تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-08-2022

پاکستانی بیانیہ

کسی بھی قوم کے لیے انتہائی بنیادی چیز ہوتی ہے اُس کا بیانیہ۔ کسی بھی قوم کا بیانیہ اُس کی تمام زمینی حقیقتوں کا عکاس ہوتا ہے۔ نسل، تاریخ، معاشرت، ثقافت اور ادب سے مزین بیانیہ وہ مجموعی سوچ ہوتی ہے جو انسان کو ایک طرح کے احساسِ تفاخر سے ہم کنار رکھتی ہے۔ ہر عہد میں وہی اقوام ترقی کی منازل طے کر پائی ہیں جنہوں نے اپنا بیانیہ توانا رکھنے پر توجہ دی ہے۔
ہم عمومی سطح کی زندگی یعنی معمولات میں گم ہوکر اپنا بیانیہ بھی بھول بیٹھتے ہیں۔ ہماری مجموعی سوچ میں بہت سی بیرونی باتیں شامل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ باتیں ہم میں بہت کچھ بدلتی ہیں۔ ہماری سوچ بدلتی ہے تو بیانیہ بھی بدلنے لگتا ہے۔ عام آدمی بہت سے بیرونی اثرات قدرے لاشعوری کی سطح پر قبول کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل اگر تواتر سے جاری رہے تو عام آدمی بہت کچھ قبول کرتے کرتے اپنی اصل سوچ اور شناخت سے محروم ہونے لگتا ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک زمانے سے بیرونی اثرات اتنے تواتر سے قبول کرتا آرہا ہے کہ اب اس کی اپنی اصل سوچ اور شناخت گم سی ہوگئی ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں رہا کہ قومی بیانیہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اُسے زور دے کر محض بیان ہی نہیں کرنا ہوتا بلکہ اُس پر ڈٹ جانا بھی ہوتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہماری زبان بھی الگ ہونی چاہیے اور لہجہ بھی واضح طور پر منفرد ہونا چاہیے۔ قومی بیانیہ چونکہ حب الوطنی سے تقویت پاتا ہے اس لیے جب تک اپنی سرزمین کو ہر شے پر مقدم قرار دینے کی سوچ نہ اپنائی جائے تب تک معاملات کو درست کرنے اور قومی بیانیے کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔
قومی بیانیے کی بات کیجیے تو آج پوری قوم ایک بند گلی میں کھڑی بلکہ پھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس بند گلی میں بہت کچھ بند ہوگیا ہے۔ کبھی کبھی دم گھٹتا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی بسر کر رہے ہیں مگر زندگی بسر نہیں ہو رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت ہمیں گزار رہا ہے۔ عمومی گفتگو میں وطن سے محبت جھلکتی ہے نہ کسی بھی حوالے سے سنجیدہ ہونے کا تاثر ہی ملتا ہے۔ ہماری اجتماعی سوچ وطن کی محبت سے قدرے عاری ہے اور غیر سنجیدہ ہونے کے باعث مطلوب نتائج بھی پیدا نہیں کر پارہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کی تگ و دَو میں الجھا ہوا عام پاکستانی زندگی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ معاملہ ویسے بھی ذوق و شوق کا ہوتا ہے۔ اپنے اور معاشرے کے لیے سنجیدہ وہی ہو پاتے ہیں جو سنجیدہ ہونا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی سنجیدگی تربیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ تریت کوئی دے بھی سکتا ہے اور کسی نہ کسی طور خود بھی کی جاسکتی ہے۔
اس وقت ''پاکستانی بیانیہ‘‘ توانا کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کام کیسے ہوگا‘ اس حوالے سے سرِدست کچھ سوجھتا نہیں۔ اس وقت ہماری اجتماعی سوچ قابلِ رحم حالت میں ہے۔ تمام اہم امور سطحی معاملات کی بھول بھلیوں میں گم ہوچکے ہیں۔ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے لیے سوچنے کے لیے کچھ ہے نہ بولنے کے لیے۔ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا ہے؟ شاید کچھ بھی نہیں! کم از کم سوچ کی سطح پر تو ایسا ہی ہے۔ ہم بہت کچھ بننا چاہتے ہیں، بہت کچھ کرنے کی خواہش بھی ہے مگر یہ خواہش اُتھلے پانی جیسی ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے سے متعلق ہماری خواہشات سطحی نوعیت کی ہیں۔ وہ ذوق ہے نہ شوق جو کسی بھی قوم کو بلند کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم شروع سے ایسے ہی تھے۔ ملک کے قیام کے بعد کم و بیش دو عشروں تک قوم نے ایسی شاندار کارکردگی دکھائی دی تھی کہ دنیا حیران رہ گئی تھی۔ دنیا کو حیران ہونا ہی تھا۔ جس مملکت کے بارے میں سوچا جارہا تھا کہ چند ہی دنوں میں گھٹنے ٹیک دے گی وہ نہ صرف یہ کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی تھی بلکہ بہت سوں کو منہ دینے کے قابل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سب کچھ اس قدر حیرت انگیز تھا کہ معاملات کو خراب کرنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ عالمی برادری کے چودھری بھلا اس بات کو کیونکر ہضم کرسکتے تھے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے معرضِ وجود میں آنے والا ملک اِتنی تیزی سے مضبوط ہو کہ کچھ بننے اور کر دکھانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اِس کے بعد جو کچھ بھی ہوا ہے وہ دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت اور حالات نے اتنی کروٹیں بدلی ہیں کہ ہم دب دباکر رہ گئے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حالات نے کروٹیں بدلی نہیں‘ کروٹیں بدلائی گئی ہیں۔ خیر‘ ہر معاملے میں بیرونی سازش کی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی سازشیں بھی کی جاتی رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے حوالے سے، قوم کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کے بارے میں سوچا یا نہیں۔ اس سوال کا جواب عمومی سطح پر نفی میں ہے۔ اس وقت اولین ذمہ داری اپنے احتساب کی ہے۔ جب تک ہم اپنے معاملے کو درست نہیں کریں گے تب تک قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا ہے کہ اس قوم کے لیے کیا کیا کِیا جاسکتا ہے۔ اِس سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ ہم نے اب تک قوم کے لیے کیا خدمات سرانجام دی ہیں۔ خالص انفرادی سطح کے معاملات کی آگ بجھاتے بجھاتے ہم بھول گئے کہ ہر ایک کے انفرادی وجود سے بلند بھی ایک چیز ہوتی ہے جسے قوم کہتے ہیں۔ قوم سے متعلق ہر بات اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے سامنے ہمارے انفرادی چہرے نہیں ہوتے بلکہ قوم کا چہرہ ہوتا ہے۔ قوم کا چہرہ دیکھ کر ہی اندازے قائم کیے جاتے ہیں، کوئی رائے بنتی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ ہم نے اب تک نہیں کیا۔ جو سنجیدگی لازم تھی وہ اپنائی نہیں گئی۔ عمومی سطح کی زندگی کے جھمیلوں سے بلند ہونے کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔ اب تک سارا زور انفرادی سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے پر دیا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی بیانیہ ملک کے قیام کے بعد ابتدائی دو عشروں کے دوران بہت مضبوط تھا۔ ایک قوم ہونے کا احساس توانا تھا۔ نسلی تفاوت کا معاملہ تو تب بھی تھا۔ لسانی تنوع تب بھی تھا۔ ثقافتیں تب بھی جدا جدا تھیں مگر پھر بھی سب نے مل کر ایک قوم ہونے کا تاثر دیا تھا۔ دلوں میں صرف ایک جذبہ تھا‘ یہ کہ کسی نہ کسی طور اِس مملکتِ خداداد کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کرنا ہے اور دنیا کو دِکھا دینا ہے کہ یکسر بے سر و سامانی کی حالت میں بقا کی جدوجہد کرنے والی قوم کس طور وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو وہ سوچ سکتی ہے۔ فکر کو عمل سے ہم کنار کرنے کی خواہش اِتنی شدید تھی کہ دنیا اُسے محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی۔
آج پھر وہی جذبہ درکار ہے جو ہمیں بھرپور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی بات کہنے کے قابل بناسکے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اجتماعی سوچ کو واضح رنگ و روپ دیا جائے۔ یہ کام اہلِ دانش کا ہے کہ قدم قدم پر قوم کو بھرپور اعتماد کے ساتھ جینے کی راہ دکھائیں۔ معاملات اب آسان نہیں رہے۔ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی بھرمار نے زندگی کے ہر پہلو کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ اب قومی یا اجتماعی سوچ کو ڈھنگ سے پروان چڑھانا آسان نہیں رہا۔ یہ کام محض کہہ دینے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے سنجیدگی درکار ہے اور وہ بھی جنگی بنیادوں پر۔
پاکستانی بیانیہ حب الوطنی کو پروان چڑھائے بغیر پنپ نہیں سکتا۔ ہم ایک ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں ہمارے لیے کچھ خاص نہیں۔ زندگی انفرادی سطح کے معاملات میں ایسی الجھی ہے کہ اِس میں قوم کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ کیفیت ختم کرنا ہوگی تاکہ پاکستانی بیانیہ پروان چڑھے۔ پاکستانی بیانیہ یعنی ہر معاملے میں پاکستانی ہونے کی سوچ۔ ملک و قوم کو اولیت دینے کی سوچ۔ یہ سوچ زمینی حقیقتوں سے بھی ہم آہنگ ہونی چاہیے اور ملت کے تصور سے بھی۔ بس اتنا یاد رہے کہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے ہم اپنے لیے طاقتور بیانیہ مرتب نہیں کرسکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved