پاکستان نے 75 برس کی قومی عمر کا سنگِ میل عبور کر لیا ہے لیکن افسوس قوم کو اس وقت مایوسی اور بحرانوں نے گھیر رکھا ہے۔ انتشار و نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں، مالی محتاجی ہماری شناخت بن چکی ہے۔ پاکستان میں آج تک یہی فیصلہ نہیں ہو پایا کہ ہمیں صدارتی نظام چاہیے یا پارلیمانی؟ قدرتی وسائل سے مالا مال زرعی ملک میں بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت آہستہ آہستہ ہر چیز کو نگل رہا ہے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد ''کھوٹے سکوں‘‘ نے وطن عزیز کو ذاتی مفادات کی خاطر مسائل کی آما جگاہ بنا دیا۔ کاش ! سیاستدانوں نے خود کو قائد اعظم کا جانشین ثابت کیا ہو تا تو آج ہمارے ملک میں جمہوریت مستحکم ہوتی‘ قوم ترقی و خو شحالی کی منازل سے ہمکنار ہو چکی ہو تی۔
قیامِ پاکستان سے آج تک‘ پچھتر سالہ اس سفر کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ تمام عرصہ ہم نے غفلت کی بھینٹ چرھا دیا۔ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ قائداعظم فرماتے تھے کہ پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا گیا کہ مسلمان اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں‘ یہاں انصاف کا بول بالا ہو، کہیں کسی کا طبقاتی استحصال نہ ہو۔ لیکن وطن عزیز کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اور مفاد پرست ٹولے نے اپنی بے ایمانی سے اس کی جڑوں کو کھو کھلا کر دیا ہے۔ ملک و قوم کو بھنور سے نکالنے کے لیے جس عزم و حوصلے کی ضرورت ہے‘ اس کی حامل لیڈرشپ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج قوم عدم تحفظ، ناانصافیوں، صوبائی و لسانی عصبیت، مہنگائی اور پسماندگی کی اذیتوں سے دوچار ہے۔ ملک میں مہنگائی کے طوفان نے ایک ہیجان کی کیفیت برپا کر رکھی ہے۔ ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھائو نے ہر چیز کی قیمت کو جیسے آگ لگا دی ہے۔ اشیائے خورو نوش کو خریدنا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ جان بچانے والی ادویات سمیت بچوں کے امراض کی میڈیسن بھی استطاعت سے باہر ہو چکی ہیں۔ ٹرانسپورٹرز نے کرایے سو فیصد تک بڑھا دیے ہیں۔ دوسری جانب گراں فروش اور ذخیرہ اندوز مافیا بھی منہ زور ہو چکا ہے اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ '' مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ عوام کی قوتِ خرید اس وقت کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ افسوس !اقتدار کے لیے سیاست دانوں کی رسہ کشی اور جوڑ توڑ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس وقت شدید بارشوں اور سیلاب کے سبب بلوچستان ڈوب گیا ہے، ملک کا معاشی حب کراچی بارشوں کی تباہ کاریوں کی نذر ہو گیا ہے، ان مسائل سے قطع نظر ہمارے حکمران ملک پر سیاسی جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے معاشی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ مہنگی بجلی کے بل ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا اژدھا بھی انتشار و بدامنی کی صوت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ پاکستان کا موازانہ سری لنکا سے کیا جا رہا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے ایسی طویل المیعاد پالیسیاں بنائی جائیں جن پر عمل کر کے حقیقی معنوں میں جمہوری فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
ستم یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں درآمدی لگژری اشیا سے پابندی ہی نہیں اٹھائی گئی بلکہ منی بجٹ کی صورت میں 80 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ پچاس یونٹ بجلی خرچ کرنے پر بھی ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ اس سے عوامی مشکلات بڑھیں گی اور نتیجے کے طور پر حکومت کے خلاف عوام کی نفرت میں شدت پیدا ہو گی۔ اس کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کو پٹرولیم مصنوعات پر پچاس روپے لیوی کی مد میں بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے یعنی عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ عوام کو عملاً در گور کر دیا گیا ہے۔ گویا آئی ایم ایف کی معمولی سی اقساط کیلئے پورے ملک کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے متبادل راستے بھی تلاش کر سکتی تھی مگر حکومت نے آسان راستہ تلاش کیا ہے کہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔ اس وقت عالمی سطح پرپٹرول کے نرخوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے مگرحکومت قیمت میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ حکومت کو آ خر ایسی کون سی مجبوری ہے کہ اسے پٹرول کے نرخ بڑھانے پڑ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ اتحادی حکومت ساڑھے چار ماہ کے عرصے کے باوجود ابھی تک مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے سپر ٹیکس لگا نے کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ دوسرے ملکوں سے مانگتے ہوئی شرم آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کشکول ہم نے توڑا کب تھا؟
پاکستان کا داخلی بحران کیا محض اتفاق ہے یا کسی بڑے منصوبے کی تمہید؟ صہیونی دجالی قوتیں عالمی سطح پر اہم ترین خطوں کا نقشہ تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کر چکی ہیں اور وطن عزیز میں جمہوریت کی بقا کے نام پر بلیم گیم جاری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ بدلا گیا اور کئی ملکوں کو اس وقت تک آزاد نہ کیا گیا جب تک اس بات کا یقین نہ کر لیا گیا کہ نظام حکومت کیلئے ان کے پاس مغربی جمہوریت کی تقلید کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے بعد عالمی مالیاتی صہیونی سامراجیت کا آغاز ہوتا ہے۔ جس میں قرضوں کے نام پر مقامی حکمرانوں کو مالیاتی کرپشن اور اقربا پروری کی بیماری میں مبتلا کرنا مقصود تھا۔ یوں ترقی کے نام پر حکمران ان سے قرضے لیتے رہے اور ان قرضوں کی ادائیگی عوام کے گلے پڑتی رہی۔ یہ عالمی صہیونی ساہوکاری سسٹم اسی لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ جلد از جلد ان قوموں کا معاشی خون نچوڑ لیا جائے اور جب ''عالمی حکمران ریاست‘‘ کے طور پر ''عالمی سٹیٹس‘‘ کی واشنگٹن سے یرو شلم منتقلی ہوتو دنیا خصوصاًمسلم ورلڈ کی جانب سے کسی عسکری یا سیاسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان میںسیاسی و ریاستی اداروں کو باہم الجھانے کی سازش بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ صہیونی دجالیت کا آخری مر حلہ ہے جس کے پہلے مرحلے میں نائن الیون کا بہانہ بنا کر پہلے عراق و افغانستان کو پامال کیا گیا اور پھر دوسرے مر حلے میں 'عرب بہار‘کے نام پر مشرقِ و سطیٰ میں آ گ لگا دی گئی۔ اب تیسرے مرحلے میں دفاع کے نام پر اسلحے کی سوداگری کے ذریعے عرب ممالک کا بچا کچھا سرمایہ ہڑپ کیا جا رہا ہے، افسوس مسلم امہ اب بھی خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ مسلم حکمرانوں کی حالت بقول آتش ؔاس طرح ہے :
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''ڈیڑھ ارب مسلمان اگر یہ سوچتے ہیں کہ صرف اسی لاکھ یہودیوں کو ختم کرنے کیلئے ابا بیلیں آئیں گی تو مجھے خوف ہے کہ اگر اس مرتبہ ابا بیلیں آگئیں تو یہودیوں کے بجائے مسلمانوں پر سنگ باری کریں گی‘‘۔ بد قسمتی سے اب عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ لگ چکی ہے۔ فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی اسرائیل کی حامی لابی متحرک ہو چکی ہے۔ اب با قاعدہ طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چو نکہ ترکیہ نے اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیے ہیں تو اب پاکستان کو بھی اس حوالے سے سو چنا چاہیے۔ قائد اعظم نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترداف ہے۔ کہیں معاشی ابتری کی آڑ میں اسرائیل کو تسلیم کر نے کی سازش تونہیں رچی جا رہی؟ قبل ازیں پرویز مشرف کے دور میں بھی اس وقت کے وزیر خارجہ نے ترکی میں اپنے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کی تھی جس پر جنرل (ر) حمید گل اور مجھے صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حمید گل نے ملک و قوم کی خاطر جیل جانا قبول کر لیا لیکن کسی کے سامنے جھکے نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved