تازہ ترین خبر دل تھام کر سنیے۔ راجستھان سے تعلق رکھنے والے‘ حکمران جماعت‘ بی جے پی‘ کے سرکردہ رکن گیان دیو آہوجہ نے بڑے فخر سے بتایا ہے کہ اب تک اس نے گائے کُشی کے ''جرم‘‘ میں پانچ مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ گیان دیو نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس نے کارکنوں کو اس سلسلے میں فری ہینڈ دیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے کارکنوں کو ضمانت پر رہا کرا لیا جائے گا۔
اس فخریہ اعلان کو آپ بہت بڑے گلیشیر کا صرف ایک ذرا سا حصہ سمجھیے جو نظر آگیا ہے ورنہ بھارت اس وقت مسلمانوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کو ذرا ذرا سے بہانے پر مارا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشرقی کنارے پر آسام ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صدیوں سے وہاں رہنے والے آسامی مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں یہاں تک کہ بھارتی فوج سے ریٹائر ہونے والے مسلمانوں کو بھی غیر بھارتی قرار دیا جا رہا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل میں عربوں کو باڑوں (Ghettos) میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ آسامی مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے اور پھر یہ عمل پورے بھارت میں دہرایا جائے۔ بھارت کے مغربی کنارے پر راجستھان ہے۔ اس میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس کا اندازہ گیان دیو کے مندرجہ بالا بیان سے آپ لگا چکے ہیں۔
سب سے بڑی ذمہ داری‘ اس ضمن میں‘ پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام پر ہے۔ بھارتی مسلمان‘ پاکستانی مسلمانوں کے جسم کا حصہ ہیں! وہ ہمارے ہی دل اور جگر کے ٹکڑے ہیں جو وہاں رہ گئے ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی سرد مہری اس معاملے میں عیاں ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں جو کچھ کشمیر کے ساتھ ہوا وہ حکومت کی صفر کارکردگی پر دلیل ہے۔ موجودہ حکومت کا رویہ بھی مختلف نہیں۔ ماضی کی ساری حکومتیں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں۔ رہا لمحۂ موجود تو کیا حکومت اور کیا سیاسی جماعتیں‘ سب حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ جنگ حکومت میں آنے کے لیے ہے۔ افضل منہاس کا شعر یاد آرہا ہے ؎
وہ جنگِ زرگری ہے کہ محشر بپا ہوا
ہر شخص ایک عمر سے اگلی صفوں میں ہے
بھارتی مسلمان تو ایک طرف رہے‘ پاکستان کی سیاسی جماعتیں آج کل پاکستانی عوام سے بھی لاتعلق ہیں۔ جو حکومت میں ہیں وہ حکومت میں رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ جو حکومت میں نہیں ہیں وہ '' انقلاب‘‘ برپا کر کے تخت پر متمکن ہونا چاہتی ہیں۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے وہ پاکستانی اہلِ سیاست کو کہاں نظر آئے گی !
جو کچھ بھارتی مسلمانوں پر‘ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر بیت رہی ہے اس سے ایک اور طلسم بھی ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔ ہم جیسے طالب علم تو خیر اس طلسم کے اسیر کبھی بھی نہ تھے‘ مگر ہمارے جذباتی پاکستانی مسلمانوں کا کیا کہنا‘ ان کی امیدوں کا مرکز ہمیشہ سے امتِ مسلمہ رہی ہے۔ تصور یہ ہے کہ جیسے ہی دنیا کے کسی گوشے میں کسی مسلمان پر بُرا وقت آئے گا تو امت کا لشکرِ جرار‘ گھوڑے دوڑاتا‘ نیزے لہراتا‘ تلواریں بجلی کی طرح چمکاتا‘ ظاہر ہو گا اور آن کی آن میں کفار کو تہس نہس کرتا مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلا دے گا۔ افسوس! ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کی موجودہ مالی حالت دیکھ لیجیے۔ آئی ایم ایف ناک سے لکیریں کھنچوا رہا ہے۔ ہم اس ادارے کے سامنے حالتِ رکوع میں ہیں۔ تو کہاں ہے امت؟ اگر امت کا وجود ہوتا تو پاکستان کو اس مصیبت سے نکالنے کے لیے ایک کنسورشیم (Consortium )کب کا وجود میں آچکا ہوتا۔ افغانستان کے اثاثے امریکہ نے ضبط کیے ہوئے ہیں۔ بھوک افغانستان میں وحشیانہ رقص کر رہی ہے۔ ہر شخص ملک سے بھاگنے کے چکر میں ہے۔ کہاں ہے امتِ مسلمہ؟ کہاں ہے وہ وجود جس کا افغانستان اور پاکستان حصہ ہیں؟ تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ہم نے پوری دنیا میں امت کا غلغلہ برپا کیا ہوا ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک تک ہم ایک اور نیک ہونے کا پرچار کرتے ہیں۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ یمن میں کیا ہو رہا ہے؟ شام اور عراق کس دوزخ میں جل رہے ہیں؟ ایرانیوں اور عربوں کے درمیان کیا چل رہا ہے؟ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک قطر تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔ امریکہ نے عراق کو ملیامیٹ کرنا تھا تو ہوائی مستقر خطے کے مسلمان ملکوں ہی نے پیش کیے۔ امتِ مسلمہ کا عبرت ناک پیش منظر دیکھیے کہ ایرانی عربوں سے خائف ہو کر روس کی طرف دیکھ رہے ہیں اور عرب ایران کے ڈر سے اسرائیل کی پناہ میں جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اہلِ مغرب کو دیکھیے۔ کبھی انہوں نے مسیحی دنیا کے اتحاد کا شور نہیں برپا کیا۔ مگر عملاً وہ ہر پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مارشل پلان نے تباہ حال مغربی یورپ کو سہارا دیا اور ایسا سہارا دیا کہ مغربی یورپ جند برسوں ہی میں گڑھے سے نکل کر آسمان پر جا پہنچا۔ ایسٹ تیمور کو مغربی طاقتوں نے مذہبی بنیادوں پر الگ کر دکھایا۔ جنوبی سوڈان میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ سب کام شور برپا کیے بغیر‘ نعرے لگائے بغیر‘ ہوئے۔
ہم بھارتی مسلمانوں کے حالِ زار کی طرف واپس آتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر پچپن مسلمان ممالک بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو بھارت برداشت کر سکے گا؟ کبھی نہیں! امیر سے امیر ملک بھی اتنا وسیع البنیاد مقاطعہ نہیں برداشت کر سکتا۔ چند ہفتوں میں چِیں بول اُٹھے گا۔ لولی لنگڑی اپاہج اسلامی کانفرنس (OIC) جو لاٹھی ٹیکتی‘ کھانستی کبھی کبھی نظر آجاتی ہے‘ کیا اس کے پلّے کوئی کارنامہ ہے؟ بھارتی مسلمانوں‘ بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور بھارتی حکومت کی نگرانی میں ہو رہا ہے‘ اس پر اسلامی کانفرنس اجلاس کیوں نہیں بلاتی؟ تجارتی بائیکاٹ کا بندوبست کیوں نہیں کرتی؟ کیا اُس دن کا انتظار کر رہی ہے جب بھارت میں ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ کیا یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ معروف بھارتی سفارتکار ڈی پی دھر‘ ہسپانیہ جا کر باقاعدہ تحقیق کرتا رہا کہ مسلمانوں کو وہاں سے نابود کس طرح کیا گیا تھا۔ یہ وہی ڈی پی دھر ہے جو اندرا گاندھی کا دستِ راست تھا اور1971ء میں مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے پیچھے اصل دماغ اُسی کا تھا۔ معاشی بائیکاٹ اتنا بڑا ہتھیار ہے کہ سفارتی بائیکاٹ کی نسبت بھی کئی گُنا زیادہ مؤثر ہے۔ مگر یہ تو شیخ چلی والا خواب ہے! کون سی اسلامی کانفرنس! کون سا مسلم اتحاد؟ کون سا امت کا درد؟ اصل میں تو اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ بھارت مسلمان طاقتو ں کی آنکھ کا تارا اور جگر کا ٹکڑا ہے۔ کہیں اسے خوش کرنے کے لیے مندر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ کہیں مودی کو تمغے دیے جا رہے ہیں۔ کہیں کروڑوں اربوں کے اقتصادی معاہدوں پر دستخط ہو رہے ہیں۔
اس صورت حال میں ایک ہی راستہ بچا ہے۔ پاکستان پر لازم ہے کہ اسلامی کانفرنس کا اجلاس طلب کرے۔ یہ اجلاس پاکستان میں ہو۔ اس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا ہو اور وہ ہو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار! اس میں بھارت کے معاشی بائیکاٹ کی تجویز رکھی جائے۔ پاکستان کے بہترین دماغ اور بہترین مقرر مسلمان حکمرانوں کو قائل کرنے کے لیے مامور کیے جائیں۔ ورنہ یاد رکھیے ادتیا ناتھ جیسے متعصب پروہت مسلمانوں کو کچلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھیے‘ ادتیا ناتھ بھارتی وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ وزیراعظم بن گیا تو اندیشہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved