آپ ہر اعتبار سے بے مثال ہیں۔ کوئی آپ کے جوڑ کا نہیں اور یہ معاملہ تمام انسانوں کا ہے۔ دنیا کا ہر انسان باقی تمام انسانوں سے مختلف ہے۔ محض انفرادیت کا احساس انسان کو کافی نہیں لگتا حالانکہ یہ احساس بھی زندگی کو بھرپور بنانے کے لیے کافی ہے۔ اگر پوری سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آپ کا وجود اس کائنات کے لیے بہت ضروری ہے تبھی تو اسے معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کائنات میں کسی انسان کا موجود ہونا اس کی مرضی کا معاملہ نہیں۔ اس کائنات کے خالق نے اپنے عظیم منصوبے میں انسان کو شامل کیا ہے تو ظاہر ہے کسی نہ کسی مقصد کے تحت ایسا کیا ہوگا۔ انسان کا وجود اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جس نے یہ کائنات بنائی ہے اُس کے نزدیک یہ کائنات ہر ایک وجود کے بغیر نامکمل ہے۔ ہر وجود خود اس کی ذات کے لیے اور اس کائنات کے لیے ایک بڑا تحفہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اِس حقیقت پر بھی غور لازم ہے کہ جو کچھ آپ کو دکھائی دے رہا ہے یعنی جو کچھ بھی موجود ہے وہ اس وجود کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا تبھی تو آپ بھی موجود ہیں۔ اگر اپنے اور کائنات کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ سمجھ پائیں گے کہ آپ کو بخشا جانے والا وجود ہی اپنے آپ میں سب کچھ ہے۔
انسان کے لیے یہ تمام خیالات اور تصورات ہر عہد کے بڑے ذہنوں میں ابھرے ہیں۔ کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرنے والوں نے سب سے زیادہ انسان پر غور کیا ہے۔ اُن کے نزدیک انسان کو سمجھنا ہی اس کائنات کو سمجھنا ہے۔ انسان کائنات کا مرکزی خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں صرف انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اسے سمجھنے، سوچنے اور منصوبے تیار کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ مخلوق کا تنوع اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کے مقابلے پر کوئی بھی مخلوق نہیں آسکتی۔ یہ بھی کائنات کے خالق و رب ہی کی مرضی کا معاملہ ہے۔ دنیا کا ہر انسان کائنات کے خالق کا منظورِ نظر ہے۔ جو کچھ بھی معرضِ وجود میں لایا گیا ہے وہ اس کائنات کے خالق کی مرضی سے یہاں ہے اور جب تک وہ چاہے گا تب تک یہاں رہے گا۔ آپ کا بھی یہی معاملہ ہے، ہم میں سے ہر ایک کا یہی قصہ ہے۔ ہم اس وسیع و عریض کائنات کا حصہ ہیں تو کسی مقصد کے تحت۔ یہ مقصد کائنات کے خالق نے طے کیا ہے اور ہمیں آگاہ بھی کیا ہے۔
بہتر زندگی کے لیے کچھ کرنے کی تحریک دینے والوں نے ہمیشہ اس نکتے پر بہت زور دیا ہے کہ دنیا کا ہر انسان منفرد ہے اور اُس جیسا کوئی نہیں۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ ہر انسان اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے۔ اس دنیا میں سبھی کچھ الگ طرح کا ہے، منفرد ہے۔ ہاں‘ کم ہی لوگوں کو اس بات کا احساس ہو پاتا ہے کہ وہ دوسروں سے بالکل منفرد ہیں اور یوں کچھ ایسا کرنا چاہیے جو دوسروں کی کارکردگی سے بہت ہٹ کر ہو۔ سوچنے والوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان اپنی انفرادیت کے بارے میں سوچے تاکہ اُسے یہ اندازہ ہو کہ کائنات کے خالق نے اُس کے لیے کوئی نہ کوئی کردار ضرور رکھا ہوگا۔ یہ کردار کس طور ادا کیا جا سکتا ہے اِس کا اندازہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان اپنے وجود کو سمجھنے کی کوشش کرے، اپنی انفرادیت کی نوعیت پر غور کرتے ہوئے اپنے لیے امکانات تلاش کرے۔ امکانات کی تلاش شروع کرنے سے قبل انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کر سکتا ہے اور خالق و ربِ دو جہاں نے اُسے وجود کس مقصد کے تحت بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت و سکت عطا فرمائی‘ ہمیں اُن کی حدود میں رہتے ہوئے ہی سوچنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی انسان وہی کچھ کر سکتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ کوئی بھی اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتا۔ ہاں‘ اپنی حد کو پہچاننا آنا چاہیے۔ یہ کام توجہ طلب بھی ہے اور محنت طلب بھی۔
ہم مرتے دم تک بہت کچھ کرتے ہیں۔ ہمیں بیسیوں لوگوں سے تعلقات اُستوار رکھنا پڑتے ہیں، رشتوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی سطح پر ہمیں بہت سے معاملات میں اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ حصہ زر کی شکل میں بھی ہوتا ہے اور کردار کی شکل میں بھی۔ دونوں صورتوں میں ہم اپنا کردار ایک خاص فریم ورک اور ٹائم فریم میں رہتے ہوئے ادا کرسکتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کا اس کائنات میں موجود ہونا اِس امر کا غماز ہے کہ ہمیں کائنات کی مجموعی سکیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کائنات کے خالق نے ہمیں عدم سے وجود میں لاکر یہ بتلایا ہے کہ ہمارے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ یہ مقصد اور کردار کیا ہے‘ اس کے بارے میں غور کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ عدم سے وجود میں لائے جانے کی وقعت پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ رب کریم نے ہمارے ذمہ کوئی نہ کوئی کام ضرور رکھا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا اور کائنات کی زینت بڑھانے کے لیے وہ کام کرنا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دیگر تمام مخلوق کی طرح ہر انسان کو بھی ایک خاص کردار ادا کرنے کے لیے وجود بخشا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کردار ادا کرنے نہ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ اختیار کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آیا۔ اُن کے لیے راستے متعین کردیے گئے ہیں اور منزل بھی۔ اِسی لیے اُن سے حساب کتاب بھی نہیں لیا جائے گا۔ حساب ہمیں دینا ہے کیونکہ اختیار کے حامل ہونے پر ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
زندگی سے بڑی نعمت کوئی اور نہیں۔ اور زندگی بھی وہ کہ جس میں سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت شامل ہو اور اختیار بھی۔ ایک تو وجود اور پھر وہ بھی اعلیٰ ترین درجے کا۔ یہ تو ایسی نعمت ہوئی کہ جس قدر بھی شکر ادا کیجیے کم ہے۔ اور شکر ادا کرنا بھی تو ہم پر ہی فرض کیا گیا ہے۔ باشعور اور با اختیار زندگی عطا کی گئی ہے تو تشکر کا فریضہ بھی سونپا ہی جانا تھا۔
عمومی سطح پر ہم اپنے وجود کو خود بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ خالص حیوانی سطح پر جیتے ہوئے موت کو گلے لگایا جاتا ہے۔ انسان کو محض حیوانی سطح پر جینے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ حیوانات کے معمولات کھانے پینے اور سونے جاگنے تک محدود ہیں۔ اِس سے زیادہ اُن کے ذمہ کچھ لگایا ہی نہیں گیا۔ کوئی انسان اگر اپنے آپ کو حیوانات کی درجہ بندی میں رکھے تو اُس کی عقل کا صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو اپنے خالق و رب کو ناراض کرنے والا معاملہ ہوا۔ ہمیں تشکر، تفکر و تدبر اور عمل کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ اب اگر ہم اپنے آپ کو حیوانات کے سے سطحی معمولات کے پنجرے میں قید کر لیں تو اِسے اپنے خالق کی ناراضی مول لینے کے سوا کیا سمجھا جائے گا؟
ہم پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وجود کی دولت سے مالا مال کرکے اِس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ ہمیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اپنے فکر و عمل سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یقینی بنانے کا سامان کریں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ انسان قدم قدم پر اللہ کا شکر ادا کرتا رہے تب بھی کم ہے۔ پھر بھی ہم میں سے بیشتر کا بلکہ یوں کہیے کہ 99 فیصد سے بھی زائد افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مقام و مرتبے کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اُنہیں مثالی انداز سے جینے کے لیے خلق کیا گیا ہے مگر وہ خالص حیوانی سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ بھی ایسا نہیں کر پاتے جس کی بنیاد پر اُنہیں امتیازی حیثیت دی جائے‘ یاد رکھا جائے۔
یاد صرف اُنہیں رکھا جاتا ہے جو کچھ کر گزرتے ہیں۔ ہر انسان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اُسے کچھ ایسا کرنا ہے جو اُسے لوگوں کے حافظے میں زندہ رکھے۔ اس کے لیے بہت بڑی ہستی بننا بھی لازم نہیں۔ ہاں‘ اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور تندہی سے کرنا ہے۔ جو انسان جہاں ہے وہاں اُسے اپنا متوقع کردار پوری دیانت، ذہانت اور جاں فشانی سے ادا کرنا ہے۔ بامعنی اور بامقصد زندگی بسر کرنے کا اِس کے سوا کیا مفہوم ہے؟ جب تک سانسوں کا تسلسل قائم ہے تب تک اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کی کوشش ہی ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ٹھہرا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved