تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     21-08-2022

چھٹا کھلاڑی

زندگی جب تک نشیب و فراز‘ شکست و فتح اور مد و جزر سے نہ گزار لے‘کسی بھی شعبے کے انسان کو چھوڑتی نہیں۔ کوئی با صلاحیت سے با صلاحیت‘ خوش قسمت سے خوش قسمت انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کبھی ناکامی یا شکست یا غیر متوقع نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بہت سے با صلاحیت اور خوش نصیب تو وہ ہیں جنہیں بار بار یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور وہ اس پر مجبور تھے۔ آپ بڑے نامور اور کامیاب انسانوں کی سوانح پڑھ لیں‘ان کا آغاز اور ابتدائی زمانہ تو خاص طور پر حوصلہ شکن حالات اور جد و جہد کے ناکام نتائج سے بھرا پڑا ہے۔دنیاوی معاملات کے لوگوں کو بھی ایک طرف رکھیںمنتخب ترین ہستیوں یعنی پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں کے واقعات ہی پڑھ لیں۔یہاں ابراہیم علیہ السلام اپنے سگے باپ کو بھی سمجھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور تاریخ کے اس زمانے میں بے وطن ہوجاتے ہیں جب قبیلہ اور خاندان ہی انسان کا سب سے بڑا حصار تھا۔یہاں یعقوب علیہ السلام کی بیشتر اولاد ان کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتی۔یہاں موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قوم قدم قدم پر طعنے دیتی ہے۔وہ قوم جنہیں اس کا اولوالعزم رہنما فرعون کے جابر شکنجوں سے نکال لایا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا‘اسے کہتی ہے کہ کیا مصر میں قبروں کی جگہ کافی نہیں تھی جو تو ہمیں اس ویرانے میں مروانے لے آیا ہے؟یہاں کوڑھیوں کو مکمل صحت دینے والے‘ مردوں کو زندہ کرنے والے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے بہت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں.یہاں محمدﷺ کے پیچھے طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکے لگا دیے جاتے ہیں۔پتھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایڑیوں سے رستا خون جوتوں کو بھر دیتا ہے۔
یہ سب ہر شخص کے علم میں اور یہ بھی علم میں ہے کہ ان ہستیوں نے ان واقعات کے بعد اپنے مقصد کے لیے نئی توانائیوں سے زندگی خرچ کی۔انہوں نے ہمت شکستہ کردینے والے لمحات میں بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا۔وہ استقامت جس نے ان وقتی ناکامیوں کی اوٹ سے دائمی کامیابیوں کو سامنے لاکھڑا کیا۔ایک منٹ کے لیے سوچیے کہ یہ بے مثال لوگ تاریخ کے اس موڑ پر ہمت چھوڑ کر بیٹھ جاتے تو کیا ان کا نام انسانی دنیا کے سر فہرست ناموں میں ہوتا؟ کہا ان کے نام انسانی تاریخ کے کامیاب ترین اور اہم ترین ناموں میں ہوتے؟ یقینا نہیں۔ان کی استقامت ہی ان کی کامیابیوں کی کنجی تھی۔کامیابیوں کی کنجی۔اللہ کا کیا عجیب نظام ہے کہ کامیابی کی چابی ناکامی ہے۔فتح کی ضمانت شکست ہے اور جیت کا دروازہ ہار کی دستک سے کھلا کرتا ہے۔قدرت نے انسان کو کامیابی کی بلند ترین منزلوں تک پہنچانے کے لیے اسے مانجھنا ہوتا ہے۔اسے مشکل حالات سے گزارنا ہوتا ہے اور عام انسانوں کو یہ سبق دینا ہوتا ہے کہ اگر منتخب ترین انسانوں کو مانجھ کر‘ چھلنیوں سے گزار کر‘ برداشت کے کٹھن راستوں سے گزار کر کامیابی کی چوٹیوں تک پہنچایا جاتا ہے تو ہما شما کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔
کتنے دن سے میرا دل اور دماغ چھٹے کھلاڑی میں اٹکا ہوا ہے۔وہ چھٹا کھلاڑی جو آپ بھی ہیں اور میں بھی۔میں کھیلوں کی خبریں دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔خود بھی کھلاڑی رہا ہوں۔بات کامن ویلتھ گیمز کی ہے۔ان سال کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کافی بہتر رہی۔پاکستان نے اہم اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور طلائی‘ نقرئی اور کانسی کے متعدد تمغے جیتے۔یہ بہت قابلِ مبارک بات ہے لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں پاکستان کھلاڑیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیں۔
1954ء سے 2022ء تک اب تک پاکستان نے 22 کامن ویلتھ گیمز میں سے 14 میں حصہ لیا ہے۔1972ء سے 1989ء تک کچھ سال پاکستان نے دولت مشترکہ کا حصہ نہ رہنے کے باعث ان مقابلوں میں حصہ نہیں لیا۔ان 14 مقابلوں میں پاکستان نے کل 83 تمغے حاصل کیے جن میں 27 طلائی 27 نقرئی اور 29 کانسی کے تمغے ہیں۔1962ء کے مقابلوں میں پاکستان کی طرف سے اب تک کی بہترین کارکردگی رہی جہاں اس نے آٹھ سونے کے اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا تھا اور کارکردگی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر رہا تھا۔پہلوانی یا کشتی یا ریسلنگ اب تک پاکستان کا مضبوط ترین کھیل رہا جس میں اس نے تاحال 42 تمغے حاصل کیے ہیں۔ان 42 میں سے 21 طلائی تمغے ہیں۔کشتی میں پاکستان کامن ویلتھ میں رینکنگ کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔
اب 2018ء یعنی سابقہ مقابلوں کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالیے۔پاکستان نے ایک طلائی اور چار کانسی کے یعنی کل پانچ تمغے جیتے تھے۔یہ بہت حد تک مایوس کن کارکردگی تھی۔اب حالیہ مقابلوں (2022 ء)کو دیکھیں 67کھلاڑیوں نے 12 مقابلوں میں حصہ لیا جن میں پاکستان نے کل آٹھ تمغے حاصل کیے ۔ ان میں دو طلائی ‘تین چاندی اور تین کانسی کے تمغے ہیںاور رینکنگ میں 18 ویں نمبر پر رہا ہے۔یہ کارکردگی اگرچہ بدستور بہت بہتر نہیں کہی جاسکتی‘ خاص طور پر دیگر ممالک کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے‘تاہم یہ 2018 سے قدرے بہتر ضرور ہے۔
امسال جن کھلاڑیوں نے اعزاز حاصل کیے ہیں وہ یہ ہمت دلاتے ہیں کہ ہم اولمپک مقابلوں میں بھی بہت سے اعزاز جیت سکتے ہیں۔شرط صرف میرٹ پر کھلاڑیوں کو منتخب کرنے اور ان کی بہترین تربیت کرنے کی ہے۔آپ ان کھلاڑیوں پر محنت کریں توممکن نہیں کہ اس محنت کا صلہ نہ ملے۔جن ملکوں اور جن اقوام کی یہ شہرت ہے کہ وہ ہر کھیل میں آگے ہیں وہ بھی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہم جیسے انسان ہیں۔ہمارے کھلاڑی پانچ دس مقابلوں میں انہیں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں تو تیس چالیس میں کیوں نہیں؟
لیکن یہ سب بتاتے ہوئے میرا دل بدستور چھٹے کھلاڑی میں اٹکا ہوا ہے۔کامن ویلتھ گیمز 2022ء میں چھ پاکستانی ریسلرز نے حصہ لیاجن میں پانچ نے تمغے جیتے جو بہت مبارک کی بات ہے لیکن میرا دل اس ایک ریسلر میں اٹکا ہوا ہے جس کے پانچ ساتھیوں کے ہاتھ میں تمغے ہیں لیکن وہ خالی ہاتھ ہے۔میرے دوست اور پی ٹی وی کے نامور پروڈیوسر محسن جعفر نے بتایا کہ وہ سب سے باصلاحیت پہلوان ہے‘کتنی تیاریاں کی ہوں گی اس نے بھی‘کتنی دعاؤں اور توقعات کے ساتھ وہ بھی گیا ہوگا۔میں خود کو اس کی جگہ رکھ کر اس کے دل کی کیفیتوں کو سوچتا ہوں۔کتنا مشکل اور حوصلہ شکن وقت ہوگا اس کے لیے۔سوچتا ہوں اور خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھتا ہوں تو دل غم سے بھرنے لگتا ہے۔
چھٹے کھلاڑی! یہ لفظ اور یہ تحریر تمہارے نام ہیں۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم میں بہت سے چھٹے کھلاڑی ہیں اور جب اتنے بہت سے لوگ چھٹے کھلاڑی ہوں تو انسان اکیلا کیسے ہوسکتا ہے؟ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہی وقت ہے اس ناکامی کو کامیابیوں کی کنجی بنانے کا۔یہی وقت ہے شکست سے فتوحات برآمد کرنے کا۔یہی کلید ہے اس دروازے کی جس کا نام ناموری ہے۔چھٹے کھلاڑی! یہ تحریر تمہارے لیے ہے۔چھٹے کھلاڑی! کیا تم ہم سب چھٹے کھلاڑیوں کی آواز سن رہے ہو؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved