اب ان کے جیسے مرد ِ حُرکہاں؟ مثال کے طور پر شورش کاشمیری۔محرم الحرام آیا تو احراری ہونے کے باوجود شورش شہدائے کربلا کے لیے تڑپ اُٹھے۔
آغازِ محرم ہے کہ ہنگامِ وغا ہے
اسلام خود اپنوں کی شقاوت میں گھرا ہے
نالہ نہیں یہ گنبدِ خضریٰ کی ہے فریاد
ماتم نہیں سی پارئہ قرآں کی صدا ہے
اعدائے بد اندیش کسے گھور رہے ہیں
حیدر کا پھریرا ہے کہ زینب کی ردا ہے
عباس کا حلقوم ہے نیزے کی اَنی پہ
قاسم کا لہو خاک کے ذروں کو روا ہے
ایک آج کے مردانے ہیں۔ہفتے کو کچھ اتوار کو کچھ اور۔کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں نوازشریف کے پسندیدہ ادارئہ احتساب پرآواز اُٹھی۔ ایک مردانے‘نے زنانے کے حق میں درمیانے انداز میں احتجاج کیا۔چیخ چنگھاڑسے بھرپور کان پھاڑ دینے والی آواز یو ں آئی ــ ''یہ کیسے بے غیرت حکمران ہیں جنہوں نے عورت گرفتارکرلی‘‘۔یادش بخیر! یہ ایسے سیاسی لیڈر اور اُس کی بیٹی کی بات ہورہی تھی جن دونوں کو عدالت نے قومی وسائل کا چور ڈکلیئر کیا تھا۔ٹرائل ہوا‘دونوں کوقید کی سزا ملی۔دونوں Public officeکے لیے نااہل قرارپائے۔دونوں مفرور ہونا چاہتے تھے۔باپ بیماری کا بہانہ لگاکرنکل گیا۔NRO کی برکت سے‘جیل سے تو نکلا ساتھ وطن سے بھی یہ جا وہ جا۔بیٹی نے تیمارداری کاحیلہ گھڑلیاجسے عدلیہ نے مستردکردیا۔اس طرح خاتون کو بے ارادہ رکنا پڑا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے‘ یہ کس خاتون کاذکر ہے۔یہ سوچ آنا جائز ہے کیونکہ قتل کے مقدمے کی ملزم عورتیں سب سے زیادہ تعداد میں صوبہ سندھ کی جیلوں میں بند ہیں‘بلکہ جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں۔ عورت کو گرفتارکرنے والے ادارے کو نہیں بلکہ حکومتِ وقت کو فلورآف اسمبلی پہ ''بے غیرت‘‘کہنے والی شخصیت اُسی صوبے سے ہے جہاں اس کے دورِ حکمرانی میں اپنی غیرت کابدلا لینے والی اَن گنت عورتوں کو گرفتار کیاگیاہے۔یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ غیرت (کاروکاری)کے نام پر سب سے زیادہ عورتوں کو قتل بھی وہیں کیا گیا۔قتل اور قید ہونے والی عورتیں قائدِ اعظمؒ کی بیٹیاں تھیں۔پاکستان کے کارپوریٹ لیڈروں میں سے کسی کی نہیں‘اس لیے وہ اپنی عزت کے لیے مریں یا جھوٹی انا کی ناموس پر واری جائیں‘ حکمران گھرانوں کی حکمرانی کو فرق ہی کیا پڑنا ہے؟بندی خانوں یا بے نام قبروں میں مدفون ان بے آسرا اور بے نوا عورتوں کاووٹ بینک ہوتا تو ان کے لیے بولتا۔ ذاتی میڈیا سیل ہوتا توان کو '' پاکستان کی بیٹی‘‘کا تمغہ بخش دیتا۔
ساحرلدھیانوی نے'' کبھی کبھی‘‘ کے عنوان سے شہرئہ آفاق نظم لکھی‘جس میں ان جیسی محبوس ومقتول صنفِ نازک کا گویا نوحہ رقم کرڈالا۔ساحر کے سحرانگیزالفاظ یوں ہیں۔
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرُہول خار زاروں سے
نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا چراغ
بھٹک رہی ہے خلائوں میں زندگی میری
انہی خلائوں میں رہ جائوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
اوپرپاکستان کی بیٹی کا ذکر آیاجس کی تکرارایک سیاست دان خاتون سے آپ نے بار بارسنیـ۔اس دعوے کے ساتھ ساتھ یہ معجزہ بھی کہ خاتون کی لندن میں توکیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔خاتون کے حوالے سے یہ پبلک فیکٹس تسلیم شدہ ہیں۔ان کے اباّانگلستان میں‘بھائی انگلستان میں۔بہن انگلستان میں‘بھابھیاں‘بھتیجیاں اور بھتیجے انگلستان میں۔ان کا اور اباّکا‘ Twin نسلوں کا سمدھی بھی انگلستان میں۔بہنوئی‘ بیٹا بھی انگلستان میں۔بیٹے کی شادی انگلستان میں۔ دلہن بھی اورعلاج بھی انگلستان سے۔اس کے باوجود وہ بیٹی پاکستان کی ہے۔ اس بے خاتون کے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے سچے مچے با روزگاروں کی ٹیم نہیں بلکہ کئی عدد ٹیمیں ہیں۔روزگار سے یاد آیا شبِ گزشتہ ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ریکارڈسازاورریکارڈتوڑ آزادی جلسہ ہواجس میں عمران خان نے غلامی کی 4نشانیاں بتائیں۔ان میں سے ایک روزگارچھن جانے کا خوف ہے۔اس لیے ان بے چاروں کے چارہ گر‘ان کے آگے سے چارہ اُٹھا لیں۔یہ ہمیں گوارہ نہیں لہذا! آپ فیصلہ فرمائیے گا؟ پاکستان کی بیٹی ہے کون؟ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اسلام آبا دکی ایک خاتون کے گھر چلتے ہیںجو اسلام آباد کے ایک سستے سیکٹر میں چھوٹے سے گھرکی رہائشی سائرہ بی بی ہے۔100فی صد ایسی گھریلو خاتون جس کی نہ ملک سے باہرجائیدادہے‘ نہ ہی دہری شہریت۔ نہ یہ خاتون منی لانڈرنگ میں مطلوب نہ کسی عدالت سے مفرور۔نہ ہی سزا یافتہ و نااہل۔ یہ ڈاکٹر شہباز گل کے اسسٹنٹ اظہار کی بیوی ہے۔جس پر وفاقی حکومت نے پُلس مقابلے کا کیس بنایا۔دنیا کے اس انوکھے ترین پُلس مقابلے میں 10ماہ کی بچی بھی شریک ہو گئی۔بچی ایک پُلسیے کا اے ٹی ایم کارڈ‘نقدی‘سرکاری وائرلیس سیٹ اور پستول چھیننے میں ماں کے ساتھ سہولت کار بنی۔ دونوں ماں بیٹی کو مردانہ پولیس نے مردانہ وار مقابلے کے بعد تھانے کی حوالات میں پھینک ڈالا۔میرے علم میں ایسا کوئی قانون نہیں جس میں Suckling Babyکی ماں کو جیل بھیجا جائے۔ دعوتِ عام ہے کوئی ایسا ملک ڈھونڈیں جہاں 10ماہ کی شیرخواربچی کو ضمیرکاقیدی بننے کااعزازدیاگیا۔جی ہاں ہمارے علاوہ۔
''بے عزت‘‘ کا لفظ پارلیمنٹ کے اندر استعمال ہوچکا‘ ان حکمرانوں کے لیے جو عورت کو گرفتار کرتے ہیں۔سپیکرنے اسے عقلی معیارپہ پرکھا۔سو‘اب یہ لفظ اور اس سے جڑا جملہ عین پارلیمانی ہے۔ جس طرح 10مہینے کی شیرخوار بچی اور اس کی گھریلوماں کو پُلس مقابلہ بناکر گرفتار کرنا عین آئینی ہوا۔ہاں البتہ ایسے نازی ازم کے روایت شکن اسے جمہوریت کا حسن نہیں مانتے۔ جمہوری نازی ازم کہتے ہیں۔ایسے میں قوم کے سامنے حل طلب سوال3 ہیں۔
پہلاسوال:اُوپردرج دونوں میں سے پاکستان کی بیٹی ہے کون؟
دوسراسوال:یہ تو طے ہوچکاــــکہ یہ کیسے حکمران ہیں جنہوں نے عورت گرفتارکرلیـ۔ البتہ آپ کوصرف یہ طے کرناہے وہ کیسے حکمران ہیں جنہوں نے10 ماہ کی شیرخوار بچی کوپُلس مقابلہ میں گرفتار کردکھایا؟تاریخی غیرت کے ساتھ عاشورہ محرم والے روز بچی اور اس کی ماں کو قیدی بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ اڈیالہ میں بند بھی کروایا۔
تیسراسوال:شورش نے سانحہ کربلاپر دولت کے بھکاری‘طاقت کے پجاری کے عنوان سے یوں اُٹھایا۔
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے‘ مجھے کچھ سوچنے دے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved