سیانے کہہ گئے ہیں کہ کچھ بھی مانگنے سے پہلے بہت سوچنا چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور جان پر بن آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے نتیجے میں جو کچھ قدرت کی طرف سے ہمیں مل رہا ہو‘ وہ کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے اُسے وصول کرنے اور کھپانے کی کیا تیاری کی ہے۔ اُستاد قمرؔ جلالوی کہہ گئے ہیں ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
کراچی کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ گرمی اور حبس کے ستائے ہوئے لوگ بارش کی دعائیں مانگتے نہیں تھک رہے تھے۔ اور بادل تھے کہ برسنے کا نام نہ لیتے تھے۔ گھٹائیں چھاتی تھیں مگر برسے بغیر گزر جاتی تھیں۔ کسی نے خوب کہا ؎
پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
کچھ ایسا ہی معاملہ کراچی کا تھا۔ اہلِ کراچی یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید قدرت بادلوں کو نہ برسنے کا حکم دے کر اپنی ناراضی ظاہر کر رہی ہے۔ دعائیں کی جاتی رہیں۔ اور آخرِکار اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آ گئی۔ اب کے ایسی بارشیں ہوئیں کہ اہلِ کراچی کی جان پر بن آئی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ؎
کرکے دیکھے کوئی ہزار جتن
دل سنبھالے کہاں سنبھلتا ہے
2019ء میں بھی قیامت خیز بارشوں نے کراچی کا رخ کیا تھا۔ تب ایک دن تو ایسا بھی گزرا کہ شہرِ قائد کے مکینوں پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ محض چار پانچ گھنٹوں کی بارش نے ایسی غضب ناک کیفیت پیدا کی کہ اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کو کراچی آکر دلاسا دینا پڑا کہ شہرِ قائد کو خصوصی پیکیج کے ذریعے اتنا بہتر بنایا جائے گا کہ لوگ یہاں ڈھنگ سے جینے کے بارے میں سوچتے ہوئے بالکل نہ گھبرائیں۔ تب کراچی کی کاروباری برادری کو خصوصی طور پر یقین دلایا گیا تھا کہ 1100 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کے ذریعے شہر کو نئی زندگی دینے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ان وعدوں اور یقین دہانیوں پر بہت سوں نے سوچا ؎
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی‘ خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
یہ خدشہ درست نکلا۔ وعدہ کرنے والے چند ماہ میں بھول بھال گئے کہ اِس ملک میں کراچی نام کا کوئی شہر بھی ہے۔ غیر معمولی بارشوں سے ہونے والی ہولناک تباہی کے باوجود کراچی کے معاملات درست کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہم نے گزشتہ برس بھی دیکھا اور بھگتا اور اب کے تو حد ہی ہوگئی ہے۔ بارشیں غیر معمولی ہیں مگر اب یہ کوئی بہت حیرت انگیز معاملہ نہیں رہا۔ محکمۂ موسمیات جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کافی حد تک درست پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سبھی کو اندازہ تھا کہ اب کے مون سون غیر معمولی ہوگا۔ جب محکمۂ موسمیات بھی بہت کچھ بتاچکا تھا تب ہی چند بنیادی تیاریاں کر لی جانی چاہیے تھیں۔ ماضی قریب و بعید کے کسی بھی ہولناک تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور معاملات کو اپنے طور پر درست ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ایسی روش پر گامزن ہونے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا‘ وہی برآمد ہوا۔ کراچی اس وقت انتہائی قابلِ رحم حالت میں ہے۔ دنیا کو بتایا جائے تو اُسے یقین نہیں آئے گا کہ یہ وہ شہر ہے جو قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملکی معیشت کو مستحکم رکھنا ہے تو کراچی کو درست حالت میں رکھنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر قومی معیشت کو ڈھنگ سے چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سرِدست حالت یہ ہے کہ کراچی سے صرف کمانے اور نچوڑنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے‘ اِسے کچھ دینے کے بارے میں نہیں۔
شہر کے سٹیک ہولڈرز ہونے کے دعویدار صرف سیاسی فوائد بٹورنے میں مصروف ہیں۔ اُنہیں بظاہر اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ کراچی میں بسے ہوئے عام آدمی کو کچھ مل پاتا ہے یا نہیں۔ وہ اپنے اپنے مفادات سے غرض رکھتے ہیں اور اگر کچھ فرصت نصیب ہو تو آپس میں جھگڑ کر تماشا کھڑا کرتے ہیں۔ سیاسی میلے کی رونق بڑھانے پر تو توجہ دی جاتی ہے، بنیادی مسائل حل کرنے پر ذرا بھی توجہ نہیں جاتی۔ کراچی کے معاملات بہتر بنانے کے حوالے سے اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ صرف وفاق ہے۔ اگر شہرِ قائد کو ترجیحات میں رکھا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کب اِس شہر کے بارے میں واقعی سنجیدگی اختیار کی جائے گی۔ معاملہ یہ ہے کہ ؎
اُدھر اُنہیں نہیں فرصت نظر اٹھانے کی
اِدھر زمانہ قیامت کے انتظار میں ہے
کم و بیش دو سال تک پورا ملک کورونا کی وبا کے سبب غیر معمولی معاشی نقصان برداشت کرتا رہا۔ امید تھی کہ رواں سال معاملات بہتر ہوجائیں گے یعنی معیشت اپنی ڈگر پر واپس آجائے گی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ معاشی خرابی نے ملک کو شدید ترین بحران سے دوچار کر دیا۔ حکومت کی تبدیلی سے بھی اب تک کچھ خاص حاصل نہیں ہوسکا۔ ایسا نہیں کہ صرف کراچی ہی کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں حکومتی و انتظامی سطح پر سنگین غلطیاں کی جارہی ہیں، مجرمانہ نوعیت کی غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ حکمرانی کا معیار ملک بھر میں گرا ہوا ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ وہاں بارشوں نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ دیکھے تو دل دَہل جائے۔ وہاں بھی صوبائی حکومت اپنے حصے کا کام کرنے میں ناکام رہی۔ پنجاب میں بھی بارشوں کے سبب اچھی خاصی تباہی رونما ہوئی۔ اب کے بارشوں نے ملک کے کسی بھی حصے کو معمول کی حالت پر رہنے نہیں دیا۔ کراچی کا معاملہ زیادہ سنگین اور پریشان کن اس لیے ہے کہ اس شہر کی حالت بگڑنے سے پورے ملک کی معاشی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ بندر گاہ پر کام متاثر ہونے سے ملک بھر میں مال کی ترسیل رک جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی چین میں خلل سے بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات بالائے فہم ہے کہ شہرِ قائد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر پھر بھی اِس کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ حد تک سنجیدگی اختیار نہیں کی جا رہی۔
کراچی سمیت سندھ بھر کے معاملے میں آخر کس بات کا انتظار کیا جارہا ہے؟ معاملات کو اس قدر ڈھیلا کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ صوبائی حکومت کو کراچی کی حالت بہتر بنانے کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے وفاق اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھا رہا؟ ملک بھر کے لیے روزگار کے سب سے بڑے ذریعے کا درجہ رکھنے والا شہر بے یار و مددگار پڑا ہے۔ شہری اپنی مدد آپ کے اصول کی بنیاد پر اپنے لیے بہتر زندگی کا اہتمام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب کچھ کب تک چلے گا؟ جو کراچی سمیت ملک بھر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہیں کب ہوش آئے گا؟ مون سون کی بارشیں اب بھی جاری ہیں۔ حکومت کو ایک سے زائد مواقع پر عام تعطیل کا اعلان کرنا پڑا ہے تاکہ لوگوں کی پریشانی کچھ کم ہو۔ امتحانات تک منسوخ کیے گئے ہیں۔ یہ وقتی اقدام ضرور سہی مگر اِسے مسائل کا حل نہیں کہا جاسکتا۔ کراچی کو غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات جو مسائل کو حل کرنے میں معاونت کریں۔ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ لازم ہے کہ شہرِ قائد کے مکینوں کی بہبود کے حوالے سے سنجیدہ ہوا جائے۔ اس کے لیے غیر معمولی عزم اور اخلاص‘ دونوں ہی مساوی بنیاد پر درکار ہیں۔ دل کے بہلانے کو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے اُن میں اخلاص دکھائی دے رہا ہے نہ ہی وہ شہرِ قائد کے حوالے سے مثبت سوچ کے ساتھ واضح عزم ہی کے حامل ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved