یوم آزادی کا دن ہم ہر سال تجدیدِِ عہد کے طور پر اس قدر جوش وخروش سے مناتے ہیں کہ ہمیں اگلے یومِ آزادی تک ہوش ہی نہیں رہتا کہ ہم کسی عہد کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔سارا سال ہم اسی عہد کی بے حرمتی کرتے ہوئے ضمیر پر ذرا بھی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔کالم کی اشاعت تک قوم جشن آزادی منا کر اپنے اصل روپ میں واپس آچکی ہوگی۔گلی محلوں میں سبز ہلالی پرچم کی بہار ہو یا سرکاری سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات۔وطن سے محبت کے دعویداروں نے یہ یوم ِآزادی بھی ہر سال کی طرح روایتی انداز میں منا کر یقینا قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔یوم تجدیدِعہد قومی سطح پر منانے کے بعد پوری قوم جوں کی توں اور پرانی روش پر رواں دواں ہے۔دو قومی نظریے کی روشنی میں 1930ء میں علامہ اقبال نے مملکتِ خداداد کا تصور پیش کیاتھا‘ اگلے دس برس میںیہ تصور زیادہ واضح صورت اختیار کر گیا؛ چنانچہ مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس منعقدہ 1940ء میں مسلمانوں کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کے الگ وطن کا مطالبہ قرار داد کی صورت میں پیش کر دیا گیا۔ مسلمانانِ ہند اپنے اس تصور اور مطالبے میں اتنے واضح تھے کہ الگ وطن کے حصول کا مطالبہ صرف سات برسوں میں عملی صورت اختیار کر گیا۔ مگر اس ملک کے حکمران 75برسوں سے مملکتِ خداداد کو کس طرح تختہ مشق بنا رہے ہیں یہ دیکھ کر قائد اور اقبال کی روحیں بے چین ہوں گی۔ جس وطن کے حصول کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور قیامت خیز ہجرت کی گئی‘ مسلمانوں نے بے پناہ جانی ومالی قربانیاں پیش کیں‘ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ملک ہمیں سستا مل گیا‘ اسی لیے ہمیں اس کی قدر اور اہمیت کا احساس نہیں۔
پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان دلخراش ہے۔ اس دردناک کہانی کے کردار ہزاروں خاندان آج بھی یہ زخم بھلا نہیں پائے‘ تقسیم ہند کے وقت کے ہولناک مناظر ان کے اعصاب اور نفسیات کو آج بھی گھائل کیے ہوئے ہیں‘مگر اُس نسل کو75 برس گنوانے کے بعد بھی یہ احساس بے چین کئے رکھتا ہے کہ تمام عمر چلے‘ گھر نہیں آیا۔اور گھرکیوں نہیں آیا اس کا جواب گھر کے رکھوالوں کے پاس بھی نہیں۔وطنِ عزیز کوآج تک ایسا کوئی حکمران ہی نصیب نہیں ہوا جو گورننس سے آشنا اور مردم شناس ہو۔ذاتی خواہشات اور مفادات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل سے تکمیل تک انہیں اپنے رفقا اور مصاحبین کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ناموافق اور نام نہاد رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم ہلکان اوراس کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔قیام پاکستان سے لے کر لمحہ ٔموجود تک حکمرانوں نے کیا کچھ دائوپر نہیں لگایا‘ملکی وقار سے لے کر معاشی استحکام تک‘سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک سبھی کچھ تہ وبالا کئے رکھا۔سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک کیسا کیسا جاں لیوا منظر ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ذاتی مفادات سے لے کر مخصوص مقاصد تک‘مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد نیتی اور بد انتظامی تک سبھی کچھ تو ہمارا طرزِ حکمرانی رہا ہے۔
یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے کہ جہاں ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کیلئے بھٹکتی ہیں‘ زمینی خدا اور ان کا قانون انہیں انصاف فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔یہ کہاں کی گورننس ہے کہ ہسپتالوں میں علاج نہیں‘تھانوں میں امان نہیں سرکاری اداروں میں شنوائی نہیں دھتکار اورپھٹکار ہے۔سماج سیوک حکمرانوں سے لے کر افسر شاہی تک سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے اور دھندے ہیں۔اس ملک میں بسنے والے عوام سے ان کا کوئی تعلق ہے نہ سروکار۔کوئی عاجزی کے تکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کوئی مہارت اور قابلیت کے گھمنڈ میں اترائے پھرتا ہے۔ احترامِ قانون سے لے کر احترامِ آدمیت تک سب الفاظ کا گورکھ دھندا ہے‘ کبھی بنامِ دین تو کبھی بنام ِوطن‘حصول ِاقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک عوام کو کیسے کیسے جھانسے اور دھوکے نہیں دیے گئے۔ محوِ حیرت ہوں کہ اسے کیا کہا جائے‘ تجدیدِ عہد یا کچھ اور؟
پون صدی سے مسلط حکمران یہی عذر تراشتے نظر آئے کہ ملک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘ قوم کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔قیام پاکستان کے وقت جو حالات تھے‘ اس سے بڑھ کر بھلا نازک موڑ اور کیا ہوگا؟کیسے کیسے چیلنجز اور آزمائشیں مملکتِ خدا داد کو درپیش تھیں‘ مہاجرین کی آباد کاری‘ روزگار کے انتظام و انصرام کے مسائل‘انفراسٹرکچر سے لے کر استعدادِ کارتک‘مالی مشکلات سے لے کر وسائل کی عدم فراہمی تک کتنے ہی کٹھن مرحلے تقسیمِ ہند کے وقت درپیش رہے مگربانیٔ پاکستان نے ہر گز یہ عذر پیش نہیں کیا کہ انہیں خوں ریزی‘ قتل و غارت اور دیگر مصائب کا اندازہ نہ تھا۔انہوں نے مشکل حالات سے فرار کا نہ کوئی جواز گھڑا اور نہ ہی توجیہات پیش کیں‘ بس اپنے اقوال اور فرمودات کا پاس رکھا اور کام کیا‘ جیسا کہ وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کیا کرتے تھے۔
مگر قائد کے بعدشروع ہونے والا نازک موڑ ختم ہونے کو نہیں آرہا‘یہ کیسی مشکل ہے جو ہر دور میں عوام کو در پیش رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنی بدعہدیوں اور بد اعمالیوں کے ساتھ تجدید عہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ منظر نامہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم تجدید عہد نہیں کر رہے بلکہ اس عہد کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔طرزِ حکمرانی ہو یا قول وفعل‘بلند بانگ دعوے ہوں یاگمراہ کن اعداد وشمار‘ دھوکے ہوں یا جھانسے سبھی عہد کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ قیام پاکستان سے لمحۂ موجود تک کیا حکمران کیا عوام‘ ارادوں سے لے کر نیت تک‘ بلند بانگ دعوؤں سے لے کر عملی اقدامات تک‘کیا سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندا ہی دکھائی نہیں دیتا؟ حکمرانوں کو عوام کی کوئی پروانہیں تو عوام کو شکم سیری کے سوا کوئی کام نہیں۔ مفاد پرستی اور شخصیت پرستی میں کیسا کیسا کردار اپنی دھن میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کسی نام پر تو کبھی کسی بہانے سے‘کہیں جھانسے ہیں تو کہیں دھونس‘ حکمرانوں نے ملک و قوم کو کب اور کہاں نہیں لوٹا۔جیسے حکمران ویسے عوام کے مصداق عوام کون سی کسر چھوڑ رہے ہیں۔ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ جعل سازی‘ بد عنوانی‘ جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب‘ لالچ کون سی اخلاقی گراوٹ یہاں نہیں پائی جاتی؟ حکمرانوں نے عوام کو اندھیروں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا اور رعایا بھی اپنے بھائی بندوں کی بوٹیاں نوچنے میں کب پیچھے رہی۔ بد اعتمادی اور بے یقینی کے کیسے کیسے اندھے گڑھوں میں ایک دوسرے کودھکیلتے چلے جارہے ہیں اور75سال گزرنے کے باوجود ابھی تک انہی اندھی کھائیوں میں بھٹک رہے ہیں۔
نجات دہندہ بن کر آنے والوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا تھا پھر انہی سے پناہ مانگتے رہے‘ مگرعوام کی اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ کہیں تو یہ حکمرانوں کے سہولت کار ہیں اور کہیں ان کے پیروکار۔ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی مال بناؤ اور مال بچاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی آٹے سے مال بنا کر گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال رہا ہے تو کوئی چینی سے اپنی دنیا سنوار کر عوام کی زندگیوں میں مہنگائی کا زہر گھول رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زر کے کیسے کیسے مناظر صبح و شام‘ جابجا‘ ہر سو نظر آتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ قائد سے ورثہ میں ملنے والی مملکت خدادادکپوتوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔مزید وضاحت کے لیے بتاتا چلوں کہ ہندی زبان میں اپنے آبا ء کا ورثہ پانے والے کوپوت کہتے ہیں اور آباء کے ورثے کوبڑھانے اور ترقی دینے والے کو سپوت جبکہ ملنے والے ورثے کو تباہ و برباد کرنے والے کو کپوت کہتے ہیں۔سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved