کیسی کیسی شاعری، کیسے کیسے نادر ارشادات۔ اقبالؔ نے سچ کہا تھا ۔ حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے قیام پر میاںرضا ربّانی کے تلخ اعتراضات نے مجھے حیرت زدہ کر دیا ۔وہ قائد اعظمؒ کے اے ڈی سی ، قابل ِصد احترام عطا ربانی کے صاحبزادے ہیں۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ معاملات آئین کے تحت ہوتے ہیں ۔ دو سیاسی لیڈروںکی مفاہمت میں نہیں ۔ پرویز رشید نے سچ کہا: حالات بدل جائیں تو حکمتِ عملی بھی بدل جاتی ہے۔ الّا ماشاء اللہ ہماری سیاسی قیادت ماضی میں زندہ ہے ۔ پیپلز پارٹی نے سوات اور وزیرستان کو جنرل کیانی پر چھوڑ دیاتھا۔ اب اعتراض کیوں ہے ، جب کہ کمیٹی کے سربراہ وزیر اعظم ہیں اور فیصلہ مشاورت سے ہوگا۔ رضا ربانی کو مطالبہ یہ کرنا چاہیے تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو بھی شامل کیا جائے۔ بزعم خود ایک نامور مفکر نے بھی اس کمیٹی کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے ۔ اسی دانشور نے ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا : ضمنی الیکشن کے نتائج سے ثابت ہوا کہ تحریکِ انصاف کی طرف سے 11مئی کو دھاندلی کاالزام غلط ہے ۔ کیسے غلط ہے ؟ خود انہی کا ارشاد ہے کہ عمران خاں کی خالی کردہ دونوں سیٹوں پر پارٹی کمزور امیدواروں کی وجہ سے ہاری ۔ کپتان کا وہی احمقانہ مفروضہ کہ ووٹ صرف پارٹی کے ہوتے ہیں ، امیدوار کے نہیں۔بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اب کی بار نگرانی فوج کے سپرد تھی۔ 11مئی کویہ ممکن ہی نہ تھا ۔ 80ہزار پولنگ سٹیشنوں کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار افسر درکار ہوتے جب کہ فوجی افسروں کی کل تعداد 25000ہے ۔ تب الیکشن کمیشن نے فوج کو اختیارات دینے سے بھی انکار کیا تھا۔ بزرگ چیف الیکشن کمشنر کا حال یہ تھاکہ دو گھنٹے چیف آف آرمی سٹاف سے با ت کرتے رہے اور جب وہ رخصت ہونے لگے تو کہا ’’جنرل اشفاق پرویز کیانی کو میرا سلام کہیے گا‘‘۔ کئی ملاقاتیں اوربھی ہوئیں ۔ جنرل کیانی سمیت مختلف سرکاری شخصیات نے جتنی تجاویز جناب فخر الدین جی ابراہیم کی خد مت میں پیش کیں ، وہ سب ان کی جیب میں پڑی رہ گئیں ۔ ایک موقعے پر جنرل کیانی سے انہوںنے یہ کہا کہ وہ ریٹرننگ افسروں کو ہدایات جاری نہیں کر سکتے کہ عدلیہ سے ان کا تعلق ہے ۔ ان کے اس ارشاد سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری واضح کر چکے تھے کہ عدالتی افسر اب الیکشن کمیشن کے ماتحت ہیں اور وہی جواب دہ ۔ دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے کی دھاندلی ۔ انگوٹھوں کے نشان جانچے گئے تو بہت سے انکشافات ہوں گے ۔ ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ بہت سے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشان موجود ہی نہیں، محض سیاہی کا ایک دھبّہ ۔ نتائج قوم نے قبول کر لیے ہیں ۔ ملک نئے انتخاب کا متحمل ہے اور نہ کسی طویل احتجاجی تحریک کا۔ غلطی بڑی ہو یا چھوٹی ، لازم یہ ہوتاہے کہ اس پر غور کیا جائے ۔ آئندہ کے لیے تدارک کیا جا ئے ۔ جو لوگ تنازعے کو اخباری پروپیگنڈے سے اڑا دینا چاہتے ہیں ، وہ جمہوریت کے خیر خواہ ہرگز نہیں ۔ کچھ تو بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔ کچھ فائدہ اٹھانے والے فریق۔ ان کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ صاحبِ معاملہ کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ فیصلہ ثالث کر سکتے ہیں یا عدالت۔ یہ سامنے کی بات ہے مگر اس کی سمجھ میں کیسے آ سکتی ہے ، جو جذبات یا تعصب سے مغلوب ہو ۔ قرآنِ کریم پڑھنے اور سننے کے لیے رہ گیا ہے یا رمضان المبارک میں ٹی وی پر کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ، وگرنہ وہ آیت ان کی رہنمائی کرتی ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی پر آمادہ نہ کرے‘‘۔ ایک واقعے نے بہت دکھ پہنچایا ۔ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن باہم جب بچوں کی طرح لڑ رہے تھے تو خان نے کہا: ابھی تو ہم مولانا فضل الرحمٰن کا پھیلایا ہوا گند صاف کر رہے ہیں ۔ اس پر مولوی صاحب نے ایک جلسہ ء عام میں کہا : ہم تو قرآن اور اسلام کے ماننے والے ہیں ۔ کیا اس سے گند پھیلتاہے ؟ درحقیقت ان کے الفاظ اس سے بھی زیادہ سخت اور مضحکہ خیز تھے ۔ ایک حکمران جماعت کی کارکردگی زیرِ بحث تھی ، اسلام اور قرآن کی حقانیت نہیں ۔ استثنیٰ تو صرف سرکارؐ تھے ۔ وہ مجسم قرآن تھے ۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا تو فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ قرآن ہی ان کا کردار تھا ۔ چالیس برس تک ملّا کے خلاف اقبالؔ بے سبب فریاد نہ کرتے رہے۔ ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں معاملے کا ایک پہلو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ فوج کی نگرانی میں شفاف الیکشن سے ثابت ہوا کہ وہی ایک ادارہ بچ رہاہے ، گاہے جس سے دیانت کی امید کی جا سکتی ہے ۔ کیا یہ بات شرمناک نہیں ؟ 11مئی کو کراچی میں جو تماشا ہوا، پوری قوم اس کی گواہ ہے ۔ ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کی کامیابی پر اب دعویٰ یہ ہے کہ اس روز بھی دھاندلی نہ ہوئی تھی ۔ دھاندلی ہوئی تھی اور بڑے پیمانے پر۔ حالات اس قدر بگڑے کہ ایک مرحلے پر رینجرز نے سی آئی ڈی کے مشہور افسر چوہدری اسلم کو گرفتاری کی دھمکی دی جو آقائوں کی خدمت بجا لا رہے تھے ۔ بعض پولنگ سٹیشنوں پر پریزائڈنگ افسر ہی نہ پہنچے ۔ عملہ ہی غائب تھا۔ ایک خاتون ٹی وی میزبان نے ووٹوں پر جعلی مہریں لگانے والوں کو سکرین پر دکھا دیا، جس کی بھاری قیمت اسے ادا کرنا پڑی۔ روتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے اس نے شکایت کی تو جواب یہ ملا کہ وہ ان کے لیے دعا کریں گے ۔ کیا کسی مبصر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم کا وجود مٹ چکا اور آئندہ وہ جیت نہیں سکتی ؟ انصاف پسند تجزیہ نگاروں نے بتایا تھا کہ تحریکِ انصاف کراچی میں ایک متبادل قوت بن کے ابھر ی ہے اور چند سیٹیں آسانی سے جیت سکتی ہے ۔ دو تین جماعتِ اسلامی بھی ، جس نے زچ ہو کر بائیکاٹ کر دیا۔ ایک حلقے میں چند پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل روکا گیا اور چند دن بعد انجام دیا گیا تو تحریکِ انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی جیت گئے ۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے ٹی وی کیمروں کے سامنے خود تسلیم کیا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں وہ منصفانہ الیکشن نہ کرا سکے ۔ تاویل در تاویل کی گرد اڑا کر حقائق چھپانے کی کوشش جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں ۔ الجھنیں اگر سلجھائی نہ گئیں‘ الیکشن کمیشن کی اگر تشکیلِ نو نہ کی گئی اور ضمانت نہ دی گئی کہ آئندہ الیکشن شفاف ہوںگے تو ٹھیک اْس مرحلے پر فساد اٹھے گا۔ غلطیوں سے نہیں ، انسان غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ ورق تمام ہوا اور موضوعات باقی ہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں قیاس آرائی ہے کہ سبکدوشی کے بعد وہ قومی سلامتی کے مشیر بنائے جا سکتے ہیں ۔ افواہ ہے ، محض افواہ ۔ جنرل کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی پیشکش انہیں ملی ہی نہیں ۔ ملی تو قبول نہ کریں گے ۔ جنرل چلا جائے گا تو قوم کو خبر ہو گی کہ اس پائے کا کوئی شخص اب پاکستانی فوج میں موجود نہیں ۔ ایسا صبر و قرار، ایسی بے تعصبی اور ایسی ہوش مندی شاذ و نادر ہوتی ہے؛ اگرچہ تاریخ کسی شخص پر حتمی فیصلہ تب صادر کرتی ہے ، جب اس کا عہد تمام ہو جائے ۔ سبکدوشی کے بعد بھی انہیں غیر معمولی خطرات میں گھری قوم اورسنگین چیلنج سے دوچار حکومت کی مدد کرنی چاہیے ۔ سرکاری منصب جنرل کی تحقیر ہو گی ۔ اگر وہ اسے قبول کریں تو خود اپنے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوں گے ۔ ہیرو نوکری نہیں کیاکرتے ۔ کیسی کیسی شاعری، کیسے کیسے نادر ارشادات۔ اقبالؔ نے سچ کہا تھا ۔ حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved