پاکستانی سیاست ابھی تک دائرے میں سفر کر رہی ہے‘ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔بہت کچھ وہ ہو رہا ہے جو پہلے بھی ہوا ہے اور بار بار ہوا ہے‘ لیکن کچھ نہ کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے جو پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔عمران خان اب وہ باتیں عام اجتماعات میں کرنے لگے ہیں جو پہلے بند کواڑوں کے پیچھے ہوتی تھیں۔کئی ایسے کام جو چھپ چھپا کر کیے جاتے تھے اور ان کا اقرار کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا تھا‘خان صاحب کی جادو بیانی کی وجہ سے ان کی کہانی گھر گھر پہنچ رہی ہے‘گویا ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔کپتان کے دیوانے کہتے ہیں کہ انہوں نے دائرے کو توڑ ڈالا ہے‘اب یہ لکیر کی شکل اختیار کر گیا ہے‘مطلب یہ کہ اس سفر کا اختتام ہونے والا ہے۔لکیر کا نقطۂ آغاز بھی واضح ہوتا ہے اور نقطۂ اختتام (یا انجام) بھی‘اس لیے یہ کھیل اب ختم ہونے کو ہے لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں‘جس لکیر کو وہ پیٹ رہے ہیں‘سانپ تو زندہ سلامت اس سے گزر کر نظروں سے غائب ہو چکا ہے‘وہ کسی دوسرے نقطے پر نمودار ہو جائے گا اور ٹیڑھی ترچھی لکیروں کا ڈھیر لگاتا چلا جائے گا۔دائرے کو توڑ دینے کے زعم میں مبتلا ہونے والے لکیروں کے اژدحام میں سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے کہ ان کو کچھ معلوم نہیں ہو پائے گا کون سی لکیر کو پیٹیں اور کون سی کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں۔یہ لکیریں بھی سوراخوں کی مانند ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے ڈسے جانے کے بعد مطمئن ہو جاتا ہے کہ اسے وہاں سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ نئے سوراخ بنائے جا سکتے ہیں۔ جو ایک سوراخ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ وہ بآسانی دوسرا سوراخ بھی بنا گزرتا ہے۔نئے نئے سوراخ بنا کر اپنے شکار (یا حریف) کو ڈستا چلا جاتا ہے‘یہاں تک کہ زہر نس نس میں سما جاتا ہے‘نتیجتاًوہی کچھ سامنے آ جاتا ہے جس سے بھاگنا مقصود ہوتا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق‘ موسیٰ موت سے ڈر کر بھاگا لیکن وہ اس کے آگے کھڑی تھی۔ کہتے ہیں کشمیر کے ایک مرحوم میر واعظ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو ماشاء اللہ سکہّ بند مردِ مومن ہیں‘ پھر یہ کیا ہوتا ہے کہ آپ کے ایک رفیق آپ کو بار بار ڈس لیتے ہیں۔انہوں نے ترت فرمایا‘ اس کا کیا کروں کہ وہ ہر بار سوراخ بدل لیتے ہیں۔
عمران خان اور ان کے مدح خواں اصرار کر رہے ہیں کہ خان نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا ہے۔ چہروں سے نقاب نوچ لیا ہے‘سب کچھ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے‘اب ''نیوٹرل‘‘اس کا کچھ بگاڑ نہیں پائیں گے‘ گویا ڈر سہم کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘جان کی امان پائیں گے‘ کورنش بجا لائیں گے اور پہلے خان صاحب جو کچھ مل ملا کر کرتے رہے‘اب دھڑلّے سے دن دیہاڑے کرتے پائے جائیں گے۔ کوئی روکنے والا ہو گا‘نہ ٹوکنے والا۔ حریفانِ سیاست کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا جائے گا‘انہیں اس کا قطرہ تک نہ ملے گا اور خان جس کو چاہیں گے‘ دودھ پلائیں گے‘ قدموں میں بٹھائیں گے اور ان کے سب چوبدار ''شیرو‘‘ کی طرح دُم ہلانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو یاد دلا رہے ہیں کہ جناب فطرت کے قوانین بدلتے نہیں ہیں۔ آگ سے برف نہیں بنائی جا سکتی اور برف سے ہاتھ سینکے نہیں جا سکتے۔پائوں سے سانس نہیں لیا جا سکتا اور ہاتھوں سے دوڑ نہیں لگائی جا سکتی۔ دل کو گردے کی جگہ نہیں لگایا جا سکتا اور گردے سے دل کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ دوسروں کے لیے گڑھے کھودنے والے ان میں خود گرتے رہے ہیں‘گر رہے ہیں اور گرتے رہیں گے۔گڑھا جب تیار ہو جاتا ہے‘ تو اس کو یہ نہیں سمجھایا جا سکتا کہ کھودنے والے کے لیے کے ٹو بن جائے جس کو سر کر کے وہ خود کو عالمی چیمپئن کے طور پر منوا سکے۔
پاکستان کے بڑے بڑے مقبول سیاسی لیڈر جب اپنے سیاسی حریفوں کو ذاتی دشمن قرار دے کر انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے شوق میں مبتلا ہوئے تو ان کی مقبولیت انہیں آبِ حیات کا پیالہ پیش نہیں کر سکی۔پاکستان ایک دستوری مملکت ہے‘ اس کا نظام ایک تحریری دستور کے تحت چلایا جاتا ہے‘اس کے مطابق لوگوں کو اپنے حکمران چننے کا حق حاصل ہے‘ جو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لے گا اس کے سر پر تاج سجا دیا جائے گا۔ کم تعداد والے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے اور اپنی باری کا انتظار کریں گے۔جب انہیں اکثریت حاصل ہو جائے گی‘اقتدار ان کی راہ میں بچھ جائے گا۔اپوزیشن میں بیٹھنے والے بھی عوام ہی کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ان کے بھی وہی بنیادی حقوق ہیں جو حکومتی صفوں میں بیٹھنے والوں کے۔آئین ِ پاکستان ہر شہری کی جان‘ مال اور آبرو کا تحفظ کرتا ہے۔ خلافِ قانون کسی کو کسی کے خلاف کارروائی کا حق نہیں دیتا۔ہمارے دفاعی ادارے آئین کے مطابق قائم حکومت کی اطاعت کے پابند ہیں۔ بار بار کی ماورائے آئین مداخلتوں نے بگاڑ پیدا کر رکھا ہے لیکن دستور کے الفاظ تبدیل ہوئے ہیں‘ نہ اس کی روح کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔اگر سیاسی حریفوں کے خلاف ریاستی اداروں کو استعمال کیا جائے گا یا ان کی ماورائے دستور حوصلہ افزائی ہو گی تو نتیجتاً اقتدار کا سنگھاسن ڈانواں ڈول ہو جائے گا۔سیاسی حریفوں کو ریاستی اداروں کے ذریعے تہہ تیغ کرنے کی خواہش ماضی میں کامیاب ہوئی ہے‘نہ اب ہو گی۔ہاں‘ اس کا نقصان عدمِ استحکام کی صورت میں ریاست کو اٹھانا پڑے گا‘ریاست نے ماضی میں بھی یہ نقصان اٹھایا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔
عمران خان اور ان کے حریفوں کے لیے(جو آج برسر اقتدار ہیں) سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو تسلیم کریں‘ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں‘عوام کو فیصلے کا موقع اور حق دیں‘ریاستی اداروں کو تابع فرمان بنانے کا خیال دل سے نکال دیں‘ انہیں آلۂ کار بنائیں‘ نہ ان کے آلۂ کار بنیں۔ان پر حملہ آور ہوں‘ نہ انہیں اپنے اوپر حملہ آور ہونے دیں کہ ان کی کمزوری ریاست کو طاقتور بنا سکتی ہے نہ سیاست کو۔ جسم کا ہر آرگن صحت مند ہو گا تو ہی انسان صحت مند کہلائے گا۔دل‘ دماغ‘ معدے اور جگر‘ سب کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے اور اپنے اپنے مقام پر ٹھہر کر کرنا چاہیے‘ایک دوسرے کی جگہ بیٹھنے یا بٹھانے کی خواہش پورے جسد ِ سیاست کو سپردخاک کر سکتی ہے‘ کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی ؎
دیکھی ہیں بعد ''عشق‘‘ کے اکثر تباہیاں
یہ تجربے کی بات ہے ہوتی ہے کم غلط
ڈاکٹر شہباز گل کا معاملہ
ڈاکٹر شہباز گل سابق وزیراعظم عمران خان کے ترجمان رہے ہیں اور چیف آف سٹاف بھی۔وہ بڑے ارمان لے کر امریکہ سے پاکستان لوٹے تھے اور خان صاحب کی رہنمائی میں بہت کچھ کر دکھانا چاہتے تھے۔وہ فیصل آباد کے جاٹ ہیں‘اپنے لب و لہجے پر کنٹرول نہیں کر سکے اور سیاست کے اکھاڑے میں ایسے دائو پیچ لڑانے لگے‘جو نوآموز پہلوانوں کو راس نہیں آتے‘ان کی ہڈی پسلی ایک کر دیتے ہیں۔اب وہ گرفتارِ بلا ہیں اور ان پر تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔یہاں تک کہ عمران خان نے اس حوالے سے مقتدر حلقوں پر انتہائی سنگین الزامات لگا دیے ہیں۔ڈاکٹر شہباز گل جو بھی ہیں‘ جیسے بھی ہیں‘ایک ایسے پاکستانی ہیں‘ جنہیں سیاست میں حصہ لینے اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ان کے ساتھ کسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سلوک کو برداشت نہیں کیا جا سکتا‘ لازم ہے کہ عمران خان کے الزامات کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور اس میں ذرہ برابر سچائی بھی ہے تو بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved