پاکستانی قوم نے اتوار کو آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منائی‘ قوموں کی تاریخ میں ایسے تہواروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے‘ کیونکہ اس طرح کے مواقع ہمیں سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ جن مقاصد کیلئے الگ وطن حاصل کیا گیا تھا‘ کیا وہ مقاصد بھی حاصل ہوئے؟ اس حوالے سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کے ان پچھتر برسوں میں قوم بارہا انتہائی نامساعد حالات سے گزری‘ یہاں تک کہ قیام کے صرف چوبیس برس بعد نئی مملکت کو ایک بار پھر بٹوارے کا سامنا کرنا پڑا‘ بھارت سے تین جنگیں ہوئیں‘ آزادی کے فوراً بعد لٹے پِٹے مہاجرین کا سیلاب اُمڈ آیا جو خون کے دریا پار کر کے پاکستان پہنچا تھا جن کی آبادکاری ایک ایسی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج تھی جس کے پاس ابتدائی دو سال تک اپنے ملازمین کو دفتری ساز و سامان فراہم کرنے اور تنخواہیں دینے کیلئے بھی وسائل نہیں تھے۔ان مہاجرین کو مقامی آبادی کے ساتھ محدود وسائل میں شریک کرنے سے مزید مسائل پیدا ہوئے‘ ابھی ملک ان حالات سے سنبھلنے نہیں پایا تھا کہ مغربی سرحد پر گوناگوں چیلنجز سامنے آئے جو کسی حد تک تاحال برقرار ہیں۔یہ خوفناک مسائل ایک ایسے ملک کیلئے وجود کی بقا کا سوال بن کر کھڑے ہو گئے جس کے بارے میں تحریک آزادی کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ملک تو حاصل کر لے گی مگر چلائے گی کیسے‘ کیونکہ انگریز دورِ حکومت میں موجودہ پاکستان کے علاقے میں وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان تمام تر حوصلہ شکن حالات کے باوجود پاکستانی قوم نے اپنے مضبوط عزم کی بدولت نہ صرف مملکت کی بقا کو یقینی بنایا بلکہ کئی ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جس سے نہ صرف قیام پاکستان کے مخالفین کو غلط ثابت کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ ملک کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ پاکستان نے دنیا کی ایک مضبوط ترین فوج کھڑی کی جس کو پاکستانی قوم سمیت دنیا بھر کے مسلمان دشمن کے سامنے ایک آہنی دیوار کے طور پر تسلیم کرتے ہیں‘ پاک فوج کے جوانوں نے برّی‘ بحری اور فضائی‘ تینوں شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
آزادی کے بعد کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ملک کے مجموعی انفراسٹرکچر اور اداروں کے قیام میں حوصلہ افزا حد تک پیش رفت ہوئی ہے‘ اس وقت پاکستان کے اکثر علاقوں میں صحت اور تعلیم کے سینکڑوں مراکز موجود ہیں جنہیں پاکستان کا تجربہ کار اور باصلاحیت عملہ چلا رہا ہے۔پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔محض چند سال بعد گلگت اور چترال سے کراچی اور گوادر تک موٹرویز کے ذریعے سفر ممکن ہو جائے گا جس سے ملک میں آمد و رفت‘ سیاحت اور تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔قدرت نے پاکستان کو پندرہ سو کلو میٹر طویل سمندری ساحل کی نعمت سے نوازا ہے اور ہماری بندرگاہیں نہ صرف ملکی بلکہ پورے خطے بشمول چین اور وسطی ایشیا کی تجارتی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہیں۔اس وقت ملک میں آبی وسائل کے بڑے بڑے منصوبے جاری ہیں جن سے سستی بجلی اور زراعت کیلئے پانی کی سالہا سال دستیابی بھی ممکن ہوگی۔چین کے تعاون سے تھر کے کوئلے سے استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے۔اس وقت یہاں سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جو اگلے سال تین ہزار دو سو میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ ان کامیاب منصوبوں کے بعد تھر کا بیش بہا ذخیرہ پاکستان کیلئے کالے سونے کی کان کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں کا ایک سو پچھتر ارب ٹن کوئلہ سعودی عرب‘ ایران اور متحدہ عرب امارات کے مجموعی تیل و گیس کے ذخائر کے برابر ہے۔اسی طرح سندھ میں ٹھٹھہ کے ونڈ کوریڈور سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جہاں سے اس وقت چھ سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ شمالی دریاؤں سے بھی ایک لاکھ میگاواٹ کے قریب سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور یہاں بھی کئی منصوبوں پر کام جاری ہے ان میں سے کچھ مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں۔سوات کے علاقے اسریت میں پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دو منصوبوں کیلئے گزشتہ ہفتے ایک پاکستانی اور ایک جنوبی کوریائی کمپنی نے اجازت نامے حاصل کئے ہیں جن پر مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر خرچ آئے گا۔
پاکستان نے جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو بھی ثابت کیا ہے‘ اگرچہ درمیان میں یہ خواب ٹوٹتے رہے ہیں‘ تاہم پوری قوم اس بات پر یکسو ہے کہ مملکت کی بقا اور اقوام عالم میں سربلند رہنے کیلئے جمہوریت کے وجود پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کو درپیش مسائل کے باوجود ملک کے بیشتر حصوں میں حالات پُرامن ہیں اور اقلیتوں کو بھی اپنے عقائد پر عمل کرنے اور روزگار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اگرچہ تقسیم اپنے ساتھ گہرے دکھ اور گوناگوں مسائل لاتی ہے ‘تاہم قیام پاکستان کے بعد ایک ایسا خطہ جہاں باوقار زندگی گزارنے کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے‘ اس وقت ہر سمت میں ترقی کر رہا ہے اور یہاں کے لوگ دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ آج کا پاکستان بہرحال 40 سال پہلے والے پاکستان سے بہت آگے ہے۔ دیہات میں گھر پکے ہیں‘ معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے‘ گاڑی موٹر سائیکل کی چہل پہل‘ ہر طرف ہے‘ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں بسنے والے افراد کا معیار زندگی بلند ہوا ہے اور آنے والے وقتوں میں مزید بلند ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے پچھتر برسوں میں جس قدر ترقی ہونی چاہئے تھی بدقسمتی سے ہم اس سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے آگے ہیں‘ حتیٰ کہ پاکستان سے جدا ہونے والا بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں سویلین حکومت کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں۔ہماری عالمی رینکنگ ایجوکیشن‘ ہیلتھ اور انصاف میں دنیا کے آخری چند ممالک میں ہے۔ ہم آخری چند ممالک میں ہیں جو یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ ہم قریب قریب آخری ملک رہ گئے ہوں گے جہاں پولیو نہ صرف موجود ہے بلکہ آبادی کا ایک حصہ پولیو مہم کے خلاف بھی ہے۔ ہمیں صاف پانی میسر نہیں‘ ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں‘ اب ہم بڑے پیمانے پہ بھکاری مشہور ہو چکے ہیں جو بھیک کے خلاف بات کرتے تھے انہوں نے بھیک مانگنے کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔سابق حکومت کے چار برسوں میں تو بھیک کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ حاصل ہوا۔
مسائل سے چھٹکارے کا واحد حل خالص جمہوریت اور سیاسی استحکام میں ہے۔ جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں مگر پانچ ہزار سالہ انسانی تجربے کا نچوڑ بتاتا ہے کہ آج کے دور تک یہ سب سے قابل عمل نظام ہے۔ اس سے بہتر کوئی نظام ابھی موجود نہیں۔ ہمیں اس زعم سے باہر نکلنا ہو گا کہ کوئی مسیحا آ کر ہمارے مسائل چشم زدن میں حل کر دے گا کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ہمیں اپنے مسائل اپنے کندھوں پر اٹھانے ہوں گے۔ جدید دنیا میں معاشی ترقی ہی کسی ملک کی اصل طاقت تصور کی جاتی ہے‘ معاشی ترقی کیلئے سماجی ترقی ضروری ہے۔جس طرح آزادی کے وقت قوم سماجی طور پر بلند تھی تو ایک آزاد وطن حاصل ہو گیا اگر آج بھی ویسی ہی سماجی بلندی کا مظاہرہ کیا جائے تو معاشی ترقی کی منزل دور نہیں‘ ڈائمنڈ جوبلی ہمیں سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ گزشتہ پچھتر برسوں میں ہم نے کیا کھویا‘ کیا پایا اور آگے بڑھنے کا عزم بھی۔ تاکہ جب آزادی کے سو برس پورے ہوں تو ہم کسی بھی میدان میں دنیا سے پیچھے نہ ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved