بزرگوں کی ایک روایتی عادت یہ ہے کہ چھوٹتے ہی لمبی عمر کی دُعا دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں اسے دُعا سمجھا جاتا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہے جسے دیکھنے کے لیے لمبی عمر پائیں! اب اگر کوئی لمبی عُمر کی دُعا دیتا ہے تو دِل لرز اُٹھتا ہے، سہم جاتا ہے۔ ؎ ہاں وہی لوگ ہیں دراصل ہمارے دُشمن جو ہمیں عمر درازی کی دُعا دیتے ہیں شعرائے کرام سمجھا سمجھاکر تھک گئے کہ اپنے لیے کوئی دُعا مانگنے یا دوسروں کے لیے دُعا کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر ہماری کوئی دُعا قبول ہوگئی تو کیا ہوگا! اُستاد قمرؔ جلالوی نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ ؎ دُعا بہار کی مانگی تو اِتنے پُھول کِھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو محترم جاذبؔ قریشی نے بھی کہا ہے ؎ کیوں مانگ رہے ہو کِسی بارش کی دُعائیں تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو دُعاؤں کی قبولیت کے نتائج اِس قدر بھگتے ہیں کہ کچھ ہٹ کر جینا لازم ہوگیا ہے۔ کوئی رزقِ حلال کی دُعا دے تو قبولیت کی صورت میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور ’’بالائی‘‘ تج کر صرف دُودھ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی محنت کو شعار بنانے کی دُعا دے تو قبولیت کی صورت میں ہڈ حرامی ترک کرنی پڑتی ہے۔ دُعاؤں کی قبولیت نے اِتنے اور ایسے گُل کھلائے کہ متبادل طرزِ زندگی تلاش یا وضع کرنا لازم ہوگیا۔ قوم نے بہت مشکل سے ایک آسانی ڈھونڈی ہے۔ اب پاکستانیوں کے ہاتھ ایک ایسا نسخہ آگیا ہے جس کے مطابق جینے میں آسانی ہی آسانی ہے۔ ہم تو حیران ہیں کہ جگرؔ مراد آبادی کے اُستاد اصغرؔ گونڈوی نے کیوں کہا تھا کہ ؎ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے ممکن ہے اصغرؔ گونڈوی کے زمانے کی آسانیاں بس نام کی آسانیاں ہوں۔ اگر وہ آج ہوتے تو دیکھتے کہ ہم نے کیسی عمدہ آسانی دریافت، بلکہ وضع کی ہے جو تمام مسائل کو آن کی آن میں حل کردیتی ہے۔ دوسری اقوام کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اُنہوں نے خود کو کتنے محاذوں پر اُلجھا رکھا ہے۔ علوم و فُنون کا حصول، تحقیق در تحقیق اور آگے بڑھنے کے لیے اعصاب شکن مسابقت۔ چار دِن کی زندگی میں اتنے پاپڑ کون بیلے؟ زندگی کیا اتنے سارے بکھیڑے پالنے کے لیے ہوتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ کوئی دیکھے کہ ہم نے کتنی آسانی اور خوبی سے خود کو صرف ایک کام تک محدود کرلیا ہے۔ اور کام بھی ایسا آسان کہ جسے کرنے کے لیے کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا۔ جی ہاں، اب پاکستانی قوم کا کام صرف جھیلنا رہ گیا ہے۔ زندگی کس قدر آسان ہے اور دُنیا والے اِسے پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے پر تلے ہوئے ہیں! بڑی کمپنیاں تحقیق و ترقی پر خطیر رقوم خرچ کرکے جو مصنوعات مارکیٹ میں لاتی ہیں اُن سے ہم جیسی پس ماندہ اقوام کے لوگ بھی فوری طور پر اور اچھی طرح مستفید ہولیتے ہیں۔ دُنیا والے سوچتے ہیں کہ ہم تحقیق و ترقی کے عادی نہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ جب ہم جدید ترین مصنوعات کو آسانی سے حاصل کر ہی لیتے ہیں تو پھر اِس قدر ہاؤ ہُو کی ضرورت کیا ہے؟ جھیلنے کا عمل متبادل دریافت یا ایجاد کرنے کی منزل تک لے جاتا ہے۔ اگر کبھی متبادل آسانی سے نہیں ملتا تو ہم نظریۂ ضرورت کے تحت اُسے وضع یا ایجاد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ’’زندہ‘‘ قومیں ایسی ہی ’’جی داری‘‘ دِکھایا کرتی ہیں۔ ہوگا کوئی زمانہ جب ہم وطن کی محبت سے سرشار تھے۔ اب ہم وطن کے گیت سُن اور گنگناکر خود کو وطن کی محبت میں سَر سے پیر تک ڈوبا ہوا محسوس کرلیتے ہیں۔ چند پُرجوش قومی نغمے سُن کر خُون کو تھوڑا گرمالیتے ہیں۔ دُنیا والوں نے پتہ نہیں کن کن باتوں کو وطن پرستی سے تعبیر کر رکھا ہے۔ اور ذرا غور کیجیے کہ ہم نے وطن کی محبت کو کتنی عمدگی سے چند پُرجوش نغموں کے صندوق میں قید کردیا ہے۔ صندوق کھولیے، چند قومی نغمے سُنیے اور وطن کی محبت سے سرشار ہوجائیے، بس۔ جب سے ہم نے جھیلنے کو شعار بنایا ہے، کوئی غم غم نہیں رہا۔ دہشت گردی سے ہم خائف اور پریشان رہا کرتے تھے۔ اب اِسے مُقدّر سمجھ کر جھیل رہے ہیں تو اِس کی تباہ کاری ذہن پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی، دُور تک لاشیں بِکھری ہوں تب بھی ہم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں کو ناکامی مُبارک۔ کل تک سیلاب کے نام سے ڈر لگتا تھا۔ اب ہم نے سیلاب کو جھیلنے کا ہُنر سیکھ لیا ہے۔ نتیجہ دیکھ لیجیے کہ ریلے آتے ہیں اور ہم اُنہیں گھاس ہی نہیں ڈالتے۔ سیلاب اپنی چالیں چلتا ہے اور ہم اپنی مَوج میں بہتے رہتے ہیں۔ دریا بپھرتے ہیں اور تباہی مچاکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہماری مَوج مَستی کا میلہ دَم نہیں توڑتا۔ جھیلنے کی عادت کے ذریعے ہم نے سیلاب کو کتنی آسانی سے پچھاڑ دیا ہے۔ منافع خوری کِسے اچھی لگتی ہے، سِوائے منافع خوروں کے؟ ابھی کل تک ہم اِس بات پر کُڑھا کرتے تھے کہ رمضان المبارک کے دوران اور عیدین کے موقع پر منافع خوری نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ دُکھڑا بھی محسوس کرنے سے مشروط تھا۔ اب ہم منافع خوری کو بخوشی جھیل ہی نہیں رہے، اِس میں بہ قدرِ توفیق حِصّہ ڈال رہے ہیں۔ نتیجہ دیکھ لیجیے کہ کوئی کِتنا ہی منافع بٹور رہا ہو، ہمیں پریشانی نہیں ہوتی۔ تعلیم کے نام پر جہالت تقسیم کی جارہی ہے اور ہم اِسے بھی جھیل رہے ہیں۔ بہتوں کے نزدیک فی زمانہ دانش سے جہل غنیمت ہے۔ عِلم اپنے ساتھ کئی طرح کے مسائل لاتا ہے۔ عِلم کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ ذہن کو بیدار رکھتا ہے۔ ذہن بیدار ہو تو بہت کچھ محسوس کرتا اور دَم بہ دَم اذیت سے دوچار رہتا ہے۔ تعلیمی ادارے ذہن کو سُلانے کا اہتمام کر رہے ہیں اور ہم اِس کیفیت کو جھیل کر اپنی آسانیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کھیلوں کے نام پر سیاست ہو رہی ہے اور سیاست کے نام پر قوم سے کھیلا جارہا ہے اور قوم اِس تماشے کو جھیل کر پورا لُطف کشید کر رہی ہے۔ پسی ہوئی مِرچوں میں سُرخ بُرادہ اور ثابت کالی مِرچوں میں پپیتیکے بیج ملاکر فروخت کرنا عام ہے اور ہم نے اِس روش کو بھی جھیلنا سیکھ لیا ہے۔ دُودھ میں پانی ملانے کی ’’صحت بخش‘‘ روایت کو ہم اِس قدر جھیل چکے ہیں کہ اب اگر کوئی ایمانداری پر تُل جائے اور خالص دُودھ بیچنے لگے تو ہماری صحت کا بیڑا دیکھتے ہی دیکھتے غرق ہوجائے۔ کل تک اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں سے ہم طرح طرح کی توقعات وابستہ کیا کرتے تھے اور وہ اِن توقعات کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان رہا کرتے تھے۔ ظاہر ہے اِس سے اُن کی ’’کارکردگی‘‘ بھی متاثر ہوا کرتی تھی! اب طے ہے کہ اقتدار اور اختیار پانے والے خواہ کچھ کریں، ہم جھیلیں گے۔ یعنی سُکون ہی سُکون ہے۔ جب زندگی اِس قدر ’’آسان‘‘ اور ’’پرسُکون‘‘ ہو تو دِل کی گہرائی سے یہ صدا کیوں نہ اُبھرے کہ ہم ہیں پاکستانی، ہم تو ’’جھیلیں‘‘ گے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved