بر صغیر پاک و ہند کے عوام نے لگ بھگ سو سال برطانوی راج کے زیرِ سایہ گزارے ہیں۔ برصغیر میں تعینات کیے گئے وائسرائے برطانوی شہریت رکھتے تھے اور ملکہ برطانیہ اور برطانوی حکومت کے احکامات کے مطابق پالیسیاں بناتے تھے۔ مقامی راجے، مہاراجے اور مکھیا وغیرہ ان احکامات پر عمل درآمد کرانے کے پابند ہوتے تھے۔ برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اب یہ خطہ برطانیہ کے بجائے ہندوستان ہی سے چلایا جائے گا لیکن آج بھی سرحد کے دونوں اطراف کے خطے کے بارے میں یہی سننے میں آتا ہے کہ ان کے فیصلے آج بھی مقامی سطح پر نہیں بلکہ کہیں اور ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو بظاہر یہ ملک وزیراعظم صاحب اور ان کی کابینہ ہی چلا رہے ہیں لیکن لندن میں مقیم میاں محمد نواز شریف وزیراعظم اور وزیرخزانہ کو احکامات دے رہے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے سربراہ بھی لندن بیٹھ کر پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کی پالیسیاں طے کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں اب ایسی مثالیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں جہاں ایک ملک کی سیاسی قیادت دوسرے ملک میں بیٹھ کر وڈیو لنک اور ٹیلی فون کے ذریعے حکومت کر رہی ہو بلکہ حال ہی میں حالات کہیں زیادہ گمبھیر دکھائی دیے جب پوری وفاقی کابینہ اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے برطانیہ تشریف لے گئی۔ پاکستان کے بجائے اگر کسی اور ملک کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے تو پڑھے لکھے نوجوان اسے بالکل تسلیم نہ کریں گے اور شدید ردعمل سامنے آئے گا لیکن پاکستان میں شاید ابھی تک اس سیٹ اَپ کی قبولیت کے آثار زیادہ ہیں۔ اس لیے تاحال اس ایشو پر احتجاج کی صورتحال پیدا نہیں ہو رہی اور یہ مطالبہ دبا ہوا ہے کہ اگر پاکستان پر حکمرانی کرنے کی خواہش ہے تو سیاسی قیادت کو پاکستان میں آکر اور اس کے نظام کا سامنا کر کے اپنی اس خواہش کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اطلاعات یہ ہیں کہ شاید ایک اور لندن پلان تیار کیا جا رہا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ایک اہم شخصیت کی برطانیہ میں موجودگی، شیخ رشید کا ہنگامی طور پر بیرونِ ملک روانہ ہونا اور میاں نواز شریف کا ستمبر میں واپس آنے کے اشارے دینا بلاوجہ نہیں ہے۔ ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ لندن کا ہماری سیاست میں خاص مقام رہا ہے۔ حکومتیں بنانے اور توڑنے کے پلان وہاں بنتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کی حکومت گرانے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے نواز شریف اور بینظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت بھی برطانیہ میں ہی طے پایا تھا۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی 2013ء میں بننے والی سرکار کے خلاف دھرنوں کا پلان بھی مبینہ طور پر لندن ہی میں طے پایا تھا۔ ماضی کے واقعات کا بہترین استعمال یہ ہو سکتا ہے کہ ان سے کچھ مثبت سیکھا جائے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر سیاسی اپروچ نہ بدلی گئی تو ملک کی معاشی حالت بھی تبدیل نہیں ہو گی۔ ایک بحران سے نکلنے کے بعد ملک و قوم کو اگلے بحران کا سامنا رہے گا۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ مالی سال 2021-22ء کے اختتام پر پاکستان کے واجب الادا قرضے 60 ٹریلین روپوں تک پہنچ چکے ہیں جو پچھلے مالی سال کی نسبت تقریباً 25 فیصد زیادہ ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً سات ارب ڈالرز کی سطح تک گر گئے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی برآمدات کا تقریباً ستر فیصد ہیں مگر پچھلے تین ماہ میں چار سو زائد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ تقریباً چالیس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ موجودہ مالی سال میں ٹیکسٹائل برآمدات میں تین ارب ڈالر کی کمی کا خدشہ ہے۔ ڈالر ریٹ کم ہونے اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باوجود حکومت نے پٹرول کی قیمت میں تقریباً پونے سات روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اگر عالمی سطح پر پٹرول کی قیمت ایک سو دس ڈالر فی بیرل کے قریب ہوتی‘ جیسا کہ ماضی میں رہی ہے‘ اور ملک میں ڈالر کی قیمت 240 روپے یا زیادہ ہوتی‘ جو آج سے تین ہفتے قبل تھی‘ تو شاید پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں مزید 100 روپے فی لٹر اضافہ کر دیا جاتا۔ اس وقت مہنگائی کی شرح پہلے ہی 25 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور عوام کی قوتِ خرید مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک ہے جس کے مستقبل قریب میں شدید منفی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ البتہ دوسری طرف کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ پاکستان کی متحدہ عرب امارت کو کی جانے والی برآمدات میں تقریباً 16 فیصد کا اضافہ ہوا ہے لیکن سعودی عرب اور کویت کو برآمدات میں کمی ہوئی ہے‘ شاید اسی کا اثر متحدہ عرب امارات میں دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ قطر کے ساتھ برآمدات میں بھی 31 فیصد اور بحرین کے ساتھ برآمدات میں پچھلے سال کی نسبت تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ بہتری تحریک انصاف کے دور میں آئی۔ اگر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کی معاشی پالیسی میں برآمد کنندگان کو خصوصی اہمیت دی گئی تھی جبکہ موجودہ حکومت ابھی تک برآمد کنندگان کے مسائل سننے اور ان کے حل کی طرف جانے کا کوئی مؤثر منصوبہ نہیں بنا پائی۔
برآمدات بڑھانے کے لیے موجودہ وقت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ چین اس وقت معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے بڑے نام تنزلی کا شکار ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں خرابی کے باعث برآمدات میں کم ہوئی ہیں جن میں ٹیکسٹائل برآمدات سر فہرست ہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو اگر مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو چین سے متعلق کچھ بڑے آرڈرز پاکستان کے حصے میں آ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور توانائی بحران کے باعث مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ جس کے باعث وہ ٹیکسٹائل کے بیرونی آرڈر پورے کرنے سے قاصر ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ گو کہ پاکستان میں بھی توانائی بحران بہت زیادہ ہے لیکن بروقت اور درست فیصلوں سے اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایران اور امریکہ کی نیوکلیئر ڈیل کی خبریں بھی پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس سے عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان ایران سے سستا تیل خرید کر روپے پر دبائو کم کر سکتا ہے۔ انڈسٹری کو کم ریٹ پر بجلی بھی فراہم کی جا سکتی ہے جس سے جی ڈی پی میں اضافہ ہو سکتا ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور برآمدات بڑھنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا اسی وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب حکمران عوام کو ریلیف دینے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے بڑھانے کے فیصلے پر حکومت کی خاموشی اور وزیر خزانہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے عوامی حلقوں کو کافی مایوس کیا ہے۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ٹیکسٹائل برآمدات بڑھنے کی بڑی وجہ درست موقع پر درست فیصلہ کرنا تھی۔ کورونا کے باعث چین اور بنگلہ دیش خاصے متاثر ہوئے جس پر پی ٹی آئی حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی اور کپاس کے ریٹ چین، بھارت اور بنگلہ دیش کے برابر کر دیے اور اس کا فائدہ پاکستانی معیشت کو ہوا۔
موجودہ حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے کے بجائے بینکوں اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسز کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سے نہ تو جی ڈی پی بڑھنے کی امید ہے اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ بینک پہلے ہی ریکارڈ منافع کما رہے ہیں۔ خوشحال شعبوں کو مزید خوشحال کرنا اور ملکی برآمدات کے ستر فیصد حصے کو نظر انداز کرنا بہتر پالیسی نہیں ہو سکتی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اپنوں کو نوازنے کے بجائے ملکی مفاد میں فیصلے کرے۔ یہ ملک مزید غلط فیصلوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved