مہذب معاشروں میں سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں سیاست کو ذاتی بدلے لینے کے لیے استعمال کرنے کا رجحان عام ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات شاید اس کی بہتر عکاسی کر سکتے ہیں۔ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے تو وہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف کیسز بنوانے کے لیے کوششیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف اقتدار میں ہے تو وہ یہاں (ن) لیگ کی قیادت اور ورکرز کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مروا رہی ہے۔ بظاہر مقابلہ عوامی خدمت کا نہیں ہے بلکہ جیت اور ہار کا معیار اس بات پر طے کیا جا رہا ہے کہ کس نے دوسری پارٹی کے زیادہ بندوں کو گرفتار کروایا۔ طاقت کے غلط استعمال سے ہار اور جیت کا تعین کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ اس میں کسی کی جیت نہیں ہوتی اور بالآخر ملک‘ معاشرہ اور قوم ہار جاتے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ انہیں اس وقت بھی سمجھایا گیا کہ سیاسی انتقام کے بجائے ملک کی ترقی پر توجہ دیں۔ لیکن اس وقت یہ باتیں انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور انہوں نے بھی تحریک انصاف والی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ملک چلانے سے زیادہ سرکار کا فوکس شہباز گل کی رہائی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوششوں پر ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو شاید اب احساس ہونے لگا ہے کہ ان سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اب پی ڈی ایم لچک دکھانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ شاید شہباز گل کی حالت پر ٹھٹھے اڑانے والے اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہے کہ جو آج حکومت میں ہیں وہ کل کو جیل میں بھی ہو سکتے ہیں اور جو آج جیل میں ہیں وہ کل کے حاکم بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وقت میثاقِ جمہوریت اور میثاقِ معیشت کا ہے لیکن ہماری سیاسی قیادت کو جب تک اس حقیت کا ادراک ہوگا تب تک شاید پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوگا اور نقصان کی تلافی شاید ممکن نہ رہے۔
آئیے اب ایک نظر معیشت پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط پر لگژری آئٹمز کی درآمد پر عائد پابندی ہٹائی جا رہی ہے لیکن لگژری اشیا کی درآمد پر تین گنا ریگولیٹری ڈیوٹیز لگائیں گے۔ درآمد پر تین گنا یا 400 سے 600 فیصد تک ڈیوٹی لگائیں گے۔ بڑی گاڑیوں پر بھی ڈیوٹی اسی تناسب سے لگائی جائے گی۔ کسٹمز ڈیوٹی‘ ریگولیٹری ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس عائد کریں گے۔ مکمل تیار درآمدی گاڑیوں‘ موبائل فونز پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ پرس‘ جوتوں سمیت دیگر لگژری اشیا کی درآمد پر بھی اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ مجبوری میں کیا ہے۔ جو کہ کافی حد تک درست تاثر ہے لیکن پابندی لگاتے وقت سرکار کو اس حقیقت کا بخوبی اندازہ تھا کہ درآمدات پر پابندی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ پاکستان ڈبلیو ٹی او کا ممبر ہے۔ جس کے قواعد و ضوابط پاکستان پر لاگو ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے مطابق کوئی ملک جو برآمدات کرتا ہے وہ درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک پاکستان کی برآمدات قبول کر رہا ہے اور پاکستان اس کی درآمدات پر پابندی لگا دے۔ بین الاقومی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر پاکستان درآمدات پر سے پابندی نہ ہٹاتا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی یورپ اور دیگر ممالک کو برآمدات بند ہو سکتی تھیں۔ حال ہی میں جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پاکستان کے وزیر خزانہ کو لکھے گئے ایک خط میں تنبیہ کی کہ حکومت جرمنی سے گاڑیاں منگوانے پر عائد پابندیاں ختم کرے ورنہ یہ معاملہ یورپی یونین میں پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے ساتھ جرمنی اور پاکستان کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات جرمنی کے کارساز اداروں کو پاکستان کی مارکیٹ سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ نتیجتاً پاکستان میں موجود 30 ہزار سے زائد جرمن گاڑیاں ناقابل استعمال ہو جائیں گی اور ان گاڑیوں کی ضروری دیکھ بھال کے لیے مہارت اور جدید ٹیکنالوجی بھی مستقبل میں پاکستان کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ اس خط کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان کو 2023ء میں اپنا جی ایس پی سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے دوبارہ درخواست دینا ہو گی اور ماضی میں جرمنی پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دلوانے میں کافی مددگار ثابت ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021-22ء کے دوران پاکستان میں مجموعی درآمد 31 کروڑ ڈالر مالیت کی گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں جو گزشتہ سال میں کی گئی پاکستان کی کل درآمدات کا پونے دو فیصد حصہ ہے۔ جرمنی ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کے ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن مثبت ہے۔ 2021ء میں پاکستان کی جرمنی کو برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر رہیں جب کہ جرمنی سے درآمدات ایک ارب ڈالر تھیں۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ لگژری آئٹمز سے پابندی ہٹانے سے پاکستان کے دوست ممالک برآمدات بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔ حکومت نے یہ سخت فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے گا۔ لگثری آئٹمز کی درآمدات پر پابندی ختم ہونے سے روپے پر دباو بڑھ سکتا ہے اور ڈالر ریٹ اوپر جا سکتا ہے۔ فی الحال عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہیں اور حکومت کو آنے والے دنوں میں زیادہ تیل بھی درآمد نہیں کرنا اس لیے ڈالر ریٹ میں فوراً ڈرامائی تبدیلی کے امکانات کم ہیں لیکن آئی ایم ایف قرض ملنے سے پہلے تک تھوڑا بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ اصل صورتحال کا اندازہ ستمبر میں ہو گا۔ اگر جولائی کی طرح اگست کے بھی درآمدات کے اعداد و شمار بہتر آئے اور برآمدات میں اضافے کا رجحان رہا تو ڈالر پر کنٹرول برقرار رہے گا۔ لیکن ماضی کے پیش نظر درآمدات کے کنٹرول میں رہنے کے امکانات کم ہیں۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیر خزانہ کے مطابق وہ درآمدی اشیا اس قدر مہنگی کر دیں گے کہ ان کی درآمد ممکن ہی نہیں ہو سکیں گی۔ ممکن ہے کہ وزیر خزانہ کا دعویٰ درست ہو لیکن ماضی کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اس فیصلے سے مہنگائی میں مزید اضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں اشیا کی قیمت ان کی لاگت کے تناسب سے طے کرنے کی روایت نہیں ہے۔ بلکہ مقامی اشیا کی قیمتیں درآمدی اشیا کی قیمتوں کے تناسب سے طے کی جاتی ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں چونکہ زیادہ موثر نہیں ہیں اس لیے قیمتوں کے درست تعین کا سرکاری نظام تقریباً غیر فعال ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ جو طبقہ لگثری اشیا استعمال کرتا ہے وہ اسے کسی بھی قیمت پر خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ تاثر دینا کہ ٹیکس بڑھانے سے درآمدات نہیں ہوں گی شاید زمینی حقائق کے منافی ہے۔ بلکہ اس کے دو طرفہ نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف ڈالرز بیرون ملک جائیں گے اور دوسری طرف عام آدمی کے لیے مقامی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ درآمدات پر پابندی کے خاتمے کے بعد حکومت کا اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں توازن قائم کرنا ضروری ہے تا کہ آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کی جا سکیں۔ اس کے لیے برمدات میں اضافے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معیشت کو فائدہ اسی وقت ہوگا جب درآمدات کی طرح برآمدات میں بھی اضافہ کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو سرکار کو ایک مرتبہ پھر درآمدات پر پابندی لگانا پڑ سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved