تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-08-2022

’’تحریک‘‘ کا دھندا

کون ہے جو بہتر زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نہیں؟ کسی ناکام انسان سے پوچھئے تو وہ یہی کہے گا کہ وہ تو ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے مگر حالات ایسا ہونے نہیں دیتے۔ ناکام انسانوں کی اکثریت حالات کا رونا روتی رہتی ہے۔ جو حالات کو بخش دیتے ہیں وہ کسی انسان کو براہِ راست موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
بھارت کے شہر احمد آباد سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور اور مصنف و مولف مُنی دَوے سے ہماری آن لائن دعا سلام رہتی ہے۔ جناب ''وچار ولونو‘‘ کے نام سے ایک سنجیدہ جریدہ شایع کرتے ہیں۔ ہر ماہ اس جریدے کی سوفٹ کاپی خاکسار تک پہنچتی ہے۔ اس جریدے کے ایک شمارے میں (شخصی ارتقاء کے نام پر جاری ڈرامے سے متعلق سیکشن میں) ممبئی کے ڈاکٹر دھیرج چھیڈا نے اپنے مضمون میں لکھا ''بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو بہتر حالات میں جینے کا خواہش مند نہ ہو۔ کم و بیش ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے حالات تبدیل ہوں اور بھرپور خوش حال زندگی کی راہ ہموار ہو۔ جب بہتر زندگی کی خواہش جنم لیتی ہے تب انسان کو حوصلہ بڑھانے والے بھی مل ہی جاتے ہیں۔ بہتر زندگی کی طرف رواں ہونے کی تحریک دینے والے اپنی تقریروں اور تحریروں میں مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں تاکہ اُنہیں رول ماڈل کے طور پر قبول کیا جائے۔ وہ اپنے سامعین اور قارئین پر زور دیتے ہیں کہ کامیاب ترین افراد جیسا بننے کی کوشش کریں جبکہ وہ خود اُن کامیاب افراد جیسے نہیں بن سکے!‘‘
کامیابی محض سوچنے سے نہیں مل جاتی۔ سوچنا پہلا مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد متعلقہ ماحول پیدا کرنے کی منزل آتی ہے۔ اگر انسان کامیابی یقینی بنانے والا ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہے تو ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں کر پاتا۔ بہت سے باصلاحیت افراد کو آپ ایسی حالت میں پائیں گے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر پائے۔ اِس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صلاحیت کچھ بھی سہی‘ کامیابی یقینی بنانے کی حتمی ضمانت ہرگز نہیں۔ لوگوں کو بھرپور کامیابی اور خوش حال زندگی کی تحریک دینے کا معاملہ اب دھندے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے لکھنے اور بولنے والے بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اُن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ شخصی ارتقاء کا موضوع اب مالی اعتبار سے انتہائی کامیاب شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ لوگوں کو تحریک دینے کے نام پر جو کچھ بھی کہا اور لکھا جارہا ہے وہ سب کا سب کام کا ہے یہ بات پورے یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل کرنے کے نام پر صرف بہلایا پُھسلایا جارہا ہے۔
پاکستان میں بھی شخصی ارتقاء کے حوالے سے مواد بہت بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہا ہے۔ اس مواد کا بڑا حصہ سطحی نوعیت کا ہے۔ شخصی ارتقاء کے موضوعات پر لکھنے والوں کی اکثریت یا تو تحقیق کرتی ہی نہیں یا پھر سطحی تحقیق سے کام چلاتی ہے۔ انگریزی کی معروف کتابوں کے انتہائی غیر معیاری تراجم کی مدد سے ناشر اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں مگر عوام کو کچھ نہیں دے رہے۔ نئی نسل بہتر زندگی کی تحریک پانے کے لیے جو چاہتی ہے وہ مواد اُسے آسانی سے میسر نہیں۔ جس طرح بہت سے اخبارات اور جرائد ٹیبل سٹوریز سے کام چلاتے ہیں بالکل اُسی طور شخصی ارتقاء کے بازار میں اپنی دکانیں سجانے والے بہت سے لوگ انتہائی سطحی نوعیت کی تحریر و تقریر کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا دھندا چلا رہے ہیں۔
شخصی ارتقاء کے نام پر جو کچھ بھی فروخت کیا جارہا ہے وہ سب کا سب تو ایسا نہیں کہ آنکھیں بند کرکے مسترد کردیا جائے۔ بہت سی کتابوں نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو نئی زندگی کی طرف جانے کی تحریک دی ہے‘ اُن میں کتابیں پڑھنے اور اعلیٰ فکر کے حامل افراد کی صحبت میں بیٹھنے کا ذوق و شوق پُھونکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شخصی ارتقاء سے متعلق مواد تحریک دینے میں مکمل ناکام رہتا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد شخصی ارتقاء سے متعلق کتابیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش بھی کر گزرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ماحول میں بھی ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو اپنے آپ کو بدلنے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے کے عادی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو بدلنا تو چاہتے ہیں مگر جو لوگ اُنہیں نئی‘ کامیاب اور بھرپور زندگی کی طرف جانے میں معاون کا کردار ادا کرنے کے دعویدار ہیں وہ سطحی نوعیت کی باتیں کرکے ذہنوں میں غلط بیج بو رہے ہیں۔
کامیاب ترین انسانوں کو دیکھ کر بہت کچھ سوچا اور سیکھا جا سکتا ہے۔ اُن کی بھرپور کامیابی ہمیں کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک دے سکتی ہے مگر صرف اُس وقت جب ہم اُن کی کامیابی سے زیادہ کامیابی کے لیے اُن کی طرف سے کی جانے والی محنت میں دلچسپی لیں۔ کسی گلوکار کے شاہکار گانے سُن کر اُس سے متاثر ہونے میں اور اُس کی محنت کے بارے میں معلومات حاصل کرکے کچھ بننے کی حقیقی لگن پیدا کرنے میں جو فرق ہے وہ سمجھے بغیر ہم حقیقی کامیابی کے حوالے سے ذہن سازی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی کامیاب انسان نے بھرپور کامیابی ممکن بنانے کے لیے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ جاننا ہی ہمارے لیے زیادہ کام کا ہو سکتا ہے۔ ہم عمومی سطح پر کسی بھی کامیاب انسان کی شہرت‘ عزت اور دولت کو دیکھتے ہیں۔ یہ تو حتمی مرحلہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کسی نے جب کچھ بننے کا سوچا تو کس طور آگے بڑھا‘ اُس نے کتنی محنت کی‘ کس حد تک منصوبہ سازی کی‘ کون کون سے سے معاملات میں اپنے شوق اور جذبات کی قربانی دی‘ تعلقات کا دائرہ کس طور وسیع کیا‘ کن لوگوں سے براہِ راست مدد لی اور کن سے متاثر ہوکر کچھ کرنا چاہا۔
شخصی ارتقاء سے متعلق تربیت کے شعبے کو پیشہ ورانہ بنیاد پر اپنانے والے بیشتر افراد یعنی لوگوں کو کچھ کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے لکھنے اور بولنے والے ماحول سے مطابقت رکھنے والی تیاری کے ساتھ اس میدان میں داخل نہیں ہوتے۔ اُن کی تحریر و تقریر میں مفروضوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ سارا زور صرف دولت کمانے پر ہوتا ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جو جتنا کماتا ہے اُتنا ہی کامیاب کہلاتا ہے یا یہ کہ جو جتنا کامیاب وہ اُتنا ہی مالدار ہے۔ کامیابی کے حوالے سے صرف دولت کو سب کچھ قرار دینا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ یہ تو عام آدمی اور بالخصوص نئی نسل کو کامیابی کے حوالے سے گمراہ کرنے والی بات ہوئی۔ نئی نسل کو خصوصی طور پر ایسی کہانیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن میں کسی کی بھرپور کامیابی یقینی بنانے والی جدوجہد ڈھنگ سے بیان ہوئی ہو۔ جن کی رگوں میں زندگی سے بھرپور خون دوڑ رہا ہو وہ کچھ پانے کے حوالے سے زیادہ آرزومند ہوتے ہیں مگر موزوں راہ نمائی نہ ملنے کی صورت میں ہوتا یہ ہے کہ؛
نکلے تھے کہاں جانے کیلئے، پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں
اب اپنے بھٹکتے قدموں کو منزل کا نشاں معلوم نہیں
ہمارے ہاں عام آدمی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے معاملے میں کچھ کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ اُسے کچھ کرنے کی تحریک دینے والے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں۔ سطحی اور خیالی باتیں کسی کام کی نہیں۔ ٹیبل سٹوری ٹائپ کی تحریروں اور تقریروں سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا۔ عام آدمی کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص بھرپور زندگی بسر کرنے پر مائل ہونے کی تحریک دینے کے لیے جامع تحقیق کے بعد اِس شعبے میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ لکھی اور کہی جانے والی ہر بات میں معقول وزن ہو۔ شخصی ارتقاء سے متعلق تحریک ایک بابرکت شعبہ ہے۔ اس شعبے کا حق ادا کرنے کے لیے نیت کی صفائی ناگزیر ہے۔ اگر کسی کو مال ہی بنانا ہے تو اور بھی کئی اور شعبے اور دھندے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved