معرکہ شروع ہے‘ لائنیں کھینچی جا چکی ہیں۔ مدِ مقابل کون ہیں ہمارے سامنے۔ ایک طرف ماضی کی قوتیں جنہوں نے اپنا تو بہت کچھ کیا لیکن قوم کو اس حال تک پہنچا دیا۔ اس صف میں ساری پرانی جماعتیں شامل ہیں اور ان کے پیچھے وہ قوتیں ہیں جنہیں ہم طاقتور کا نام دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایک ہی جماعت ہے‘ پی ٹی آئی جس کے ساتھ عوام کھڑے ہیں۔ ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو معرکے سے نکالا جائے اور جو افلاطونوں کا ٹولا اقتدار میں بٹھایا گیا ہے وہی اقتدار میں بیٹھا رہے۔
مسئلہ البتہ یہ ہے کہ ان طاقتوروں کا بس چل نہیں رہا۔ گزرے زمانے ہوتے تو ایک عوامی لیڈر کو پکڑنا نسبتاً آسان ہوتا۔ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کے بے تاج بادشاہ تھے لیکن جب عوامی لیگ کے خلاف ایکشن شروع ہوا تو شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر اُنہیں مغربی پاکستان لایا گیا جہاں وہ 1971ء کی جنگ کے اختتام تک جیلوں میں رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے ہٹائے گئے تو مقبول عوامی لیڈر پھر بھی تھے۔ لیکن اُن پر قتل کا مقدمہ بنا اور پھر تختۂ دار جانے تک جیل میں رہے۔ زمانہ بدل چکا ہے اور اس زمانے کے اپنے تقاضے ہیں۔ اب وہ کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں تھا۔ لہٰذا جہاں عمران خان کو کرّش کرنے کی خواہش تو ہے‘ ترکیب تیار کرنا اتنا آسان نہیں۔
بہرحال کشمکش جاری ہے اور آنے والے انتخابات تک اس کی شدت بڑھتی جائے گی۔ جنرل ضیا کے زمانے میں بھی انتخابات ہونے تھے لیکن یک جنبش قلم انہوں نے انتخابات کو ایک طرف کیا۔ اب ایسا کرنا آسان نہیں۔ انتخابات تب ہی ختم ہو سکتے ہیں جب جمہوریت کا بستر گول کیا جائے۔ کتنے بھلے دن تھے جب ایسا کرنا بچوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ 'میرے عزیز ہم وطنو‘ والا اعلان ہوا اور جمہوریت کا بستر گول ہوا۔ اب قباحتیں پیدا ہو چکی ہیں‘ دنیا والے بھی ایسی حرکات کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کے مختلف آلات پاکستانی عوام کے ہاتھ آ گئے ہیں۔ منٹوں سیکنڈوں میں آگ کی طرح خبریں پھیل جاتی ہیں‘ فوٹو انٹرنیٹ پر چڑھ جاتے ہیں‘ چیزیں وائرل ہو جاتی ہیں۔ سرکار کی طرف سے کوئی ارشاد آئے تو ایسے تبصرے لکھے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ گزرے زمانوں میں مقدس گائے بھینسیں واقعی ہوتی تھیں۔ ادارے تھے جن کا نام کبھی لیا نہیں جاتا تھا۔ تنقید تو دور کی بات ہے ذکر تک نہ ہوتا تھا۔ زمانہ ایسا ہو گیا ہے کہ مقدس گائے بھینسوں کا بھرم نہیں رہا۔ پردے چاک ہو چکے ہیں‘ نام لیے جاتے ہیں‘ آوازے کسے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی والوں کا ایک کمال ہے کہ اس میڈیم یعنی سوشل میڈیا کے تقاضوں کے وہ استاد ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے بھی میڈیا ٹیم بنائی تھی لیکن پی ٹی آئی والوں کے سامنے وہ ٹیم پرائمری کلاس سے بھی کم کے طالب علم لگتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جلسے ہی دیکھ لیں‘ کیا رنگ و بہار اُن میں ہوتی ہے۔ جھنڈے‘ ترانے‘ لوگوں کا جوش و خروش۔ بچے کب جلسوں میں آتے تھے لیکن یہاں پورے کے پورے خاندان جلسوں میں حاضری دیتے ہیں۔ تواتر سے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور نعرہ بازی میں خواتین و بچے برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اس کے مقابل میں دوسری جماعتوں کے جلسے دیکھ لیجئے۔ روٹین کی کارروائی ہوتی ہے‘ رنگ و بہار کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ ان جماعتوں کے پاس کہنے کو بھی کچھ نہیں۔
نون لیگ والے جب نوازشریف کی مدح سرائی کرتے ہیں تو آج کا نوجوان ایسی باتوں سے کیا متاثر ہوگا۔ نون لیگ والے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خاندانوں والی قیادت اور سیاست سے آج کا نوجوان بیزار ہوچکا ہے۔کیا آج کا نوجوان حمزہ شہباز کو بطورِ لیڈر تسلیم کر سکتا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب شریف خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ نون لیگ والوں کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ وہ زمانہ گیا۔ آج کا نوجوان بپھرا ہوا ہے۔ ذہن کی زنجیریں توڑ رہا ہے۔ فضول کے بھرم کے پردے چاک کر رہا ہے۔ اس نوجوان نے مریم نواز یا حمزہ شہباز کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا ہے؟ کرپشن کے مقدمات اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچیں ہوں گے اور شاید کبھی نہ پہنچیں لیکن پاکستان کا نوجوان طبقہ‘ اور یاد رہے کہ یہ نوجوان طبقہ اب آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں ہے‘ کرپشن کی داستانوں کی حقیقت نہیں سمجھتا؟ یہ داستانیں نوجوانوں کے ذہنوں میں گھر کر چکی ہیں۔
پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑا لیڈر تھا‘ بے نظیر بھٹوکو لیڈر مانا جاتا تھا لیکن ہوش میں رہتے ہوئے آصف زرداری کو آج کا نوجوان لیڈر مانے گا؟ زرداری صاحب کے گرد جو کہانیاں گھومتی ہیں اُس کا لوگوں کو پتا نہیں؟ تو پھر کون سا چورن یہ ہمیں بیچنے چلے ہیں؟ شہباز شریف اور آصف زرداری کو سونے کے رنگ سے پینٹ کر دیا جائے تو کیا اُن کی حقیقت بدل جائے گی؟ لہٰذا اکابرینِ ملت اس قوم پر کچھ رحم فرمائیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی کہانیاں آج کی نہیں‘ دہائیوں پر محیط ہیں۔ لیکن ہمارے اکابرین کی دانشوری ملاحظہ ہو کہ وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ساری قوم ان دو جماعتوں کی قیادتوں کی کہانیاں بھول جائے اور ان ماضی کے زنگ شدہ نمائندوں کونجات دہندہ سمجھے۔ لیکن پوری کوشش جاری ہے کہ قوم کو گردن سے پکڑکر زبردستی اس کے حلق میں یہ چورن اُنڈیلا جائے۔ کیوں نہیں سمجھتے ہمارے اکابرین و آقا کہ یہ کھیل بے سود ہے۔ چلنے والا نہیں۔ لیکن کیونکہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں۔
انتخابات کا راستہ رک نہیں سکتا۔ اس سال نہیں تو اگلے سال کے اختتام سے پہلے کرانے پڑیں گے۔ اس دوران ماضی کی قوتوں کے چہرے‘ جو اَب بھی مرجھائے ہوئے ہیں‘ مزید تھکے تھکے لگیں گے۔ اس کے مقابلے میں عوامی مقبولیت کے جو محور ہیں اُن کی کشش کم نہ ہوگی‘ بڑھتی جائے گی۔ جلسوں کا تپاک مدھم نہ پڑے گا‘ جوشیلے چہروں کا نکھار بڑھے گا۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ کیا حربہ آپ کو دستیاب ہوگا؟ بنیادی نکتہ ہمارے افلاطون سمجھ نہیں پا رہے۔ وہ یہ ہے کہ تاریخ کا دھارا روکا نہیں جا سکتا۔ اقتدار میں آئے تو شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو سے بہت غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن اقتدار میں آنے سے پہلے اُنہیں کوئی روک نہ سکتا تھا کیونکہ اُس وقت کی تاریخ کے نمائندہ وہ تھے۔ آج کے معرکے میں آنے والے وقت کا نمائندہ عمران خان ہے۔ کیا کامیابیاں اور کیا ناکامیاں اُس کے نصیب میں ہیں وہ تو بعد کی بات ہے۔ فی الحال انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اور جہاں تک اوچھے ہتھکنڈوں کا تعلق ہے اُن کی حیثیت کیا ہے۔
پاکستان کیلئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے۔ قوم ماضی کی اسیر رہی تو ماری جائے گی۔ تباہی اب بھی بہت ہو چکی ہے لیکن قوم نے آگے قدم نہ رکھا تو مزید تباہی سے اُسے کوئی بچا نہ سکے گا۔ مسئلہ صرف معیشت کا نہیں ہے۔ اندر سے پاکستانی معاشرہ گل سڑ چکا ہے۔ اس معاشرے کو ہلکی پھلکی دوا نہیں بھاری سرجری کی ضرورت ہے۔ گلے سڑے ماس کو اندر سے کاٹنے کی ضرورت ہے۔ ایسی توقع کیا ہم پرانوں سے رکھ سکتے ہیں؟ اُنہیں تو اپنی پڑی ہے‘ مقدمات کیسے ختم ہوں اور اُنہیں صاف چِٹ مل جائے۔ دولت کے انبار اُن کے باہر‘ ملک کے مستقبل سے اُنہیں کیا سروکار۔ ملک کو ٹھیک کرنا ہے تو آج کے نوجوان نے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved