جتنے ہاتھ پیر مارنے ہیں مار لیے جائیں‘ جو حربہ کتاب میں لکھا ہے استعمال کیا جائے۔ المیہ ہمارے مہربانوں کیلئے یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن تو انتخابات کرانے پڑیں گے۔ پھر جو حشر برپا ہوگا‘ تاریخ کے اوراق میں اُس پر کچھ نہ کچھ تو لکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سکون میسر نہیں ہو رہا۔ سروں پر انتخابات کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سال نہیں تو اگلے سال انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ بڑا معرکہ تو ہمیشہ کی طرح پنجاب میں ہوگا اور جیسا کہ ہم ضمنی انتخابات میں بھرپور طریقے سے دیکھ چکے‘ پنجاب کے حالات بدل چکے ہیں۔ نون لیگ کی بھاری موجودگی اب بھی ہے‘ اس سے انکار ممکن نہیں‘ لیکن اس کی گرفت کمزور پڑتی جار ہی ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ لاہور میں ضمنی انتخابات ہوں اور نون لیگ پِٹ جائے؟ لیکن ایسا ہوا اور سوگ کی چادریں یہاں سے لے کر لندن تک بچھ گئیں۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ نون لیگ کی قیادت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف اور اُن کے مبینہ جانشین دو متحارب گروپوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب تو ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے لیکن دونوں گروپ اس بات پر تو متفق ہیں کہ کسی حوالے سے عمران خان سے نجات حاصل کی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ اجتماعی جوش و جذبے کا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے۔ گانا تو اب بھی موجود ہے کہ 'میاں دے نعرے وجن گے‘ لیکن گانے میں وہ ترنگ نہیں رہی۔ اب کہیں بجتا ہے تو ہنسی سی آ جاتی ہے۔ سیاسی میدان میں عمران خان نہ ہوتے تو میاں صاحبان کے تسلط کو کون چیلنج کر سکتا تھا‘ لیکن ہمارے سوکھے دریاؤں میں بھی بہت سا پانی بہہ چکا ہے‘ حالات وہ نہیں رہے جو ہوا کرتے تھے۔ نون لیگ اب بھی جلسے تو کر سکتی ہے لیکن اُن میں وہ جوش نہیں رہا۔ پھیکے پھیکے لگتے ہیں‘ جلسوں کے انعقاد کیلئے بہت جتن کرنا پڑتے ہیں۔ کمبخت‘ عمران خان کے جلسوں کی اور ہی بات ہے۔ جلسے کا اعلان ہو جاتا ہے اور لوگ خود بخود اُمڈ آتے ہیں۔ پورے کے پورے خاندان پہنچے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ جلسے اور چیز ہیں اور ووٹ ڈالنا مختلف چیز ہے لیکن حالیہ ضمنی انتخابات نے یہ بات غلط ثابت کردی۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت جلسوں سے لے کر پولنگ بوتھوں تک پہنچ چکی ہے۔ بے چینی اسی وجہ سے ہے کہ عام انتخابات جب کرانے پڑیں گے تو پھر کیا ہوگا۔
ان مسائل کا حل مہربانوں کے پاس ہوا کرتا تھا لیکن وہاں بھی کچھ کام نرم پڑا ہوا ہے۔ ہر حربہ استعمال ہوا ان حالیہ ضمنی الیکشنوں میں‘ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا‘ بات نہیں بنی۔
عجیب مخمصے میں قوم پھنسی ہوئی ہے۔ کسی کو نہیں پتا آگے کیا ہونے والا ہے۔ نومبر میں کیا ہوگا‘ کچھ معلوم نہیں۔ افواہیں گردش کررہی ہیں لیکن پکی خبر کسی کے پاس نہیں۔ سال کے آخر میں کیا ہوگا‘ کچھ معلوم نہیں۔ اگلے سال کیا صورتحال ہوگی‘ اُس کا بھی کچھ پتا نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ معیشت کی ارتقا کیلئے استحکام کا ہونا ضروری ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ الیکشن کرائے بغیر استحکام کہاں سے آئے گا۔ چلیں اچھا ہے‘ قومی تضادات زیادہ تیز اور گہرے ہو رہے ہیں۔ جتنے گہرے ہوں گے بہتر ی کی اتنی ہی امید کی جا سکے گی۔ سیلاب کہیے یا طوفان‘ زور پکڑ رہا ہے اور جتنا روکنے کی کوشش کی گئی اس کی طاقت میں اُسی حساب سے شدت پیدا ہوگئی۔
جو بھرتی کے بٹھائے گئے ہیں‘ اُن کے چہروں سے ناامیدی چھلک رہی ہے۔ مرکزی سرکار تئیس تھانوں پر مشتمل ہے‘ بائیس تو ویسے ہیں اور زنانہ پولیس سٹیشن ملایا جائے تو تئیس بنتے ہیں۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ حالات ان کی گرفت میں نہیں۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ بیچارہ وزیر خزانہ ایک بات کہتا ہے اور لندن میں مقیم نواز شریف کیمپ کا کوئی رکن کچھ اور بات کہہ دیتا ہے۔ لمبی چوڑی کابینہ ہے‘ وزیروں کے نام کسی کو یاد نہیں۔ یاد ہوں بھی تو ان وزیروں میں کسی کی کیا دلچسپی۔ بس امید پہ گاڑی چل رہی ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا یا کسی طریقے سے عمران خان کو نااہلی کی زک پہنچے گی اور پھر میدان صاف ہو جائے گا۔ اس بات کا تکیہ یہ سب لوگ کررہے ہیں۔
ہم جیسوں کیلئے ایک بات اچھی ہوئی ہے۔ عمران خان کی حکومت چل رہی تھی تو بور ہو گئے تھے۔ خان کی ایک ہی تقریر وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر‘ انسان آخر کتنی بار سن سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں کوئی دم خم نہ تھا‘ بے جان پڑی ہوئی تھیں۔ ایک اچھی بات تو یہ ہوئی کہ مہربانوں نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے خالی غباروں میں ہوا بھرنی شروع کی۔ لٹکے ہوئے چہروں پہ کچھ رنگ روغن کا اہتمام ہوا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کامیاب ہوئی تو جیسے ایک نئے عمران خان پیدا ہو گئے۔ آواز میں کیا کھنک‘ تقریروں میں ایک نئی کاٹ۔ کہنے کو بہت کچھ مل گیا اور پھر خان مخالفین کی گت بنانے لگا۔ پاکستان کی مری ہوئی سیاست میں ایک نئی جان آ گئی۔ ہم جیسے جو ایک طرف بیزار بیٹھے ہوئے تھے‘ تماشا دیکھا تو ہمارے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے۔
عمران خان سے اتنی ہمدردی نہ تھی لیکن احساس تو تھا کہ خان کھڑا ہو گیا ہے اور ڈرنے کی بجائے ان کے لَتے لے رہا ہے۔ ہماری دلچسپی اس بات میں تھی کہ کوئی ہے جو للکار رہا ہے۔ نہیں تو یہاں جو ہوتا تھا‘ سب بیٹھ جاتے تھے اور حالات سے سمجھوتا کر لیتے تھے۔ نواز شریف کو لے لیجئے‘ اقتدار سے نکلے تو چند دن بڑھکیں ماریں‘ ووٹ کو عزت دو وغیر وغیرہ۔ جی ٹی روڈ پر نکلے تھے‘ اس امید سے کہ پنجاب ان کا استقبال کرے گا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ کامونکی اور مریدکے پہنچے تو عیاں ہو گیا کہ پنجاب کا کوئی موڈ نہیں اٹھنے کا۔ رات گئے داتا دربار پہنچے تو گلا بیٹھ چکا تھا اور امیدیں بھی ماند پڑ چکی تھیں۔ جیل ڈالے گئے تو افسردگی کے بادل گہرے ہو گئے۔ یہ تو بھلا ہو مہربانوں کا کہ حیلے بہانوں کی مدد سے قائدِ انقلاب کو لندن پہنچا یا گیا۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہی اُن میں نئی پھرتی آنا شروع ہو گئی۔ لندن بیٹھ کر انہوں نے کچھ للکارے دیے۔ ایک دو جلسوں میں خوب بڑھکیں ماریں لیکن پھر جذبہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں ہوئیں تو اس بات پر تیار کر لیے گئے کہ سابق خادم اعلیٰ وزیراعظم کا منصب سنبھال لیں۔ اب دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور ہر طرف شور خان کا ہے۔ اب سنا ہے تیاریاں ہو رہی ہیں واپسی کی۔ عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور ضمانت پر ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ لندن چند ہفتوں کے لیے گئے تھے اور واپسی کے ضامن محترم شہباز شریف تھے۔ ہفتے کچھ لمبے ہوتے گئے اور کسی نے محترم شہباز شریف سے بھی نہ پوچھا کہ آپ کی ضامنی کا کیا بنا۔
یہ دلچسپی سے خالی امر نہیں کہ اس فیڈرل کابینہ میں آدھے سے زیادہ وزیر ضمانتوں پر ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں محترم وزیراعظم اور ان کے ہونہار فرزند حمزہ شہباز بھی ضمانتوں پر ہیں۔ لیکن ان سے کسی نے کیا پوچھنا‘ ساری فکر تو عمران خان کے بارے میں ہے۔ بیچ میں حمزہ شہبازکے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تو ذکر کرنا بھول گئے۔ اچھا نہیں ہوا اس ہونہار نوجوان کے ساتھ۔ کتنی کوششیں کی گئیں ان کی بچہ سقہ حکومت کو سہارا دینے کی لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ خوار ہونے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved