تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     20-08-2022

عمران خان یا شہباز گل؟

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا مشہور قول ہے: ''غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ ہمیشہ بچے دیتی ہیں‘‘۔ ایک غلطی کی کوکھ سے دوسری غلطی جنم لیتی ہے اورپھر دوسری غلطی ایک نئی غلطی کو جنم دیتی ہے‘ یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ گزرے پچھتر برسوں میں ہم نے بطور قوم ہر محاذ پر غلطیاں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشی سمت درست ہو سکی ہے اور نہ ہی سیاسی۔ ہم نظریاتی طور پر مضبوط ہیں نہ ایک قومیت کے حصار میں ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر ہیں اور لکیر بھی ایسی جو منزل سے بھٹکی ہوئی ہے۔ کون جانے ہم درست سمت کی جانب کب سفر کا آغاز کریں گے؟ کون جانے ہم سیاسی مفادات پر قومی مفادات کو کب ترجیح دینا شروع کریں گے؟ کون جانے ہم معاشی خود مختاری کی طرف کب بڑھیں گے؟
عباس تابش یاد آتے ہیں:
جھونکے کے ساتھ چھت گئی‘ دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
پاکستان کو ان دنوں شدید معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے اور بے روزگاری بے لگام۔ روپیہ گراوٹ کا شکار ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے مگر افسوس! ہمارے سیاسی رہنما غیر سنجیدگی کی انتہا پر ہیں۔ چہار سو سیاسی انتشار پھیلا ہے۔ وفاقی حکومت کے اپنے عزائم ہیں اور پنجاب حکومت کے اپنے۔ خیبر پختونخوا اپنی دھن میں مگن ہے اور سندھ کے الگ ہی مسائل ہیں۔ ساری جماعتیں اقتدار میں ہیں اور سبھی اپوزیشن کا رول بھی ادا کررہی ہیں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مسائل کا بوجھ اٹھانے کو کوئی تیار ہے نہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی ہی کوئی سعی کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست اس وقت سمجھ سے بالاتر ہو چکی ہے۔ عمران خان کی جماعت ستر فیصد سے زائد آبادی کی حکمران ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی وہ حکمران اتحاد کا حصہ ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اسے پھر بھی الیکشن کی فکر کھائے جارہی ہے۔ کیوں؟ کبھی وہ ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا اعلان کرتی ہے اور کبھی وفاقی حکومت کو گرانے کی دھمکیاں دیتی ہے۔ کبھی امریکہ کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور کبھی توپوں کا رخ الیکشن کمیشن کی جانب کر لیا جاتا ہے۔ کبھی معزز عدلیہ کو نشانے پر رکھا جاتا ہے اور کبھی مقتدر حلقوں پر طعنہ زنی کی جاتی ہے۔ کوئی تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے پوچھے کہ آخر وہ حکومت کو سیاسی طور پر مستحکم ہونے کیوں نہیں دے رہے؟ کیا انہیں ملک کے معاشی حالات کا اندازہ نہیں؟ اور اگر ہے تو پھر اتنی تلخی کی وجہ کیا ہے؟ گزشتہ روز انہوں نے آزادیٔ اظہارِ رائے کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دل کا جو غبار نکالا‘ اس کی ضرورت کیا تھی؟ اداروں پر انگلی اٹھانا سیاستدانوں کا من پسند مشغلہ رہا ہے مگر خان صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ یہ گفتگو ایک سابق وزیراعظم کو زیب نہیں دیتی۔ ہر بری چیز کو مقتدرہ کے ساتھ جوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اگر ہم اپنے اداروں کا احترام نہیں کریں گے توکون کرے گا؟ اس خطاب سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ شہباز گل کی گرفتاری کا انہیں دکھ بھی ہے اور دل میں کچھ ڈر بھی‘ ورنہ انہوں نے اتنی کھل کر تنقید کبھی نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ شہباز گل اتنی بڑی بات نہیں کہہ سکتے تھے‘ انہیں استعمال کیا گیا ہے۔
عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ وہ اور ان کی جماعت شہباز گل کے بیانیے کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ شہبازگل نے جو کہا‘ اس کی کھل کر مذمت کی جانی چاہیے مگر یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت اس بیانیے کے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے۔ آخر اتنی مجبوری کیا ہے؟ جس دن سے شہباز گل گرفتار ہوئے ہیں‘ پی ٹی آئی کی بے چینی بڑھ گئی ہے اور ملک میں سیاسی درجہ حرارت بھی اوپر چلا گیا ہے۔ دو روز قبل سیشن کورٹ نے اسلام آباد پولیس کو شہباز گل کا دو دن کا ریمانڈ دیا تو پنجاب حکومت نے شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، کس قانون کے تحت؟ اس بابت طرح طرح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ خان صاحب نے شہباز گل کو راولپنڈی کے ہسپتال منتقل کرنے اور اسلام آباد پولیس کے حوالے نہ کرنے کا حکم دیا۔ اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ قانون کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تو رینجرز اور ایف سی کو بلانے کی نوبت آنی تھی؟ مگر کیا کریں طاقت اور اختیار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے جو اچھے بھلے انسان کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ شہباز گل پر تشدد کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یقینا یہ فعل قابلِ مذمت ہے۔ قانون کسی بھی قیدی پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی انکوائر ی کرائے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ شہباز گل نے جو کہا‘ وہ قابلِ تعزیر ہے یا نہیں‘ اس کا تعین عدالت نے کرنا ہے‘ پولیس نے نہیں۔ ایسے واقعات سے محض ملزم کو ہمدردی ملتی ہے‘ قانون کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔ خدارا! ملک کو آگے بڑھنے دیں۔ شہباز گل کا معاملہ اب عدالت میں ہے‘ لہٰذا حکومت اور پی ٹی آئی‘ دونوں اپنا اپنا کام کریں تاکہ ملک و قوم سکھ کا سانس لے سکیں۔ اس وقت پورا ملک سیلاب کا شکار ہے مگر حکومتوں کی توجہ سیاسی معاملات پر مرکوز ہے۔ خدارا سیاسی جھمیلوں سے نکل کر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو اب بھارت کے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''انکوائری میں ثابت ہوا ہے کہ بھارت اور پی ٹی آئی کے لوگوں نے مل کر لسبیلہ سانحہ پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا اور ملک کی بدنامی کی‘‘۔ یہ صورتحال چیئرمین تحریک انصاف کے لیے الارمنگ ہونی چاہیے۔ انہیں دیکھنا ہو گا کہ ان کی جماعت کس راہ پر چل پڑی ہے۔ یہ راستہ ملک اور ان کی جماعت کے لیے مفید ہے بھی یا نہیں؟
یہ کہانی تھی تحریک انصاف کی‘ دوسری طرف بھی ایک کہانی چل رہی ہے۔ اس کہانی کے کردار دو بھائی ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف۔ ایک بھائی عوام کی نظر میں ''ولن‘‘ بن چکا ہے اور دوسرا ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے پر مریم نواز نے ٹویٹ کرکے قوم کو بتایا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں جو اضافہ کیا ہے‘ اس کی حمایت میاں نواز شریف نے نہیں کی بلکہ وہ میٹنگ سے واک آئوٹ کر گئے تھے۔ یہاں پر سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ نواز شریف صاحب کس حیثیت میں سرکاری میٹنگ کا حصہ تھے اور اگر یہ پارٹی کی میٹنگ تھی تو سرکاری اور حکومتی معاملات کیوں وہاں زیرِ بحث تھے؟ حکومتی مسائل کا حل نکالنا کابینہ کا کام ہے۔ یہ کام کوئی اور کیسے کر سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو میٹنگ سے واک آئوٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں‘ کیا انہیں نہیں معلوم حکومت کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں؟ آئی ایم ایف نے معاہدے کی تجدید کے لیے ناک سے لکیریں نکلوا دی ہیں۔ اب اگر بیل منڈھے چڑھنے ہی لگی ہے تو پھر حکومت وہی غلطی کیوں کرے جو فروری کے آخر میں پی ٹی آئی حکومت نے کی تھی۔ اگر اس وقت آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری کی جاتی تو شاید آج معیشت کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ میاں نواز شریف ہی نہیں‘ حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی وزیر خزانہ پر تنقید کر رہی ہیں۔ خود مسلم لیگ نواز کے کئی رہنما مفتاح اسماعیل پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ایسے ارکان کو کون سمجھائے کہ معیشت جذبات سے نہیں چلتی۔ اگر ملک کی معاشی سمت درست کرنی ہے تو بار بار غلطی کرنے کی عادت ختم کرنا ہو گی۔ میری نظر میں مفتاح اسماعیل ایک قابل وزیر خزانہ ہیں۔ انہیں ان کا کام کرنے دیں۔ تنقید کی چھری چلانا بندکرنا ہو گی‘ ورنہ معیشت قابو میں نہیں آئے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved