صاحبانِ اقتدار ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘دور کی کوڑی لانے والے ہوںیا نت نئی منطقیں تراشنے والے‘منجھے ہوئے باخبر تجزیہ کار ہوں یاٹیلر میڈ دانشور‘سبھی اپنے اپنے سکرپٹ اور خواہشات کی زنجیروں میں جکڑے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں حصولِ اقتدار کے لیے احتجاج جاری ہے تو کہیں طولِ اقتدار کے لیے روایتی ڈھٹائی اور بے حسی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔عوام پر شوقِ حکمرانی کے مارے اس قدر خودغرض اور موقع پرست پائے گئے ہیں کہ ان کے ایجنڈے ہوں یا دھندے سبھی ا ن کی نیت اور ارادوں کی قلعی کھولتے چلے جارہے ہیں۔جلسوں پر جلسے‘احتجاجی کالیں‘لہو گرمادینے والی تقریریں اور شعلے اگلتی زبانوں نے پورے ملک کو انگار وادی بنا ڈالا ہے۔ نہ کسی کو ہوش ہے نہ کسی کو خبر کہ عوام پر کون کون سی قیامتیں ٹوٹ چکی ہیں۔ان کی طرزِ حکمرانی اور من مانی نے بارانِ رحمت کو بھی موت کا پروانہ بنا ڈالا ہے۔شہر کے شہر ندی نالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں‘ نجانے کتنے دیہات دریا برد ہو چکے ہیں۔معصوم بچوں اور مویشیوںسمیت بے یار ومددگار پڑی ان گنت لاشیں ان کی انتظامی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تیارکھڑی فصلوں کی تباہی ہو یا مال و اسباب کی‘اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کوبے رحم سیلابی ریلوں میں بہتے دیکھنے والوں کی آنکھیں اس ہولناک منظر کے بعد پتھرا چکی ہیں۔کراچی جیسے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تو باقی شہروں اور دیہاتوں کی پروا کسے ہوگی؟ اقتدار کی چھینا جھپٹی ہو یاوسائل کی بندر بانٹ پر ایک دوسرے سے کشمکش‘سماج سیوک نیتااپنے اپنے ایجنڈوں اور دھندوں میں اس قدر مست ہیں کہ انہیں نہ عوام سے کوئی سروکار ہے نہ عوام کے مسائل سے۔ان کی گورننس نے اچھے اچھوں کو زندہ درگور کرڈالا ہے۔تباہ حال خاندان بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد کیسے کیسے عذابوں سے دوچار ہیں‘ سیلابی ریلوں کی بھینٹ چڑھنے والوں کی موت کا ماتم کریں یا مال اسباب اور مویشیوں کا۔گھربار گیا‘ کاروبار گیا‘ عزیز ازجان پیارے ہاتھوں سے ایسے نکلتے چلے گئے کہ ان کا سراغ تک نہیں ملا۔نجانے کتنوں کا تو نہ جنازہ ہوا اور نہ ہی قبر نصیب ہوئی۔ہر سال یہ سیلابی ریلے اسی طرح ہنستی بستی بستیاں تہس نہس کرکے موت بانٹ کر چلے جاتے ہیں۔محلات اور وسیع و عریض فارم ہائوسز میں شب و روز گزارنے والے فیصلہ سازوں نے لمحۂ موجود تک ایک بھی فیصلہ عوام کے حق میں نہیں کیا۔
پون صدی بیت گئی‘لمحہ لمحہ‘ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے مرتے عوام ہر سال اسی طرح مرتے ہیں۔شہر اجڑتے اور دیہات ملیا میٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔تعجب ہے کہ یہ سیلابی ریلے ہوں یا طوفانی بارشیںان کا بے رحم پانی صرف عوام کی بستیوں میں موت بانٹنے کیوں آتا ہے؟ اس کا رخ کسی وڈیرے‘ کسی جاگیردار کی رہائش گاہ‘ ڈیرے اور فیکٹریوں کی طرف کیوں نہیں ہوتا؟ رخ موڑنے والوں نے ایسا رخ موڑا ہے کہ سبھی قیامتیں عوام کی بستیوں پر ہی ٹوٹتی ہیں۔ایسا بندوبست کیا ہے کہ سیلابی ریلوں کو ان بستیوں کا راستہ اس طرح یاد ہوگیا ہے کہ وہ ٹھیک اسی جگہ موت بانٹنے آجاتے ہیں۔اشرافیہ کی بستیوں میں تو بے رحم سیلابی ریلوں کے داخلے پرگویاپابندی لگ چکی ہے۔یہ کیسا حرماں نصیب خطہ ہے‘یہ کہاں کا طرزِ حکمرانی ہے‘کہیں خشک سالی موت بن کر آتی ہے تو کہیں بارشیں لاشوں کے ڈھیر لگا دیتی ہیں۔یہ کون سی گورننس ہے ؟یہ کیسی پالیسیاں اور اقدامات ہیں جو عوام کو ناحق موت سے دوچار کیے چلے آرہے ہیں۔جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔بچوں میں سوکھے کی بیماری مرض الموت بن کر انہیں قبر میں لے جاتی ہے۔ راہ چلتوں کو آوارہ کتے بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔نا حق مرنے والوں کے اعدادو شمار ہر دور میں شرمناک سوالیہ نشان رہے ہیں۔بنیادی اشیائے ضروریہ قوتِ خرید سے باہر اورناقابلِ برداشت یوٹیلٹی بلز کی ادائیگیاں عزتِ نفس کے لیے خطرہ بن چکی ہیں‘ بجلی کے بل کی قسط کی درخواست کرنے والوں کو دھتکار اور پھٹکار کا سامنا کرناپڑتا ہے‘سرکاری تعلیمی ادارے جدید عصری تقاضوں سے کوسوں دور ہیں اور نجی ادارے عام آدمی کا خواب بن کر رہ گئے ہیں‘ پریشان حالی دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن چکی ہے‘تھانہ‘پٹوار اور ہسپتال ذلت کا گہوارہ بن چکے ہیں۔عوام پر ٹوٹنے والی قیامتیں ہوں یا عذاب‘ سیاسی اشرافیہ ان سبھی کی ذمہ دار ثابت ہوچکی ہے۔ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھائو بھی کھل چکے ہیں۔
عوام کے مسائل اور مصائب سے بے نیاز یہ بیانیوں اور اسمبلی میں نمبر گیم کی شطرنج کھیلے چلے جارہے ہیں‘مات سے کیسے بچنا ہے‘ شہ مات کیسے دینی ہے‘انہیں کیا معلوم کہ عوام کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔اقتدار کی بھوک نے انہیں اس قدر بے حس بنا ڈالا ہے کہ انہیں ہرگز احساس نہیں کہ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلتی ہے۔جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں۔جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔
ایسے میں تو بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اے رب کعبہ تجھے شاہ مدینہ کا واسطہ تو ایسی حکمرانی کے اثرات سے اس ملک و قوم کو محفوظ فرما۔اے پروردگار! مملکت خداداد میں بسنے والے نسل در نسل حکمرانی کا شوق پورے کرنے والوں سے عاجز آچکے ہیں۔یہ نام نہاد رہنمائوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ملک کے طول و عرض میں کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں جس کی گواہی دی جاسکتی ہو کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کیا ہے۔پون صدی میں مینڈیٹ بیچنے سے لے کرآئین اور حلف سے انحراف کرنے والوں کی اتنی طویل فہرست ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔شوقِ اقتدار کے ماروں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔تیری عطا کی ہوئی گورننس کو اپنی ادا تصور کرنے والے تیرے احکامات سے لے کر اخلاقی قدروں اور سماجی انصاف سمیت قانون اور ضابطوں کو بھی کچھ نہیں سمجھتے۔اس ملک کے شہری ان کے شوقِ حکمرانی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوچکے ہیں۔یہ ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا مستقبل بھی کھا چکے ہیں۔جھوٹی قسموں اور جھوٹے وعدوں کا فریب دے کر انہوں نے وہ لوٹ مچا رکھی ہے کہ الامان الحفیظ۔ اے باری تعالیٰ! تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں‘ نامعلوم قابلیت اور صفر کارکردگی کے حامل یہ سبھی ملک وقوم کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ آنے والے وقت سے خوف آنے لگا ہے۔ نفرت کی وہ آندھی چل رہی ہے کہ سب کچھ تنکوں کی طرح اڑتا دکھائی دیتا ہے۔یہ لوگ زمین پر کیسے کیسے کھلواڑ کررہے ہیں۔ان کے کھیل تماشے ہوں یا نیت‘کچھ بھی چھپا ہوا نہیں۔آخر میں ایک شعربطور استعارہ پیشِ خدمت ہے ؎
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved