پاکستان کی سیاست ایک دور سے نکل کر غیر یقینی کے دوسرے دور میں داخل ہو گئی ہے‘ جو پہلے کے مقابلے میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور میں یومِ آزادی کے موقع پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے روڈ میپ کا اعلان کیا ہے۔ اس روڈ میپ کے تحت سابق وزیراعظم نے ملک کے چاروں بڑے صوبوں میں احتجاجی جلسوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ ان جلسوں کا مقصد ''حقیقی آزادی‘‘ کا حصول بتایا گیا ہے۔ روڈ میپ کے اعلان سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف ایک اور سازش تیار ہو رہی ہے۔ اس سازش کے تحت انہیں نااہل قرار دیا جا رہا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو واپس پاکستان لا کر ان کی نااہلی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اعلان کے مطابق انہوں نے احتجاجی جلسوں کا سلسلہ اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے شروع کیا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رکھا جائے گا جب تک کہ موجودہ حکومت‘ جسے وہ ''امپورٹڈ ‘‘ قرار دیتے ہیں‘ کو گھر نہیں بھیج دیا جاتا۔
عمران خان اس سے قبل الزام عائد کر چکے ہیں کہ اپریل میں ان کی حکومت کو ایک ''بیرونی سازش‘‘ کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ اس دفعہ سازش اندرونِ ملک تیار کی گئی ہے‘ مگر اس میں بھی وہ عناصر شامل ہیں جنہوں نے بیرونی سازش میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ عمران خان نے ''بیرونی سازش‘‘ کے حوالے سے ایک جونیئر امریکی سفارتکار کی پاکستان کے سفارتکار کے ساتھ جس غیر رسمی اور آف دی ریکارڈ گفتگو کو سازش کا نام دیا تھا‘ اس سے ان کے اور ان کی پارٹی کے ڈائی ہارڈ فالورز کے علاوہ نہ تو پاکستان اور نہ دنیا میں کسی نے اتفاق کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ''بیرونی سازش‘‘ کی اس تھیوری کی بنیاد پر اتنا پاور فل بیانیہ تشکیل دیا کہ اس نے پی ٹی آئی کو ملک کی سب سے زیادہ پاپولر پارٹی بنا دیا ہے۔
کیا عمران خان اپنے خلاف مبینہ طور پر دوسری ''سازش‘‘ کی بنیاد پر بھی ایک ایسا پاور فل بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ جس کے سامنے ادارے جھک جائیں گے اور موجودہ حکومت کا بوریا بستر گول ہو جائے گا؟ پاکستان کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں سے حکومتیں رخصت نہیں ہوتیں۔ 2014ء میں بھی عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد ''آزادی مارچ‘‘ کے نام سے جلوس نکالا تھا اور وفاقی دارالحکومت میں 126 دن کا دھرنا دیا تھا‘ لیکن اس سے نواز شریف کی حکومت نہیں گری تھی۔ اگر انہیں (نواز شریف کو) اقتدار سے باہر کیا گیا اور عمر بھر کیلئے سیاست میں حصہ لینے کیلئے نااہل کیا گیا‘ تو اس کی ایک وجہ عمران خان کی حمایت میں طاقتور حلقوں کا گٹھ جوڑ تھا‘ جو اب موجود نہیں بلکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حلقے موجودہ حکومت کا ساتھ دینے پر رضا مند ہیں۔ اس کا گزشتہ چار ماہ میں متعدد بار مظاہرہ بھی ہو چکا ہے۔
اب اگر عمران خان کی کال پر ریڈ زون میں داخل ہو کر اسلام آباد کو بلاک کرنے کی کوشش کی گئی تو نہ اگست 2014ء اور نہ 2017ء کی تاریخ دہرائی جائے گی‘ جب پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کو پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی تھی‘ یا فیض آباد کے دھرنے کو منتشر کرنے کیلئے سکیورٹی کے دیگر اداروں کو پولیس کی امداد کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ حالات و واقعات‘ خصوصاً چیئرمین عمران خان کے لب و لہجے میں تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین پر واضح کر دیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے (آئین اور قانون کے مطابق) مقتدرہ کی پوری اعانت حاصل ہو گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ 13 اگست کے جلسے کو اسلام آباد کے بجائے لاہور میں منعقد کیا گیا اور پارٹی کے روڈ میپ میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کے بجائے‘ ملک کے بیشتر شہروں میں جلسوں کا اعلان کیا گیا۔ پُرامن جلسے ہر پارٹی کا جمہوری اور قانونی حق ہیں‘ اس لیے حکومت پی ٹی آئی کے روڈ میپ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے گی‘ لیکن اگر جلسوں کو ریڈ زون میں کسی دھرنے کی شکل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو لازمی امر ہے کہ وفاقی حکومت اسے روکنے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔
2014ء کے مقابلے میں ایک اور لحاظ سے پی ٹی آئی کا ٹائیگر 2022ء میں کمزور نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ 3 اپریل کی رات کو آئین کی دفعات اور سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے خلاف اس وقت کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے اقدام کو آئین کی خلاف ورزی‘ بلکہ اسے سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر اپنے تفصیلی اور تحریری فیصلے میں سپیکر‘ وزیراعظم اور صدرِ مملکت کو بھی اس میں شریک قرار دیا ہے‘ بلکہ بینچ کے ایک فاضل رکن نے اس اقدام کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت قابلِ تعزیر قرار دیا۔ فیصلے کی روشنی میں مقدمہ درج ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا اور غالباً واحد موقع ہے کہ ایک وزیراعظم‘ صدر‘ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت اپنے دامن پہ لگے اس داغ کو دھو نہیں سکتی اور یہ فیصلہ تاریخ کا حصہ بنا رہے گا۔
اس فیصلے سے کہیں زیادہ کاری ضرب پی ٹی آئی کو ممنوعہ پارٹی فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے سے لگی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان چیف الیکشن کمشنر پر جو مرضی الزام عائد کریں‘ ان کو کسی حلقے میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ متفقہ فیصلہ ایک آئینی ادارے کی طرف سے آٹھ سال کے عرصے پر محیط تفتیش اور جانچ پڑتال کے بعد سنایا گیا ہے۔ پچھلے دنوں خان صاحب نے کہا تھا کہ انہیں موجودہ الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں۔ انہوں نے آئندہ انتخابات سے پہلے اس کی تحلیل کا مطالبہ کیا تھا۔ اپنے اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انہوں نے الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان بھی کیا مگر اس سے وہ نہ تو الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لا سکے اور نہ وہ کمیشن کا فیصلہ رکوا سکے۔فیصلے میں پارٹی کے چیئرمین کو جن غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا مرتکب قرار دیا گیا ہے‘ ان کی وجہ سے عمران خان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے خان صاحب کو نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔ متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے خلاف مقدمات تیار کر رہے ہیں۔ خان صاحب اپنے جارحانہ رویے سے اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ سپریم کورٹ کے فل بینچ کے متفقہ فیصلے (3 اپریل 2022ء) اور الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین وہ ہائی مورل گراؤنڈ کھو چکے ہیں جس کی بنیاد پر وہ اپنے آپ کو اپنے سیاسی حریفوں کے مقابلے میں بہتر سمجھتے تھے۔
ظاہر ہے کہ اس صورت میں عمران خان کے پاس جلسے جلوسوں کے ذریعے شو آف پاور کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا‘ لیکن اس سے اداروں کے دباؤ میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ نہ ہی اس سے حکومت (وفاقی) گر سکتی ہے‘ کیونکہ معیشت کی بہتری سے سیاسی استحکام کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے امداد کی اقساط جاری ہونے کے بعد شہباز شریف کی حکومت کے مزید مستحکم ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان جلسے جلوسوں کے ذریعے نہ تو وفاقی حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں اور نہ اسے عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں‘ لیکن سیاسی غیر یقینی کی فضا سے معیشت، لا اینڈ آرڈر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved