اب بارش میں تیزی آ گئی تھی اور مانچسٹر کی کافی شاپ کی کھڑکیوں کے شیشوں پر ہلکی دھند پھیل رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ باہر موسم خاصا سرد ہے لیکن اس کے برعکس اندر کے ماحول میں خوشگوار حدت تھی۔ کافی کی خوشبو ہوا میں گھل مل گئی تھی اور مانچسٹر میں ملنے والی اجنبی لڑکی مایا مجھے انیسویں صدی کے معروف ولندیزی مصور Van Gogh کی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ Van Gogh کو بچپن ہی سے مصوری میں دلچسپی تھی۔ جب وہ بڑا ہوا تو آرٹ ڈیلر کا کام کرنے لگا لیکن پتا نہیں کیوں‘ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ Creative لوگ یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں۔ میں نے مایا کو دیکھ کر کہا: شاید اس لیے کہ Creative لوگ ہر دم ایک نئے پن کی تلاش میں ہوتے ہیں اور ایک ہی کیفیت‘ ایک ہی تجربے اور ایک ہی کام سے جلد اُکتا جاتے ہیں۔ مایا اپنے کافی کے کپ میں چمچ ہلا رہی تھی‘ پھر اس نے سر اُٹھا کر اپنی پیشانی پر آئے بالوں کو جھٹک کر پیچھے کیا اور سر ہلاتے ہوئے کہنے لگی: بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ Van Gogh کبھی آرٹ ڈیلر بنا‘ کبھی اسسٹنٹ ٹیچر‘ کبھی پادری اور کبھی بک شاپ پر کام کیا۔ کوئی اَن دیکھا خواب اسے متحرک رکھے ہوئے تھا۔ پھر تنہائی نے اپنے حصار میں لے لیا۔ کافی‘ سگریٹ اور الکوحل اس کی زندگی کے سہارے بن گئے۔ اس کی صحت گرتی چلی گئی۔ اس کے دوست اب اس سے کنارہ کرنے لگے تھے۔ جب جنون حد سے بڑھ گیا تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ Van Gogh کو Mental Asylum میں داخل کرا دیا جائے لیکن Van Gogh نے ہار نہیں مانی۔ زندگی کے شور شرابے سے دور Mental Asylum میں اسے وہ سکوت اور تنہائی میسر تھی جس میں وہ اپنے خواب کینوس پر منتقل کر سکتا تھا۔ اس نے یہاں اپنی زندگی کی چند بہترین پینٹنگز بنائیں۔ اس کی شہرۂ آفاق پینٹنگ The Starry Night بھی Mental Asylum میں بنائی گئی۔ اس پینٹنگ میں ایک خاص سحر ہے۔ نیلی رات میں چاندنی کا غبار نامعلوم دنیاؤں کے در کھولتا ہے۔ Van Gogh کی دل کی دنیا میں کیسی لہریں اُٹھ رہی تھیں‘ باہر کی دنیا کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ Mental Asylum ہی کا ایک واقعہ ہے‘ Van Gogh نے اپنے معالج Dr.Rey کا ایک پورٹریٹ بنایا‘ یہ اس کا اپنے ڈاکٹر کے لیے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا۔ ڈاکٹر اپنے شعبے کا تو ماہر تھا لیکن آرٹ سے اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی‘ اس نے پورٹریٹ کا فریم Van Gogh سے لے تو لیا لیکن اس کی وقعت اس کے نزدیک معمولی تھی۔ ڈاکٹر کو کیا خبر تھی اس فریم کی قدر و قیمت کیا ہے۔ کہتے ہیں اس نے پورٹریٹ کو مرغیوں کے ڈربے کے سوراخ کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بعد میں وہ پورٹریٹ پشکن آرٹ میوزیم میں رکھا گیا اور پورٹریٹ کی قیمت کا اندازہ تقریباً 50ملین ڈالرز لگایا گیا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ دنیا Van Gogh کو دیوانہ کہتی رہی۔ زندگی میں اس کی صرف ایک پینٹنگ فروخت ہوئی۔ ساری عمر غربت سے لڑتے ہوئے وہ 37برس کی عمر میں اجل کی وادی میں اتر گیا۔ اس پر شہرت کے دروازے اس کی موت کے بعد کھلے جب اس کی پینٹنگز سب سے مہنگی بکیں اور فن کے نقادوں نے اسے مصوری کی دنیا کا Genius قرار دیا۔
مایا بول رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں Van Gogh کی پینٹنگز کے رنگ جھلملا رہے تھے۔ وہ کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے بولی: Van Gogh کے فن میں تنوع تھا۔ اس نے پورٹریٹ بھی بنائے اور سیلف پورٹریٹ بھی‘ اس نے ڈرائنگ بھی کی‘ لینڈ سکیپ بھی بنائے اور ساکن زندگی (Still Life) کو بھی رنگوں اور لکیروں کا پیراہن دیا۔ اس نے واٹر کلر بھی استعمال کیے اور آئل پینٹنگ بھی کی اور ہر رنگ اور ہر شعبے میں اپنی مہارت دکھائی۔ اس کی موت کے بعد ایمسٹرڈیم میں اس کے نام پر Van Gogh Museum بنایا گیا جس میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے فن کے پرستار آتے ہیں ‘جن میں پچاسی فیصد لوگ غیر ملکی ہوتے ہیں۔
میں Van Goghکی کہانی کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ میری مایا سے پہلی ملاقات تھی لیکن یوں لگتا تھا کہ میں اسے کئی جنموں سے جانتا ہوں‘ وہ بول رہی تھی اور میں کسی سحر زدہ معمول کی طرح اسے سن رہا تھا۔ اچانک مایا رُکی اور کہنے لگی: آپ نے اس کی پینٹنگ Sunflowerتو دیکھی ہو گی۔ میں نے کہا: ہاں یہ اس کی اہم پینٹنگز میں سے ایک ہے۔ مایا کہنے لگی: اس پینٹنگ کو غور سے دیکھیں تو اس میں آپ کو Van Gogh کے اندر کی اداسی اور تنہائی نظر آئے گی۔ وہ اپنے مشاہدات کو اپنے رنگوں میں اس طرح سموتا تھا کہ دیکھنے والے خود کو اس تجربے کا حصہ سمجھنے لگتے تھے۔ اس کی پینٹنگز Wheat Fields اور Cottage سیریز دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کیسے آرٹسٹ اپنے اردگرد کی تصویریں اپنے دل کے آئینے میں سمیٹ لیتے ہیں اور پھر یہی تصویریں لوگوں کے دل اور دماغ تسخیر کر لیتی ہیں۔
اب کافی شاپ کی کھڑکی کے شیشوں پر سے دھند خود بخود صاف ہونے لگی تھی۔ شاید باہر بارش رک گئی تھی اور سورج بادلوں سے نکل آیا تھا۔ مایا بولی: آپ کا بہت شکریہ‘ آپ نے مجھے اتنا وقت دیا۔ آپ کی بدولت میں نے مانچسٹر میوزیم دیکھا۔ ہم دونوں بیک وقت اٹھے اور کافی شاپ سے باہر نکل آئے اور نرم مہربان دھوپ میں ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلنے لگے۔
اس بات کو اب کتنے ہی برس بیت گئے۔ مایا سے ملاقات ماضی کے سمندر کی تہہ میں چھپ گئی۔ آج مدتوں بعد میں اور شعیب ٹورونٹو میں Van Gogh کی پینٹنگز کی نمائش دیکھنے جا رہے تھے۔ چلتے چلتے شعیب نے مجھ سے Van Gogh کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو مجھے برسوں پہلے مایا اور مانچسٹر کی کافی شاپ میں ملاقات یاد آگئی جب اس نے مجھے Van Gogh کی کہانی سنائی تھی۔
میں اور شعیب Exhibition ہال میں داخل ہوئے تو فرش پر روشنی کے دائرے بنے ہوئے تھے‘ ہر دائرے میں ایک تماشائی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ہم بھی فرش پر بنے اپنے اپنے دائرے میں بیٹھ گئے۔ Van Gogh کی نمائش دیکھنے کے لیے کئی Time slots تھے‘ ہر slotمیں پندرہ کے قریب لوگوں کی گنجائش تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہال کی چاروں وسیع دیواروں پر Van Gogh کی پینٹنگز کی Digitalتصویریں متحرک ہو گئیں۔ یہ کام اتنی مہارت سے کیا گیا تھا کہ اس سے پینٹنگز کا Impact کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ میں اور شعیب دیواروں پر چلتی ہوئی تصویروں کے سحر میں گم ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ اتنی دیر میں کچھ لوگ سیڑھیاں چڑھ کر ایک Terraceسے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی سیڑھیوں سے ہوتا ہوا Terraceپر چلا گیا اور چاروں طرف Van Gogh کی متحرک پینٹنگز کی Video بنانے لگا۔ یہ میری زندگی کا ایک غیر معمولی تجربہ تھا جس کا دورانیہ شاید آدھ گھنٹے کا تھا لیکن اس کا اثر میری زندگی میں تادیر رہے گا۔ جب ہم ہال سے باہر نکلے تو ٹورونٹو کے واٹر فرنٹ پر حدِ نگاہ تک پانیوں کی وسعت تھی جن میں چھوٹے بحری جہاز کھڑے تھے۔ میں اور شعیب واٹر فرنٹ پر پانی کے کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بارش کی پھوار میں ایک عجیب سی لذت تھی۔ میں نے آرام کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگا مجھے Van Gogh کی کہانی سنانے والی مایا نجانے کہاں ہو گی۔ آج یوں ہی لیک اونٹوریو پر جھکے ہوئے سیاہ بادلوں کو دیکھ کر مجھے مانچسٹر کا وہ ابر آلود دن یاد آگیا جب میری ایک اجنبی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ جو مانچسٹر میں میوزیم دیکھنے آئی تھی۔ جس کا نام مایا تھا اور جو Van Gogh کی دیوانی تھی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved