تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-08-2022

ناشکری کا انجام

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اَنگنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر انسان اپنے داخل اور خارج پہ غور کرے تو ہر سو پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ادراک کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو سانس لینے کے لیے پھیپھڑے، جسم کا فاضل پانی صاف کرنے کے لیے گردے، نظام انہضام کو چلانے کے لیے معدہ، سوچ و فکر کے لیے دماغ، پکڑنے کے لیے ہاتھ اور چلنے کے لیے قدم عطا کیے۔ جب کسی بیماری یا تکلیف کی وجہ سے ان اعضا پر معمولی سا اثر بھی پڑتا ہے تو انسان بے تابی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تما م تر وسائل اور توانائیوں کو اپنی صحت پر لگانے پر تیار ہو جاتا ہے اور اس کی ایک ہی تمنا ہوتی ہے کہ اس تکلیف سے کسی طرح نجات حاصل کرلے۔ بہت سے لوگ ان تکالیف سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد دائمی مرض یا کسی اچانک مرض کے نتیجے میں بھی موت کے منہ تک پہنچ جاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو سکون حاصل کرنے کے لیے گھر بار، بیوی بچے اور اعزہ واقارب جیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے کھانے پینے کے لیے انواع واقسام کے پھلوں، سبزیوں اور پاکیزہ مشروبات کو پیدا کیا اور جانوروں کے حلال گوشت کو بھی انسانوں کی خوراک کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ انسان اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان تمام کی تمام نعمتوں پر غوروخوض کرے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ نعمتیں بغیر جستجو اور لمبی چوڑی کاوش کے حاصل ہوئی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 53 میں فرماتے ہیں: ''اور جو تمہارے پاس کوئی نعمت ہے تو (وہ) اللہ کی طرف سے ہے پھر جب پہنچے تمہیں کوئی تکلیف تو اسی کی طرف تم آہ و زاری کرتے ہو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے لاتعداد نعمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں اس بات کو واضح کیا ہے: ''اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمتوں کو (تو) نہیں شمار کر سکو گے اُنہیں‘ بے شک انسان بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے‘‘۔
قرآنِ کریم کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں اور اگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم ہی کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے‘ یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح فرما دیا کہ اگر انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کو بڑھا دیں گے جبکہ ناشکری کی شکل میں انسان اللہ تعالیٰ کی گرفت اور پکڑ میں آ جاتا ہے۔ ہمیں اس بات پر غوروخوض کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ شکر گزاری اور ناشکری کا صحیح مفہوم کیا ہے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد ان امور پر غوروفکرکرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شکر گزاری اور ناشکری کے تین مدارج ہیں۔ شکرکا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس ہونا چاہیے، اور انسان کو دل کی گہرائیوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احسانات کا معترف ہونا چاہیے اور اُس کو اِس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جتنی بھی نعمتیں اس کو حاصل ہوئی ہیں فقط فضلِ الٰہی سے حاصل ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر انسان کو اپنی زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اپنی زبان سے ناشکری کے کلمات نہیں نکالنے چاہئیں۔ تیسرے نمبر پر انسان کو اپنے اعمال کے ذریعے بھی شکر گزاری والا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اسی طرح ناشکری کے بھی تین مدارج ہیں۔ انسان دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرے، زبان سے ناشکری کے الفاظ کہے اور اپنے اعضا وجوارح سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرے اور اس کی تابعداری کا راستہ اختیارکرنے کے بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کرے ۔ جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں اور اگر انسان ناشکری کے راستے پر چل نکلتا ہے تواس کی نعمتیں زائل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کیا ہے جس کو داخلی طور پر اطمینان، خارجی طور پر امن اور رزق جیسی عظیم نعمتیں حاصل تھیں جب ان نعمتوں کے باوجود انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی سب نعمتوں کو چھین لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں اس بستی کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی‘ اطمینا ن والی‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا‘ ہر جگہ سے‘ تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ سبا میں سبا کی بستی کو دی جانے والی نعمتوں اور ناشکری کے بعد ان سے نعمتوں کے چھن جانے کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سبا کی آیات 15 تا 17 میں فرماتے ہیں: ''بلاشبہ (قومِ) سبا کے لیے تھی اُن کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی‘ دو باغ دائیں اور بائیں جانب (تھے) (ہم نے اُنہیں حکم دیا) کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اُس کا شکر ادا کرو۔ پاکیزہ شہر ہے اور بہت بخشنے والا رب ہے۔ پھر اُنہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھیجا اُن پر زور کا سیلاب اور ہم نے اُن کو بدلے میں دیے اُن کے دو باغوں کے عوض میں (اور) دو باغ‘ بدمزہ میوے والے اور جھاؤ کے (خودرو) درختوں والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔ یہ ہم نے بدلہ دیا اُنہیں اس وجہ سے جو اُنہوں نے کفر کیا اور نہیں ہم سزا دیتے مگر اُسے جو بہت ناشکرا ہو‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی شخص یا قوم کو کوئی نعمت دیتے ہیں تو انہیں شکرگزاری کے راستے پر چلنا چاہیے۔ انسانوں کو ملنے والی ذہانت، فطانت، علم، سرمایہ، جوانی، قوت، یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں اگر انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں استعمال کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں میں بے پایاں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ جب ان نعمتوں کی ناشکری کی جائے تو ان نعمتوں کے زائل ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں جہاں دیگر بے پایاں نعمتیں عطاکی ہیں وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی آزادی ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا اور اس کے قیام کا مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جس میں کتاب وسنت کی عملداری ہو اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے خوبصورت منصوبوں کو تیار کیا جا سکے۔ اس ملک میں رہتے ہوئے ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نعمتیں حاصل ہیں جن میں خوبصورت موسم، پھل، پھول، اناج اور ان سب سے بڑھ کر شعائر اللہ کی انجام دہی کے بہترین مواقع جیسی نعمتیں ہمیں حاصل ہیں۔ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان بے پایاں نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے تحفے کی قدر کرنی چاہیے۔ یومِ آزادی کے اس موقع پر یقینا ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت کے حوالے سے ازسرنو تجدیدِ عزم کرنا چاہیے اور اس بات کا ارادہ کرنا چاہیے کہ ہم آنے والی زندگی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاریں گے۔ لیکن اگر ہم اس حوالے سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہیں تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے احتساب کا سامنا کرنا بھی پڑ سکتا ہے۔ یوم آزادی کے حوالے سے ہونے والی تقریبات میں ہر سال پاکستان کی تاریخ، حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور دیگر اکابرین کے کارہائے نمایاں کو بہترین طریقے سے اجاگر کیا جاتا ہے لیکن یہ نہایت دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ اس سال سرکاری سطح پر ایک جس تقریب کا انعقاد کیا گیا اور جس میں پاکستان کے وزیراعظم بھی شریک ہوئے‘ ا س میں ناچ گانے، رقص وسرود کا مظاہرہ کیا گیا۔ یقینا اس قسم کی تقریبات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دینے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ہمیں اس قسم کی تقریبات کا انعقاد کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عطا کردہ کسی بھی نعمت کو بہ آسانی انسانوں سے چھین سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ان راستوں کو اختیار کرنا چاہیے جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی شامل ہو اور ان تمام چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی وارد ہو۔ اگر اس حوالے سے ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو اللہ نہ کرے ہم اس کی پکڑ اور گرفت کی زدّ میں آ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں کوا س حوالے سے اپنے کردار کی اصلاح کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ آئندہ اس قسم کے غلط افعال سے خود بھی محفوظ رہیں اور قوم کو بھی بچا سکیں، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved