تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     14-08-2022

زندگی کی کہانیاں

''زندگی ایک کہانی ہے‘ اپنی کہانی کو بیسٹ سیلر بنا دیں‘‘۔
کسی نامعلوم شخص کی کہی ہوئی یہ بات درست ہے۔ آپ کہاں پیدا ہوتے ہیں‘ یہ انتخاب آپ کا نہیںہوتا لیکن آپ کہاں جیتے ہیں‘ کیسی زندگی گزارتے ہیں‘ کیسے اور کتنی روزی کماتے ہیں‘ یہ سب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ یہ سچ ہے لیکن یہ سچائی آسان نہیں۔ دورِ حاضر میں زندگی مشکل خیال کی جاتی ہے۔ تصور کریں کہ جو لوگ مسلسل بدنظمی‘ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ‘ مکمل کنٹرول نہ ہونے والی عالمی وبا اور اشیا کی قلت کے زمانے میں دنیا میں آئے ہیں اور جو اس دور میں جی رہے ہیں‘ وہ کسی قدر بدقسمت ہیں۔ انسان کی شروع کردہ جنگوں اور انتہائی الجھے ہوئے اور خطرناک ماحول میں جہاں مہربان فطرت کا موڈ بھی ناقابلِ تصور حد تک برہم ہے‘ بہت سوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے انتہائی بدقسمت دور میں آنکھ کھولی۔ جب ہم ''اپنے دور‘‘ کی کہانیاں سناتے ہیں‘ تو یہ اُنہیں درحقیقت ایک ''کہانی‘‘ ہی محسوس ہوتی ہے۔ جب نوجوان یہ سنتے ہیں کہ کبھی پاکستان رہنے کے لیے ایک شاندار ملک تھا‘ یہاں زندگی بہت پُرامن تھی‘ اس میں انسانی روابط کی بہت گنجائش موجود تھی‘ تحفظ تھا‘ خوبصورتی تھی‘ لوگ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مطمئن اور خوش تھے تو انہیں شکایت ہوتی ہے کہ آج انہیں کیسی پابندیوں کا سامنا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کے ساتھ یہ موازنہ بہت سوں کے لیے پریشان کن ہے۔ ماضی میں سماجی اور معاشی طبقات کے لیے پریشانی امکانات کی کھڑکیاں کھول دیتی تھی۔ نچلا طبقہ مشرقِ وسطیٰ جا سکتا تھا جہاں محنت کشوں کی مانگ تھی۔ خوش حال افراد اپنے بچوں کو مغربی ممالک میں بھیج سکتے تھے کہ وہ وہاں مقیم ہوکر زندگی کا نیا باب شروع کرلیں۔ حالیہ وقتوں میں یہ امکانات محدود تر ہو چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ تعمیرات کے مرحلے سے آگے بڑھ چکا۔ مغربی دنیا میں کساد بازاری اور نسل پرستی نے سر اٹھا لیا ہے۔ اب مغربی زندگی بھی ویسی رومانوی اور پُرلطف نہیں رہی جیسی فلموں میں دکھائی جاتی ہے۔ یہاں رہنے والے چاہتے ہیں کہ کاش وہ کہیں اور ہوتے‘ جب کہ بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی واپس لوٹ آنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ سماجی اور فکری ہم آہنگی کی زندگی گزار سکیں۔ جب زندگی کے سامنے مواقع محدود ہو جاتے ہیں تو وہ خود کو گھری ہوئی اور لاچار پاتی ہے۔ لاچارگی انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ جب وہ ہر طرف سے گھر جاتا ہے تو خود کو پریشان اور ستم رسیدہ پاتا ہے۔ ''ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے‘‘ کی گردان بہت حوصلہ شکن ہوتی ہے۔ اس سے مایوسی پھیلتی ہے۔ زندگی ایک ایسی کہانی ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ کی کہانی آپ کی ذات سے آگے بڑھ سکے۔ لیکن یہ کہانی اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے جہاں آپ مایوسی اور لاچارگی کے سوا کچھ بھی پیچھے چھوڑ کر نہیں جاتے۔ زندگی کی بیسٹ سیلر کہانیاں لکھنے کا طریقہ یہ ہے:
1۔ لیڈر مشکلات کے گرداب سے ہی جنم لیتے ہیں: زندگی کے اہم سنگ میل کے طور پر ''یہ خطرہ میرا موقع ہے‘‘ کا رویہ اپناتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کریں۔ دنیا کا کوئی لیڈر عظمت کی بلندی حاصل نہیں کر سکتا اگر اس کی کہانی میں ''ناممکنات‘‘ نہ ہوں۔ بادِ مخالف کی تندی ہی عقاب کو اُونچا اُڑاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے سکولوں اور کالجوں‘ دفاتر اور گھروں میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو سکھانا چاہیے کہ وہ تبدیلی کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھیں اور اسے قبول کریں۔ لمز نے غریب‘ دور دراز کے طلبا کو تعلیم کے بہترین مواقع فراہم کیے ہیں۔ اس نے قومی پروگرام آف آؤٹ ریچ میں داخلہ لینے والے طلبا کی حوصلہ افزائی کے لیے شاندار قدم اٹھایا ہے۔ حال ہی میں اس نے ان طلبا کی کہانیوں کو دستاویزی شکل دی ہے کہ کس طرح انہوں نے مشکلات کو مواقع میں ڈھالا۔ ایسی بہت سی کہانیوں میں ایک سابق طالبہ عدیلہ سرفراز کی کہانی بھی شامل ہے۔ پنڈی کے قریب ایک گاؤں موہڑہ راجگان میں پیدا ہونے والی عدیلہ کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک بہت کم رسائی حاصل تھی۔ وہ ایک ایسے سکول میں داخل ہوئی جہاں اس کے پاس لکھنے کے لیے مٹی کی سلیٹ تھی اور ایک گھر جہاں بجلی نہیں تھی اور وہ لالٹین کی روشنی میں پڑھتی تھی۔ اس کی محنت اسے لمز تک لے آئی۔ اب وہ لندن کی ایک ملٹی نیشنل فرم میں فنانس منیجر ہے۔
2۔ خستگی سے ہی اختراع کے سوتے پھوٹتے ہیں: ملک کو بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ تنظیمیں اور گھرانے تناؤ اور ناکامی کے خوف کا شکار ہیں۔ یہ صدیوں بعد سراٹھانے والے بدترین بحران کا دور تھا لیکن پاکستان اس امتحان میں بہت عمدگی سے کامیاب ہوا۔ صرف یہی نہیں‘ دیگر اقوام نے اسے ایک سٹڈی کیس کے طور پر دیکھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں کورونا نے زندگیوں اور معیشتوں کو تباہ کر دیا۔ اس کے سامنے بھارت ڈگمگا گیا‘ امریکا لاچار دکھائی دیا‘ یورپ برباد ہوگیا۔ اس مایوسی اور تباہی کے درمیان پاکستان کامیابی کا ایسا نمونہ بن کر ابھر ا جس کا حوالہ ورلڈ اکنامک فورم اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دیا۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سوں نے موت کو زندگی‘ دیوالیہ پن کو ترقی‘ ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس بمشکل 1500 امپورٹڈ وینٹی لیٹرز تھے‘ اس نے مقامی طور پر NUST کے طلبا کی ٹیم کے ڈیزائن کردہ وینٹی لیٹرز تیار کرنا شروع کر دیے۔ بند ہونے والی ٹیکسٹائل ملیں کورونا میڈیکل یونیفارم بنانے لگیں اور پہلی بار ٹیکسٹائل کی ریکارڈ برآمدات ہوئیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جو اس قوم میں ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جسے کھانے کی میز پر دہرانے سے لے کر ٹک ٹاک کی دنیا میں دکھانے کی ضرورت ہے۔
3۔ مایوسی پر جذبات کی فتح: زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کچھ کرنے کا جوش و جذبہ تو رکھتے ہیں‘ لیکن شکایت کرتے ہیں کہ حالات انہیں ایسا کرنے کا موقع نہیں دیتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی چیز جو واقعی اہم ہے اور آپ اس کے بارے میں پُرجوش ہیں‘ آپ نامساعد حالات کے باوجود اسے حاصل کرنے کے لیے کمر باندھ لیں گے۔ بہت سے کھلاڑیوں کی زندہ مثالیں ہیں جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ 21 سال کی عمر میں ایورسٹ سر کرنے والی لڑکی ثمینہ بیگ ایک ایسی کہانی ہے جسے بار بار سنانے کی ضرورت ہے۔ وہ ہنزہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی تھی‘ ایک کمزور لڑکی‘ کوہ پیماؤں کے لیے مددگار کے طور پر کام کرتی تھی‘ اب وہ کے ٹو سمیت دنیا کی سات بلند ترین چوٹیاں سر کر چکی ہے۔ اس کا بھائی‘ جو اس کا کوچ تھا‘ وہ بھی یہ کچھ نہ کر سکا۔ جذبہ وہ کنجی ہے جو ناکامی کا وہ تالا کھولتی ہے جس کے آگے کامیابی کی منزل ہوتی ہے۔
4۔ پُرجوش افراد کی حوصلہ افزائی کریں: زیادہ تر لوگ زندگی کو بے معنی پاتے ہیں۔ وہ معمولات میں الجھے رہتے ہیں جو ان کے لیے بے مقصد ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کا جوش کھو دیتے ہیں لیکن زندگی کا یہی مرحلہ اس کے معنی تلاش کرنے کے لیے سازگار ہے۔ آپ لوگوں کو ان کے مقاصدِ حیات تلاش کرنے میں حوصلہ افزائی کرکے بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ کا مقصد لوگوں کو ان کی سمت‘ جذبہ اور مقصد دریافت کرنے میں مدد کرنا ہو سکتا ہے۔ ہانیہ منہاس کو دیکھیں۔ حیران کن صلاحیتیں رکھنے والی بچی اس وقت ٹینس میں انڈر 12 کی ایشین چیمپئن ہے۔ اسے عبدالرزاق داؤد کی فاؤنڈیشن کی صورت ایک ایسا سرپرست ملا جو ٹیلنٹ کو فنڈ دیتا ہے۔ اسے اب یورپی چیمپئن شپ میں مدعو کیا گیا ہے جہاں 24 بہترین خواتین کھلاڑی حصہ لے رہی ہیں۔ اس طرح دوسروں کو اپنی قسمت لکھنے کے قابل بنانا بھی زندگی کے ارفع مقاصد میں سے ایک ہے۔
5۔ ہر کہانی سبق آموز ہوتی ہے: فیصلہ کن‘ اہم وقت وہ نہیں ہوتا جب آپ اوپر اُٹھ رہے ہوں‘ بلکہ وہ جب آپ گر رہے ہوں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ باکسنگ میں آپ کو کئی بار گرایا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر گرے رہیں گے اور ناک آئوٹ قرار پائیں گے۔ کچھ اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ ناک ڈائون اور ناک آئوٹ کے درمیان یہی دس سکینڈ کا وقفہ حائل ہوتا ہے۔ ویتنام کی جنگ میں شرکت نہ کرنے پر امریکی حکومت کی جانب سے تمغے چھین لینے کے بعد باکسنگ میں محمد علی کی واپسی عزم‘ لچک اور تجدید کی ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔ واپسی کی لڑائی میں اپنے حریف کو تھکا دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ اُنہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ایک باکسر جس کی جارحیت نے اسے عروج پر پہنچایا تھا‘ اس نے جارحیت کے بجائے اپنے مخالفین کو تھکا دینے اور اچانک وار کرنے کا ہنر استعمال کیا۔
زندگی ایک ''کہانی‘‘ ہے۔ اس کا ہر باب کسی موقع اور ڈرامے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہر صفحہ انتخاب اور چیلنج کے امکانات اپنے اندر سموئے ہوتا ہے۔ ہر لفظ پیغامات اور معنی کی سند رکھتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہر باب کے لیے کیسے تھیمز بنائیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم سامعین کو اپنی کہانی سے سحر زدہ رکھیں۔ وہ کہانی جو صرف سنائی ہی نہیں گئی تھی بلکہ عملی شکل میں بھی صفحہ ہستی پر موجود ہے۔ بامقصد زندگی وہ کہانی ہے جو جریدۂ عالم پر دوام حاصل کر لیتی ہے۔ وہ فنا کو چیلنج کرتی ہے۔ زندہ انسانوں کی زندہ تر کہانیاں دیومالائی قصوں سے کہیں زیادہ جاندار اور سحر انگیز ہوتی ہیں۔ یہی انسانوں کی دنیا ہے جو انسانوں کی کہانیوں سے عبارت ہے۔ اس میں آپ کی کہانی کون سی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved