بے دم وبے جان ہوتے پاکستان میں دوبارہ جان، حُبِ جاہ وحشم میں جکڑے ہوئے حکمران کبھی نہ ڈال پائیں گے۔ اس ایک ڈیڑھ فیصد اشرافیہ وسیاسیہ سے جتنی امیدیں تھیں وہ انہوں نے 66 سالہ سفر میں تاراج کر دیں۔ ثابت کیا کہ ان کی ساری صلاحیتیں‘ ساری توانائیاں‘ ساری توجہ صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنے پر ہے۔ وہ تجوریاں جو ملک اور بیرون ملک فیکٹریوں‘ کاروباروں اور اکائونٹس کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں۔ غضب خدا کا‘ ایک طرف عوام کی رسوائی اور خوف کیلئے قدم قدم پر ناکے ہیں‘ دوسری طرف اربوں کھربوں کے سفید پوش، قلم کے ایک دستخط، ایک ڈائریکٹو والے ڈاکے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب ایک ڈیڑھ فیصد اشرافیہ وسیاسیہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو اس میں صرف سیاستدان نہیں آتے بلکہ سیاستدانوں سمیت بیوروکریٹ، صحافی، بزنس مین اورہر وہ شخص شامل ہوتا ہے جو عوام کی زندگیوں پر اثرانداز ہو سکتا تھا اور ان 66 سالوں میں ایسا اثر انداز ہوا کہ عوام ونظام کو بالکل ہی بے کار وبے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کا نتیجہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ ریاست کے بے جان گھوڑے میں جان یہ نیم مردہ عوام ہی ڈالیں گے کہ 66 برسوں سے 24/7ٹھوکریں کھاتے عوام میں سچ پوچھیں تو آج بھی بہت جان ہے ۔ شخصیت پرستی کی علّتوں میں گوڈے گوڈے گھرے ہونے کے باوجود عوام اتنے بھی احمق نہیں جتنا ان کے بارے میں تاثر پایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برادری ازم اور پارٹیوں کے آپسی میل ملاپ اور جوڑ توڑ کا بھی بے حد اثر رہا ضمنی الیکشن کے نتائج پر لیکن کئی جگہ نہایت واضح انداز میں ،عام انتخابات میں جس نے جس کو ووٹ دیا تھا، اس مرتبہ اسے ووٹ نہ دے کر اس سے مایوسی کا اظہار بھی کیا۔ ورنہ عمران خان صرف دو ماہ کے عرصے میں سونامی سے بدنامی میں نہ منتقل ہو جاتے اور ان کی دو جیتی ہوئی نشستیں ان کی پارٹی کبھی نہ ہارتی۔ تمام تر آنیوں جانیوں کے باوجود شہباز شریف اور ذوالفقار کھوسہ کو صرف دو ماہ قبل اپنی جیتی نشستیں ناکامی کا داغ لے کر مخالفوں کی جھولی میں ڈالنا پڑ گئیں۔ ذوالفقار کھوسہ کا تو خاندانی اختلاف ان کا سیاسی کام تمام کر گیا مگر شہباز شریف کی چھوڑی نشست پہ تو کوئی خاندانی اختلاف نہ تھا۔اسی طرح فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے بعدایم کیو ایم کی واضح فتح پر الطاف حسین صاحب کا عوام کو ’’پردے میں رہنے دو‘‘ جیسا نیا آئٹم نمبر دینا تو ضرور بنتا ہے۔تمام تر جوڑ توڑ اور کوششوں کے باوجود مخالف شازیہ مری کو نہ ہرا سکے سو پیپلز پارٹی کوماضی سمجھنے والوں کیلئے بھی اس الیکشن میں کئی نشانیاں ہیں۔ خود پیپلز پارٹی کیلئے بھی اس میں ایک پیغام پوشیدہ ہے۔ ویسا ہی پیغام جیسا بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو دیا تھا جس کا مفہوم تھا کہ ’’میں تمہیں عوام کی حمایت سونپ کر جا رہا ہوں اور طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں…‘‘ خصوصاً اس وقت طاقت کے مزے لوٹتی ن لیگ اور عمران خان کیلئے پیغام بہت واضح ہے کہ عوام کو نعرے، دعوے اور آنیاں جانیاں نہیں، مستقبل میں ٹھوس کام اور کارکردگی ہی متاثر کر سکے گی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر واضح ہے کہ حکمران تو جو کامیاب ہوئے سو ہوئے عوام کا ’’شعور‘‘ بھی کامیاب ہوتا نظر آیا۔میاں شہباز شریف سے لے کر عمران خان اور برادرِفضل الرحمن تک کی شکست صاف ثابت کرتی ہے کہ یہ سیاستدان اگر عوام سمیت کسی کے نہیں ہوتے، خصوصاً عوام کے کبھی بھی نہ ہو سکے تو عوام بھی ان میں سے کسی کے نہ ہوں‘ گے کم ازکم ان کے تو ہر گز نہ ہو ں گے جن کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ عوام نے ثابت کیا کہ مانا وہ اس سے زیادہ اس وقت کچھ نہیں کر سکتے مگر جو کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں گے۔ عوام کے نزدیک عمران خان سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک اور بلور خاندان سے لے کر میاں شہباز شریف تک کوئی مقدس ہستی نہیں۔ کسی کو بھی جب چاہیں گے کارکردگی کی بنا پر سر پر بٹھائیں گے اور جب کارکردگی پسند نہ آئے گی توزمین پر دے ماریں گے۔ جیسے ناکارہ ونااہل لوگوں کو وقت، بقول اقبال، ثریا سے زمین پر دے مارتا ہے… سو‘ سچ پوچھیں تو اس الیکشن میں سب کے لیے پیغام ہے۔ ن سے لے کر عمران خان تک‘ زرداری سے الطاف حسین تک سب کو کچھ نہ کچھ ملا ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر عوام کا موڈ اور مزاج کہ آنے والے وقتوں میں چاہے نواز شریف ہوں یا عمران خان، الطاف حسین ہوں‘ زرداری صاحب یا فضل الرحمن جو کارکردگی کا کمال دکھائے گا وہی عوام کے من میں بس جائے گا اور ووٹ کا حقدار قرار پائے گا۔ یقینا برادری ازم‘ جوڑ توڑ کی مکروفریب والی سیاست کا عفریت ابھی کئی دہائیاں سروں پر سوار رہے گا مگر یہ طے ہے کہ گراں خواب چینیوں کی طرح گراں خواب عوام بھی اب سنبھلنے لگے ہیں۔ عوام کو ضمنی الیکشن میں خود کو سب کچھ سمجھنے والے کئی سیاستدانوں کو رد کرنا مبارک ہو کہ ایسی ٹھوکریں لگانے سے ہی امن وخوشحالی کے چشمے پھوٹا کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved