اس ماہ مملکت کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے‘ وہی آزادی‘ جسے پانے کی خاطر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا جبکہ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ ہندو‘ مسلم اور سکھ برادریاں‘ جو سینکڑوں سالوں سے ایک ساتھ رہتی تھیں‘ تقسیم کے دوران ایک دوسرے کی جانی دشمنی بن گئیں۔ اَن گنت لوگوں نے کئی نسلوں تک ان دلخراش واقعات کی تلخیوں کا زہر پیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایسی جمہوری مملکت بنانا چاہتے تھے، جہاں برصغیر کے مسلمان آزادی اور سیاسی و سماجی مساوات سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اگرچہ قائدؒ نے زندگی کا بیشتر حصہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے مساویانہ حقوق پانے کی جدوجہد میں صرف کیا؛ تاہم بعد میں وہ ہندو اکثریت کی بالادستی کے بڑھتے رجحان کو دیکھ کر اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ مساوات کے لیے مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت ہے۔ آج نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکمرانی میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد قائد کے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔
آزادی کے پچیس سال بعد تک ہماری مملکت سرزمینِ بے آئین رہی‘ گو کہ 1956ء اور 1962ء میں آئین بنائے گئے مگر کچھ ہی عرصے بعد معطل کر دیے گئے، بالآخر 14 اگست 1973ء کو طویل آمرانہ حکمرانی کے بعد منتخب پارلیمنٹ اُس وقت مملکت کے لیے نئے جمہوری آئین کی منظوری دینے کے قابل ہوئی جب ہماری جنتِ ارضی دو لخت ہو چکی تھی۔ آئین کی تخلیق کے ساتھ ہی ہم نے اپنے ماحول پہ چھائے استبداد سے ایک گونہ نجات پائی لیکن بدقسمتی سے ہمیں بیرونی کنٹرول اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کامل استثنا پھر بھی نہ مل سکا؛ چنانچہ آئین کی تخلیق کے چار سال بعد 1977ء میں ہم نئے مارشل لا ء کی جبریت سے مغلوب ہو کر آئینی مملکت کا شرف گنوا بیٹھے۔ افسوس کہ پچھتر سالوں پہ محیط طویل سفر کے بعد آج بھی فکر وعمل کی یکجہتی سے محروم قوم ایسی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے جو ہر آن ہمیں اُن سیاسی بحرانوںکی طرف دھکیلتی جا رہی ہیں، جن کی جڑیں عالمی سیاست کی حرکیات میں پیوست ہیں۔
سرد جنگ کے دوران (1945-1991ء) بدستور سیاسی آزادیاں عالمی قوتوں کے مفادات کے تابع رہیں اور نئے ملینیم کے آغاز پہ بالآخر جنگ دہشت گردی کی حرکیات نے ہم سے وہ سماجی آزادیاں بھی چھین لیں جو چار ہزار سال کے معاشرتی ارتقا کا ثمر تھیں۔ پچھلے دو عشروں میں تشدد کی مہیب لہروں نے یہاں خوشی و غم کے مناسک اور تہذیبی و تمدنی وظائف کی تمام صورتوں کو بدل کے اجتماعی زندگی کو خوف کے آسیب کا قیدی بنا دیا ہے۔ اب بھی عدم تحفظ کا انجانا احساس ہمیں نقل و حرکت کی سہولت، بولنے اور سوچنے کی آزادیوں سے دور کرتا ہے۔ ہمارے پاس کمیونٹی یا اس کی رکنیت سے لطف اندوز ہونے کا آئینی حق موجود ہونے کے باوجود کچھ نادیدہ رکاوٹیں بار بار اجتماعی شعور کو منظم کرنے سے ہمیں روک لیتی ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کی صورت میں فطرت تدبیرِ مخفی سے ہماری مدد نہ کرتی تو یہ بے بسی نوجوان نسل کو مایوسی کے قعرِ مذلت میں دھکیل سکتی تھی۔
غیرمشروط جمہوریت کے قیام کے لیے ہمارے آئین میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے آرٹیکل 20 موجود ہے، جس کی شق (ایف) ہر شہری کو مرضی کا مذہب رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق دیتی ہے۔ آرٹیکل 36 واضح طور پر تمام اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، جسے اگر آرٹیکل 20 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو مذہبی آزادی کے اعتبار سے مغرب کے سیکولر معاشروں سے مختلف صورتحال نظر نہیں آئے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ آئین میں احتساب کی عمومی کمی اورچند قوانین‘ جیسے 62 ایف اے‘ کو سیاستدانوںکو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرکے نیو نوآبادیاتی نظام (حکمرانوں پہ حکمرانی) کے خالقوں کے مفادات کی نگہبانی کرتے نظر آئے۔ بہرحال جب تک طاقت کے حامل افراد کو آئین و قانون کے سامنے جوابدہ نہیں بنایا جاتا‘ اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناحؒ کا جمہوری وژن عملی شکل اختیار نہیں کر پائے گا۔ ہمارے معاملے میں بدقسمتی یہ رہی کہ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد مقتدرہ اور کاروباری اشرافیہ نے اپنی طاقت کو بڑھا کر مملکت کو ایسی ڈگر کی طرف موڑ دیا جو قائد کے وژن سے بہت کم مماثلت رکھتی تھی۔ اگرچہ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف سمیت بہت سے لوگوں نے جمہوری آزادیوں کیلئے قربانیاں دی ہیں لیکن اس سب کے باوجود عالمی مقتدرہ نے ہماری مملکت کو آئینی جمہوریت کی طرف بڑھنے سے روکے رکھا، اس لیے ہم آج بھی ہنگامہ خیز سیاسی اور معاشی راہوں میں بھٹک رہے ہیں۔
عالمی قوتوں کی اشیرباد سے 1958ء سے اب تک چار مارشل لاء ادوار میں ریاست براہِ راست مخصوص طبقات کے کنٹرول میں رہی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک نے چار بڑی جنگیں (1965ء، 71ء، 79ء کی سوویت افغان جنگ اور 2001ء کی دہشت گردی کے خلاف جنگ) انہی ادوار میں لڑیں۔ دو عالمی جنگوں کا ایندھن بن کر معاشی ارتقا کیلئے درکار بنیادی ڈھانچہ، صنعت، زراعت اور سماجی و انتظامی نظم و نسق کو اجاڑ دیا گیا۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ بیرونی قرض ہماری جی ڈی پی کا 71.3 فیصد ہو چکے ہیں، عدم مساوات بڑھ چکی ہے، اشرافیہ کے 10 فیصد لوگ 60 فیصد سے زائد قومی دولت کے مالک ہیں جبکہ نیچے والے 60 فیصد کے پاس صرف 10فیصد سے بھی کم ملکی دولت ہے۔ اشرافیہ ٹیکسوں سے بچ نکلتی ہے جس کے نتیجے میں معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ خطِ غربت سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں، غربت میں کمی کے لیے حکومت کے اخراجات پورے خطے میں سب سے کم ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو سنسرشپ اور جبر کا سامنا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی سیاست کا آغاز کانگرس سے کیا تھا اور آپ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے مگر آپ نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ ہندوستان کی ہندو شناخت پر کانگرس کا بڑھتا ہوا زور اور مسلم اقلیت کے لیے سیاسی نمائندگی کی کمی ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دے گی۔ قائد دائیں بازو کے ہندو قوم پرست گروہوں جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ابھرنے سے بھی پریشان تھے جو درحقیقت متشدد نیم فوجی گروہ تھے اور جنہوں نے یورپ کی فاشسٹ جماعتوں سے تحریک حاصل کی تھی۔ انتہا پسند تنظیمیں مسلم‘ ہندو اتحاد کی مخالفت اور مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے شدھی کی تحریکیں اٹھاتی رہتی تھیں۔ اسی تناظر میں 1934ء کی ''ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک نے قائد کے خیالات کو یکسر بدل دیا، جس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ کو فعال بنانے کی خاطر مسلم لیگ کی صدرات قبول کر کے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے کا عہد کیا۔ بالآخر 1940ء کی دہائی میں انہوں نے برصغیر پاک و ہند کو مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی علاقوں میں تقسیم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس عرصے میں دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے بڑھتا ہوا فرقہ وارانہ تشدد، کانگرس کی طرف سے ایسی فیڈریشن قبول کرنے سے انکار‘ جس میں مسلم اکثریتی علاقوں کو زیادہ سیاسی نمائندگی حاصل ہو‘ نے قائد کو اس نتیجے تک پہنچا دیا کہ مسلمان ہندو اکثریتی ملک میں کبھی بھی تحفظ اور مکمل برابری سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔ آخر کار 1947ء میں انہوں نے پاکستان کے قیام تک‘ ہندوستانی مسلمانوں کو الگ قوم بنانے کیلئے بہترین رہنمائی فراہم کی۔
اگست 1947ء میں ہندوستان‘ پاکستان اور بھارت کی آزاد اقوام میں تقسیم ہو گیا۔ بھارت جو ایک سیکولر ریاست کے طور پر ابھرا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر اتراتا تھا‘ بالآخر ہندو مذہبی قوم پرستی کی بالادستی کی ریاست میں ڈھل گیا اور قائد کے خدشات کی توثیق کر دی۔ دوسری جانب پاکستان بھی قائد کے بتائے راستے پر سفر جاری نہ رکھ سکا اور منزل سے بھٹک گیا۔ وہ منزل جس کا تعین 47ء میں کیا گیا تھا‘ اس کی تلاش کا سفر ہنوز جاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved