وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنے پہلو میں بٹھا کر‘ جب عمران خان صاحب نے چوروں کے ساتھ نہ بیٹھنے کا اعلان کیا تو ان کے سامنے بیٹھے ہزاروں متوالوں کی نظر‘ کیاکسی کھلے تضاد پر پڑی ہوگی؟
یا جب امریکہ سے آزادی کے لیے پُر جوش‘ امریکی شہریت کے حاملین محبِ وطن پاکستانیوں نے یہ خبر سنی ہوگی کہ تحریکِ انصاف نے امریکہ میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ایک فرم کی خدمات مستعار لی ہیں تو کیا انہوں نے کچھ سوچا ہوگا؟
اس کا جواب یہ نہیں کہ نواز شریف نے بھی تو یہی کیا ہے۔ یا بے نظیر بھٹو بھی تو یہی کرتی تھیں۔ عمران خان خود فرما چکے کہ میرا نواز شریف سے کیا مقابلہ؟ وہ صحیح کہتے ہیں۔ مسیحا اور سیاست دان کا کیا مقابلہ؟ نجات دہندہ اور دنیا دار کا کیا تقابل؟ مسیحاؤں کا اقتدار جیسی حقیر چیزوں سے کیا تعلق؟ ان کو پرکھنے کے معیار تو دوسرے ہیں۔ مسیحا اور تضادات؟ انقلاب اور مصلحت؟ استغفراللہ۔
سوچنے کے مگر ہم قائل نہیں۔ بالخصوص مذہب اور سیاست میں ہم رومان پرور ہیں۔ اگر یہ لوگ تسلیم کر لیں کہ عمران خان بھی اقتدار کی کشمکش میں ایک فریق ہیں جیسے دوسرے اہلِ سیاست تو پھر پورا امکان ہے کہ سیاست سے ہیجان رخصت ہو جائے۔ پھر ترجیح کی بات ہوگی۔ پھر یہ مان لیا جائے گا کہ سیاست میں مسیحا نہیں ہوتے۔ اقتدار کی سیاست انسانی تاریخ میں کبھی تضادات سے خالی نہیں رہی۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور سیاسی کامیابی اسی کے حصے میں آتی ہے جو اس کھیل کو زیادہ مہارت سے کھیلتا ہے۔
خوفِ فسادِ خلق نہ ہو تو تاریخ سے ایسے حوالوں کے انبار لگائے جا سکتے ہیں کہ جن حکمرانوں کو ہم ہیرو سمجھتے ہیں‘ ان کا دورِ حکمرانی کیسے کیسے تضادات سے بھرپور تھا۔ تاریخ شخصیات اور واقعات کو گلیمرائز کر دیتی ہے‘ اس کے باوصف کہیں کہیں پردے اٹھتے ہیں اور اصل صورت دکھائی دینے لگتی ہے۔ ماضی قریب کا ایک حوالہ کفایت کرتا ہے کہ زیادہ دور جانے کی سکت نہیں۔ اقبال نے اورنگزیب کو اس خطے میں مسلم ترکش کا آخری تیر کہا ہے۔ یہ تیر ہم جانتے ہیں کہ کیسے بھائیوں پر چلتا رہا۔ جواز ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر برادر کشی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کا نام سیاست ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں‘ ظلم کا جواز بن جاتی ہیں۔
یہ تو دعا دیجیے اس جمہوریت کو کہ اس نے ظلم کو بیان کرنے کی ذمہ داری مورخ کو نہیں سونپی جو برسوں بعد ظہور کرتا ہے۔ آج یہ کام میڈیا کرتا ہے۔ شہباز گل گرفتار ہوتے ہیں تو چند لمحوں بعد اس کی وڈیو ساری دنیا دیکھ لیتی ہے۔ چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے‘ وہ عدالت کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں۔ رانا ثنااللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنتا ہے تو آستین کا لہو پکار اٹھتا ہے۔ جمہوریت انسانوں کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں۔ ورنہ بادشاہ اور آمر کسی قانون کے پابند ہوتے ہیں نہ اخلاق کے۔
اس کے باوجود‘ جذبات کی تجارت کبھی بند نہیں ہوتی۔ یہ ایسا کاروبار ہے جو سدا بہار ہے۔ تجارت پرانی ہے‘ ما ل بیچنے کی حیلے نئے ہیں۔ آج میڈیا کے ٹکسالس میں 'سچ نما‘ ڈھلتا ہے۔ اس کی پیکنگ ایسی نظرنواز ہوتی ہے کہ آنکھیں سچ مان لیتی ہیں۔ جدید اہلِ علم اسے پوسٹ ٹرتھ کہتے ہیں۔ یہی 'ہائپر ریالٹی‘ (Hyper Reality) ہے۔ فیض صاحب اسے شاعرانہ اسلوب میں بیان کرتے ہیں ؎
مے خانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا امریکہ کی غلامی سے نجات کا سودا کسی ہوش مند معاشرے میں بک سکتا تھا؟ سیاسی وابستگی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ کبھی اس مقدمے کا تجزیہ (Deconstruction) کیجیے۔
پہلی چیز لغت ہے جو پوسٹ ٹرتھ کی تخلیق میں سب سے اہم ہے۔ وہ کون سے الفاظ ہیں جو ذہن کی چھلنی سے گزرے بغیر‘ براہِ راست مخاطب کے جذبات تک پہنچ سکتے ہیں؟ سب سے پہلے ان کو تلاش کیا جاتا ہے۔ آسان ترین طریقہ ان الفاظ کا کھوج لگانا ہے جوکسی تاریخی تجربے کی روشنی میں مخاطب کے لاشعور کا حصہ بن چکے ہوں۔ 'غلام‘ ایسا ہی ایک لفظ ہے۔ عصری لغت میں‘ یہ متروک ہو چکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلامی اپنے اصطلاحی مفہوم میں باقی نہیں رہی۔ ہمارے لاشعور سے مگر یہ لفظ نکل نہیں سکا۔ علامہ اقبال ہمارے نصاب کا حصہ ہیں اور واعظین و سیاست دان‘ آج بھی ان کے اشعارکے ساتھ‘ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اس لیے آج بھی یہ لفظ اپنے اس تاریخی پس منظر کے ساتھ‘ جب ہم انگریزوں کے غلام تھے‘ ہمارے لاشعور میں رچ بس گیا ہے۔ جیسے ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے‘ ہم کم و بیش ایک صدی ماضی میں چلے جاتے ہیں۔
نعرہ لگانے والا بھی یہی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنا مقدمہ پیش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کو مزید اس طرح واضح کیا جاتا ہے کہ 'آج بھی ہمیں تحریکِ پاکستان کے جذبے کی ضرورت ہے‘۔ اس کے بعد لوگ خود بخود کسی قائداعظم ثانی کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور یہ وہی ہو سکتا ہے جو غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔ ایک مسیحا۔ ایک نجات دہندہ۔ اگر اس پس منظر سے الگ ہوکر‘ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد اقوام کے باہمی تعلقات کا ایک نیا ماڈل وجود میں آ چکا۔ اس ماڈل کو تخلیق کرنے والی اقوام نے اس میں اپنی بالا دستی کا سامان کیا ہے‘ لیکن اس کے باجود‘ اگر کوئی اپنا مقدر بدلنا چاہے تواس کے لیے امکانات موجود ہیں۔ جاپان اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آج قوموں کے باہمی تعلقات غلامی یا آزادی کی بنیاد پر نہیں‘ باہمی مفادات کی سطح پر طے ہوتے ہیں۔ ضیا الحق صاحب کے دور میں امریکہ نے چاہا کہ پاکستان افغانستان میں‘ روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ تعاون کرے۔ ہم آمادہ ہوگئے۔ جواب میں ایک طرف امریکہ نے ایٹمی پروگرام پر ہماری پیش رفت سے صرفِ نظر کیا اور دوسری طرف ڈالرز کی ریل پیل ہوگئی۔
فیصلہ بہر حال ہمیں ہی کرنا ہے ا ور وہ بھی اپنے معروضی حالات کے پیشِ نظر۔ آج آپ امریکہ کو صاف جواب دے دیں‘ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی متبادل ہے۔ آپ کے پاس اپنی معاشی اور عسکری قوت کو بڑھانے کا کوئی دوسر ا راستہ موجود ہے تو ضرور اس پر چلیے۔ آپ کو امریکہ روکتا ہے نہ کوئی اور۔ یہ سفارت کاری کا امتحان ہے۔ کیا تحریک انصاف سمیت کسی جماعت کے پاس کوئی ایسا معاشی منصوبہ موجود ہے جو آئی ایم ایف سے بے نیاز ہو کر قابلِ عمل ہو؟ یقیناً نہیں ہے۔ کیا امریکی ٹیکنالوجی سے بے نیاز ہو کر‘ ہم اپنی فضائیہ کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔
عمران خان صاحب سمیت سب یہ بات جانتے ہیں۔ اسی لیے وہ امریکہ میں لابنگ پہ کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ مسئلہ تو سادہ لوح خواتین و حضرات کا ہے جنہیں امریکہ کی غلامی سے آزادی کا نشہ آور مشروب پلایا جا رہا ہے۔ سادگی کا یہ عالم ہے کہ امریکی شہریت کیلئے قطار میں کھڑا پاکستانی بھی اپنے ہاتھ میں گلاس پکڑے جام پہ جام چڑھائے جا رہا ہے۔ اس نے ذاتی مفاد کا تعین لیڈر پر نہیں چھوڑا لیکن قومی مفاد کو طے کرنے کا کام لیڈر کو سونپ رکھا ہے۔ یوں وہ ذاتی زندگی میں امریکہ میں رہنے کا خواہش مند اور قومی زندگی میں اس کا مخالف ہے جس دن عوام نے جان لیا کہ مذہب اور سیاست کے معاملات بھی اسی طرح حقیقت پسند ہوتے جیسے عام زندگی کے مسائل‘ وہی دن دراصل سیاسی شعور کا دن ہوگا۔ اس دن اس پر لیڈروں کے تضادات کی حقیقت بھی کھل جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved