تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-08-2013

بندگلی میں کھڑے ووٹر کیا کریں؟

ایک مدت کے بعد ایسا ہوا کہ چار دن تک جدید دنیا سے رابطہ مکمل طور پر منقطع رہا۔ موبائل فون، ٹیلی ویژن اور اخبار کی شکل تک نہ دیکھی۔ بلڈ پریشر ٹھیک رہا۔ نہ غصہ آیا اور نہ ہی کسی قسم کا ڈیپریشن ہوا۔ لاعلمی بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر عنقا ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چار دن سے مسلسل سفر میں ہوں اور سفر بھی ان علاقوں کا جہاں موبائل کے سگنل نہیں آتے۔ گلگت بلتستان کے ضلع استور میں، استور کے دور افتادہ گائوں تری شنگ اور راما میں۔ پھر دیو سائی کے میدانوں میں، چلم نالے کے ساتھ ساتھ، سوشر جھیل کے کناروں پر اور وٹو ندی کے سنگم پر‘ اپنے صابر شاکر بچوں کے ساتھ‘ پتھریلے اور کچے راستوں پر تمام جدید سہولتوں سے بے نیاز اور مصیبتوں سے محفوظ۔ رات استور کے ریسٹ ہائوس میں اس سفر پر کالم لکھنا شروع کیا مگر مکمل ہونے سے پہلے نیند آگئی۔ اسلام آباد سے استور تک مسلسل بیس گھنٹے کا سفر۔ اگلے روز پھر بارہ گھنٹے کا سفر اور اسی طرح کا پھر اگلا دن۔ پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند آگئی۔ اگلے روز صبح پھر سفر درپیش تھا‘ قریب دس گھنٹوں کا۔ غیر آرام دہ اور مشقت بھرا۔ کالم ادھورا رہ گیا اور میں سکردو پہنچ گیا۔ شام کو کچورا جھیل کے کنارے ریسٹ ہائوس میں فون آن کیا تو سگنل آرہے تھے۔ پہلا فون رانا محبوب کو کیا اور حلقہ این اے 177 کا نتیجہ معلوم کیا۔ نتیجہ میری توقعات کے عین مطابق تھا۔ پاکستان میں سیاست کی صورتحال نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ امیدوار، ووٹر اور سیاسی پارٹیاں… ہر طرف جھوٹ، فریب، دغا بازی، حماقت اور بے شرمی کا ملا جلا رجحان ہے۔ بچپن سے ایک محاورہ سنتے آرہے ہیں کہ عشق و محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اب یار لوگوں نے اس میں یہ اضافہ کردیا ہے کہ سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر اس ترمیم شدہ محاورے کی آڑ میں اس طرح کھل کھیلے ہیں کہ محبت اور جنگ کی چالبازیاں، دھوکے اور فریب سب ہیچ ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ بات درست کہ سیاست میں بہت کچھ جائز قرار پا چکا ہے مگر ہر بے اصولی کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں سیاست کا معاملہ بے اصولی کی ساری حدیں پار کر چکا ہے۔ کسی قسم کا کوئی ضابطہ اخلاق رہا ہے اور نہ ہی کوئی اصول۔ نہ کوئی شرم رہی ہے اور نہ ہی اقدار۔ سارا معاملہ الیکشن جیتنے کی خواہش سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اسی خواہش نے حلقہ این اے 177 میں میاں صاحبان کو، مسلم لیگ ن کو اور اعلیٰ حضرت جمشید دستی کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا ہے۔ جعلی ڈگری فیم جمشید دستی نے مظفر گڑھ کے دو قومی حلقوں این اے 177 اور 178 سے بھاری اکثریت سے جیت کر بہت سے لوگوں کو حیران کردیا تھا۔ جمشید دستی نے یہ دونوں سیٹیں آزاد حیثیت سے جیتیں۔ حلقہ این اے 178 جمشید دستی کا پرانا حلقہ تھا اور این اے 177 سے اس نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا۔ گزشتہ انتخابات اس نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑے اور جیتے لیکن اس کی دلی خواہش بہرحال حلقہ این اے 177 سے الیکشن لڑنا تھا۔ اس حلقے سے اس کی محبت کی کوئی اور وجہ نہیں تھی بلکہ یہ سارا معاملہ مال کمانے کا تھا۔ مظفر گڑھ تھرمل پاور سٹیشن اور کوٹ ادو پاور کمپنی کو سپلائی ہونے والا فرنس آئل، پار کومڈ کنٹری آئل ریفائنری کی ملک کے طول و عرض میں جانے والی پٹرولیم مصنوعات، محمود کوٹ میں واقع پی ایس او کا بلک ڈپو اور ان تمام چیزوں سے وابستہ آئل ٹینکروں اور تیل چوروں کا مافیا۔ اس سارے معاملے میں بھتہ اور جگا ٹیکس سے اتنی وصولی ہوسکتی ہے کہ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا مگر جمشید دستی ظاہر ہے عام آدمی نہیں ہے۔ اگر وہ عام آدمی ہوتا تو ابھی تک مظفر گڑھ کی ضلع کچہری میں حافظ احمد بخش پتافی ایڈووکیٹ کے پاس منشی گیری کررہا ہوتا یا پاکستان آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدر یوسف شاہوانی کے پاس بطور سیکرٹری نوکری کررہا ہوتا۔ اسی نوکری میں اسے تجربہ ہوا کہ آئل ٹینکروں کا مظفر گڑھ میں کتنا وسیع و عریض کام ہے اور اس سے کتنی آمدنی وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارا بزنس مظفر گڑھ تھرمل پاور سٹیشن کے سوا حلقہ این اے 177 میں تھااور وہاں سے پیپلزپارٹی کی طرف سے حنا ربانی کھر ممبر قومی اسمبلی تھیں۔ سید یوسف رضا گیلانی مختلف وجوہات کے باعث‘ جس میں ایک وجہ شاید رشتہ داری بھی تھی‘ حنار ربانی کھر کے حمایتی تھے۔ اسی معاملے پر جمشید دستی کا پہلے یوسف رضا گیلانی سے اور پھر پیپلزپارٹی سے جھگڑا ہوگیا۔ جھگڑے کی وجہ صرف اور صرف حلقہ این اے 177 تھا۔ جمشید دستی نے پیپلزپارٹی چھوڑی اور دونوں حلقوں سے آزاد الیکشن لڑا اور جیتا۔ جمشید دستی کی اس غیر معمولی کامیابی کے پیچھے صرف دو چیزیں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ مظفر گڑھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتا تھا اور دوسری یہ کہ وہ خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف نعرہ زن تھا۔ ان دو نعروں کے علاوہ ’’ٹوٹل‘‘ ڈرامہ تھا۔ دونوں حلقوں سے جیتنے کے بعد کا معاملہ تو ابھی ایک طرف رکھیں‘ دوران الیکشن اس نے حلقہ این اے 177 کے ووٹروں سے جلسوں میں قسمیں کھائیں اور وعدے کیے کہ وہ دونوں حلقوں سے جیتنے کے بعد حلقہ این اے 178 تو چھوڑ دے گا مگر این اے 177 کسی صورت میں نہیں چھوڑے گا۔ محمود کوٹ، سناواں اور شیخ عمر وغیرہ کے جلسوں میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بار بار کہا کہ اگر وہ جیتنے کے بعد حلقہ این اے 177 چھوڑے تو اسے اس کی ماں نے دودھ نہیں پلایا۔ مگر بہرحال اس نے حلقہ 178 کی سیٹ رکھی اور حلقہ 177 کی سیٹ چھوڑ دی۔ سرائیکی صوبے کے زبردست حامی جمشید دستی نے پچھلے دس سال میاں صاحبان کو اور ان کے تخت لاہور کو گالیاں دینے میں گزاری۔ جیتنے کے بعد بڑی مشکل آن پڑی کہ اب کہاں جائیں۔ تحریک انصاف میں بذریعہ شاہ محمود کوشش کی مگر ناکام رہا۔ مسلم لیگ کا معاملہ فریقین کے لیے ذرا مشکل تھا۔ کوئی پارٹی جوائن نہ کرنے کے باعث دستی آزاد رکن قرار پایا۔ اب حلقہ 177 کا ضمنی الیکشن آگیا۔ موروثی سیاست کے خلاف ایک عشرے سے مورچہ زن جمشید دستی نے اپنے بھائی جاوید دستی کو امیدوار کھڑا کردیا۔ جمشید اب اپنے تیئں کنگ میکر بن چکا تھا کہ جسے چاہے کھڑا کرے اور جتوا دے۔ لہٰذا موروثی سیاست کے خلاف نعرے لگا کر جیتنے والے جمشید دستی نے اپنے بھائی کے لیے مسلم لیگ ن سے مدد مانگی۔ پہلے پہل مظفرگڑھ کی مسلم لیگ ن نے بڑا واویلا اور اچھل کود کی مگر بعد میں تمام غل غپاڑہ کرنے والے ایک محاورے کے مطابق ’’پانی‘‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ حلقہ این اے 177 سے گزشتہ عام انتخابات میں ناکام ہونے والے مسلم لیگ کے امیدوار خالد گرمانی کے بھائی طارق گرمانی، ایم این اے سلطان ہنجرا، مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر ارشد گدارہ اور جنرل سیکرٹری حماد نواز ٹیپو (جو اسی ضمنی انتخاب میں مظفر گڑھ کے صوبائی حلقہ پی پی 254 سے جیتا ہے) جمشید دستی کے ساتھ بیٹھ کر اس کی حمایت کا اعلان کیا اور پریس کانفرنسیں کیں۔ سیاسی ڈراموں کے ماہر جمشید دستی نے چار سال تک مظفر گڑھ کے مشہور و معروف ہیجڑے شاہانہ عرف شانی کے تھیٹر میں اپنی زنانہ پرفارمنس سے دھومیں مچانے والے اپنے بھائی جاوید دستی عرف جاویداں باجی کیلئے مسلم لیگ ن کی قیادت کی حمایت بھی حاصل کرلی اور مسلم لیگ ن کے تمام ان جاگیرداروں کی حمایت بھی‘ جنہیں گالیاں دے کر وہ غریبوں کا لیڈر بنا۔ اس سارے ڈرامے میں دس سال تک میاں صاحبان، گرمانیوں اور ہنجرائوں کو گالیاں دینے والے جمشید دستی کو سب گالی زدہ فریقین کی حمایت حاصل کرتے ہوئے رتی برابر شرم محسوس نہ ہوئی اور دوسری طرف دس سال تک گالیاں کھانے والے میاں صاحبان کو بھی جمشید دستی کی حمایت کرتے ہوئے ذرا بھی خیال نہیں آیا۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف نعرے لگا لگا کر گلا بٹھا لینے والے جمشید دستی کو گرمانیوں اور ہنجرائوں کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کی انتخابی مہم چلاتے ہوئے رتی برابر شرم نہ آئی۔ جنرل الیکشن 2013ء میں حلقہ این اے 177 میں جمشید دستی نے آزاد حیثیت سے ایک لاکھ تین ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تھے، پیپلزپارٹی کے ملک نور ربانی کھر نے انچاس ہزار اور مسلم لیگ ن کے امیدوار خالد گرمانی نے تقریباً بائیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب جمشید دستی نے مسلم لیگ ن کی مکمل حمایت اور اس کے امیدوار کی غیر موجودگی کے باوجود اپنے بھائی کے لیے ساٹھ ہزار ووٹ حاصل کیے جبکہ گزشتہ انتخابات میں اس سے بری طرح شکست کھانے والے حنا ربانی کے والد نور ربانی کھر نے تقریباً نو ہزار ووٹوں سے جمشید دستی کے بھائی کو ہرا دیا۔ یہ سارا انقلاب محض تین ماہ اور نو دن میں آیا ہے۔ حلقے میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ماسوائے اس کے کہ اب پنجاب اور مرکز دونوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور وہ برادرِ دستی کی مدد کررہی تھی اور جمشید دستی کے تقریباً سارے مخالفین اب اس کے ساتھ تھے۔ سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی بے شرمی، دغا بازی، جھوٹ اور فریب اپنی جگہ مگر حلقہ این اے 177 کے ووٹروں نے اپنے ضمیر کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ گو کہ ربانی کھر بھی کوئی مناسب انتخاب نہیں مگر بند گلی میں کھڑے ہوئے ووٹروں کے پاس جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی اور بے شرمی کو مسترد کرنے کا کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ این اے پشاور اور این اے 71 میانوالی کے ووٹروں نے بھی یہی کیا ہے مگر اس کی وجوہات این اے 177 سے قطعاً مختلف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved