاصل نہیں ہو سکا اور کیا کچھ ہر غلطی‘ کوتاہی یا خامی کے باوجود حاصل کر لیا گیا۔ یہ سب سوالات زیر بحث رہے ہیں‘ اور زیر بحث رہیں گے۔ گریبانوں کو ٹٹولنے کا شوق ہمیں چین نہیں لینے دیتا‘ لیکن اکثر اوقات ہم جس گریبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ دوسرے کا ہوتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت کم ہی ملتی ہے یا یہ کہیے کہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اگر ہر شخص بلکہ ہر ادارہ اپنی اپنی دانستہ یا نادانستہ کوتاہیوں‘ خامیوں یا بے وقوفیوں کا جائزہ لینے بیٹھ جائے تو پھر کسی کو بھی کسی دوسرے پر گرجنے برسنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہمارے اہلِ سیاست‘ اہلِ صحافت‘ اہلِ عدالت‘ اہلِ صنعت و تجارت اور سب سے بڑھ کر اہلِ طاقت و حشمت اگر اپنی اپنی غلطیوں کا جائزہ لے کر ان سے سبق سیکھنے کا عمل شروع کر دیں تو پھر نہ کسی ادارے کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنانے کی ضرورت ہو گی‘ نہ بار بار باآواز بلند یہ شور کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنا از روئے دستورِ پاکستان گناہِ کبیرہ ہے۔ جب سب اپنی اپنی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘ اور سب کی آنکھیں میلی ہو رہی ہوں گی‘ تو پھر آنکھیں چرانے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی‘ آنکھ لڑانے اور دکھانے کا مزا کیونکر آئے گا؟
اگر 14اگست 2022ء کا موازنہ 14اگست 1947ء سے کیا جائے‘ تو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھرپور تبدیلی واضح نظر آئے گی۔ کجا وہ وقت کہ کم و بیش آدھی آبادی کے پائوں میں جوتے نہیں ہوتے تھے‘ گائوں سے شہر آنے والے لوگ اگر جوتے پہنے ہوئے ہوتے تو سڑک پر کیچڑ دیکھ کر انہیں اتار کر بغل میں داب لیتے کہ کہیں وہ خراب نہ ہو جائیں‘ پائوں تو دھو لیے جائیں گے‘ جوتوں کا منہ کون دھلاتا پھرے گا؟ آبادی کا بہت بڑا حصہ پیاز‘ اچار‘ چٹنی یا گڑ سے روٹی کھاتا تھا‘ اور محلے کے ایک‘ دو‘ تین مکانوں کے سوا کہیں دونوں وقت چولہا گرم ہوتا تھا‘ نہ ہنڈیا چڑھتی دکھائی دیتی تھی‘ ان علاقوں‘ ان محلوں‘ ان بستیوں میں آج جا کر دیکھیں تو آج کے غریب بھی 1947ء کی طرح کے غریب نہیں ہیں۔ ان کی غربت میں بھی ''امارت‘‘ کی جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ سکول‘ کالج‘ کارخانے‘ سڑکیں‘ ہسپتال‘ عالی شان مکانات کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے‘ ہر شہر ان سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس کی کمی محسوس ہوتی ہے‘ وہ ''کچھ نہ کچھ‘‘ کیا ہے‘ اس کا جواب اپنا اپنا ہے‘ ہر چہرے پر الگ الگ تحریر لکھی دیکھی جا سکتی ہے۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستان کے بالادست طبقات نے اپنے اوپر تو نوازشات کی بارش کی‘ لیکن اپنے گھر سے باہر جھانکنے کی توفیق کم سے کم ہوتی گئی۔ پاکستان کے کم و بیش اسی فیصد گھرانے (اور افراد) ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی غربت کو جی بھر کو دور کیا ہے۔ بڑے بڑے افسروں‘ جرنیلوں‘ ججوں‘ میڈیا والوں اور سیاست کاروں سے پوچھ کر دیکھیے کہ ان کے دادا‘ اور پردادا کیا کام کرتے تھے‘ تو کھسیانی ہنسی ان کے چہروں پر بکھر جائے گی۔ یہ سب غریبوں‘ ناداروں‘ مفلسوں اور محنت کشوں کی اولادیں ہیں جن کو پاکستان کی بدولت آگے بڑھنے کے مواقع ملے‘ انہوں نے اپنی غربت پر فخر کرنے کے بجائے اسے عیب سمجھ کر چھپایا‘ اور اپنے لیے ''خلعت فاخرہ‘‘ تلاش کرنے میں ہر قاعدے‘ ضابطے‘ حرام اور حلال کو نظر انداز کر دیا۔ اگر یہ سب کے لیے سوچتے‘ خوشحالی بھی اسی طرح بانٹ دیتے‘ جیسے قدرت نے غربت بانٹ رکھی تھی‘ تو آج پاکستان دنیا کا منفرد ملک ہوتا‘ صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ‘ جہاں کے امیر غریبوں کی طاقت ہوں اور غریب امیروں کو اپنا سائبان سمجھیں۔
پاکستان بنا تو امیر غریب کے سکول ایک تھے‘ ہسپتال ایک تھے‘ بستیاں ایک تھیں‘ تعلیم دینا بھی سرکار کے ذمے تھا‘ اور علاج کرانا بھی اس پر لازم تھا‘ سو ایک جیسے ٹاٹ پر ٹھاٹھ باٹھ سے زمینداروں‘ مزارعوں‘ ججوں‘ وکیلوں‘ ان کے منشیوں‘ صنعتکاروں‘ تاجروں‘ مزدوروں‘ محنت کشوں کے بچے بیٹھتے‘ اور پڑھ لکھ کر نواب بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے‘ پھر یہ ہوا کہ سرکار اپنا ہاتھ کھینچتی چلی گئی‘ تعلیم اور صحت کے لیے مختص وسائل کم ہوتے گئے‘ آمدنی کے اعتبار سے درس گاہوں اور علاج گاہوں میں داخلے ہونے لگے‘ امیروں اور غریبوں کی بستیاں الگ الگ بسنے لگیں‘ وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ دہائی خدا کی بڑے بڑے شہروں کے اندر ایک ایک سو کنال میں گھر بنانے والے افزائش پا رہے ہیں‘ یہ دیکھے‘ جانے اور سمجھے بغیر کہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں چند فٹ کی چھت بھی میسر نہیں ہے۔ باوسیلہ لوگوں کے بچے ہزاروں کیا لاکھوں خرچ کر کے تعلیم کا زیور خرید رہے ہیں‘ ان کے نصاب الگ ہیں‘ زبان الگ ہے‘ اور خواب بھی الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے وسائل سے غیر ملکی شہری پل رہے ہیں کہ ہوش کی آنکھ کھولتے ہی انہیں یہاں سے رخصت ہو جانا ہے‘ ان کی منزل امریکہ ہے یا آسٹریلیا‘ کینیڈا ہے یا برطانیہ۔ پاکستان محض ان کی چرا گاہ ہے۔ آئین اور قانون کی حدود سے قطع نظر‘ اقتدار پر جائز اور ناجائز قبضوں کی تاریخ سے قطع نظر‘ اور سیاسی جتھوں کی رزم آرائیوں سے قطع نظر‘ پاکستان کو پاکستان کے متمول افراد سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ نصاب تعلیم یکساں رہا ہے‘ نہ معیارِ تعلیم پر توجہ ہو رہی ہے‘ قومی زبان سرکار اپنانے پر تیار ہے‘ نہ عدلیہ اور انتظامیہ اسے اپنا رہی ہیں۔ اپنی توہین پر نوٹس جاری کرنے والے دستورِ پاکستان کی کھلی توہین کا نوٹس لینے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستانیوں کا مطالبہ یہی ہے کہ اس پر اس کے دستور کے مطابق حکومت کی جائے‘ دستور کے تقاضے پورے کیے جائیں‘ غیر ملکی حکمرانوں سے زیادہ عیش و آرام سے زندگی گزارنے والے اپنی اوقات میں واپس آ جائیں‘ جس سطح پر دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران گزر اوقات کر رہے ہیں اس سطح پر روز و شب گزاریں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مینجمنٹ کا ہے‘ اسے اچھے منیجر ملنے چاہئیں‘ جو سب کے لیے سوچیں۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا‘ وہ معاشی اور سماجی طاقت بننے کے لیے بھی بے تاب ہے‘ اس کے راستے میں ہر وہ شخص رکاوٹ ہے جو اپنی ذات کا بت پوجنے میں لگا ہے‘ آیئے‘ لات و منات کو لات مار کر گرا دیں۔ 75سال کا پاکستان آج بھی جوش و جذبے سے مالا مال ہے‘ اسے آج بھی اپنے شہر‘ اپنے لوگوں پر‘ اپنے مستقبل پر یقین ہے۔ آج بھی وہ کچھ کر دکھانا چاہتا ہے‘ دنیا کو بدل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتا ہے‘ اسے اچھی طرح خبر ہے کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ اس کا راستہ روکنے والو‘ راستے سے ہٹ جائو‘ اس سے پہلے کہ تمہیں بزورِ بازو ہٹا دیا جائے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved