نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلوں کو فتح فرماتے تھے۔ قلعے تو اس کے بعد فتح ہوتے ہیں۔ اللہ نے آپﷺ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ ہر معجزہ ایمان افروز ہے۔ ایسا ہی ایک معجزہ سیرت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اردو میں اس کی تفصیلات ''معجزات سرورِ عالمﷺ‘‘ میں ملتی ہیں، جو عراقی عالم دین الشیخ ولید الاعظمیؒ کی عربی کتاب ''المعجزات المحمدیہﷺ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں نبی کریمﷺ کے ایک سو سے زائد معجزات کی تفصیل دی گئی ہے۔
ابن اسحاقؒ نے بیان کیا ہے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے عروہ بن زبیر کی زبانی یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا۔ عمیربن وہب الحمجی جنگ بدر کے کچھ عرصہ بعد صفوان بن امیہ کے ساتھ مکہ میں بیٹھا تھا۔ عمیربن وہب قریش کے ان لوگوں میں سے تھا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپﷺ کے صحابہؓ کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ اس کا بیٹا وہب بن عمیر جنگ بدر میں شریک تھا۔ وہ کفار کی شکست کے بعد دیگر جنگجوؤں کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قیدی بن گیا تھا۔
عمیر نے جنگ بدر کے حالات پر اظہارِ افسوس کیا، اپنے بیٹے اور دیگر جنگی قیدیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورپاکﷺ اور مسلمانوں کے بارے میں برے الفاظ استعمال کیے۔ صفوان نے سن کر کہا: ''خدا کی قسم! جو لوگ بدر میں مارے گئے ان کے بعد زندگی کا کوئی لطف باقی نہیں رہا‘‘۔ عمیر نے کہا: ''بخدا تم نے سچ کہا۔ خدا کی قسم اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ نہ ہوتا اور اہل وعیال کی فکر دامن گیر نہ ہوتی جن کا میری عدم موجودگی میں ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے تو میں ضرور مدینہ جاکر محمد کو قتل کردیتا (نعوذباللہ)۔ مدینہ جانے میں میرے لیے یہ بہانہ بھی ہے کہ میرا بیٹا ان لوگوں کے ہاتھوں میں قید ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس سے ملنے آیا ہوں‘‘۔صفوان نے موقع کو غنیمت جانا اور کہنے لگا: ''تمہارا قرض میں اپنے ذمے لیتا ہوں اور تیرے اہل وعیال کو میں اپنے اہل عیال کی طرح سے اپنی سرپرستی میں رکھوں گا‘‘۔
عمیر نے اس سے کہا: ''بس اس معاملے کو کسی پر ظاہر نہ کرنا‘‘۔ اس نے کہا: ''میں کسی کو نہیں بتاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار خوب تیز کی اور اسے زہر میں بجھا دیا۔ پھر وہ مدینہ کی طرف چل پڑا۔ مدینہ پہنچ کر اس نے حضرت عمرؓبن خطاب کو مسلمانوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس وقت وہ لوگ جنگ بدر کا تذکرہ کررہے تھے اور اس جنگ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں جو عزت بخشی تھی اور ان کے دشمنوں کو جس عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ حضرت عمرؓبن خطاب ہمیشہ دشمنانِ اسلام پر کڑی نظر رکھا کرتے تھے۔ آپؓ نے عمیر بن وہب کو دیکھا کہ وہ تلوار سے مسلح تھا اور اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھا رہا تھا۔ آپؓ اس کے ارادوں کو بھانپ گئے۔
اس موقع پر حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ''یہ دشمنِ خدا عمیر بن وہب ہے۔ خدا کی قسم! یہ کسی شرارت کے لیے آیا ہے۔ یہی ہے جس نے بدر کے میدان میں دشمنوں کو ہمارے اوپر چڑھائی کے لیے آمادہ کیا اور ہماری تعداد کا اندازہ اسی نے بتایا تھا‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: ''اے اللہ کے نبیﷺ! دشمنِ خدا عمیر بن وہب اپنی تلوار لے کر آیا ہے اور اس کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اسے میرے پاس لے آؤ‘‘۔ حضرت عمرؓ اس کے پاس گئے اور اسے کھینچتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپؓ نے اپنے انصاری ساتھیوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ جائیں اور اس دشمنِ اسلام پر نظر رکھیں کیونکہ اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا کہ عمرؓ اسے پکڑے ہوئے لارہے ہیں تو فرمایا: ''عمرؓ اسے چھوڑدو‘‘۔ پھر عمیر سے کہا: ''اے عمیر یہاں میرے پاس آؤ‘‘۔ عمیر آپﷺ کے پاس پہنچا اور اپنے جاہلانہ طریقے کے مطابق سلام کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلام دعا کا بہتر طریقہ سکھایا ہے اور یہ اہلِ جنت کا طریقہ ہے جس میں سلامتی اور رحمت کی دعا دی جاتی ہے‘‘۔عمیر نے کہا: ''بخدا آپ جانتے ہیں کہ یہ طریقہ زیادہ پرانا نہیں‘ اس لیے مجھے معاف کیجیے، میں اس سے بے خبر ہوں‘‘۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ''اے عمیر! کس ارادے سے آئے ہو‘‘؟ اس نے جواب دیا: ''میرا بیٹا آپ کے پاس قیدی ہے۔ میں اسی کے لیے آیا ہوں۔ میرے ساتھ نیکی کریں اور اسے چھوڑ دیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''یہ تیرے گلے میں جو تلوار لٹک رہی ہے اس کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو غارت کر دیا۔ کیا ان تلواروں نے (بدر میں) ہماری کوئی مدد کی؟‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے سچ سچ بتادو کہ تم کس کام کے لیے آئے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''میں تو اسی کام کے لیے آیا ہوں جس کا میں ذکر کرچکا ہوں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تم نے جھوٹ بولا، تم صفوان بن امیہ کے ساتھ بیت اللہ میں حجرِ اسود کے قریب بیٹھے تھے پھر تم نے قریش کے مقتولین کا آپس میں ذکر کیا تو تم نے صفوان سے کہا اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ اور اہل وعیال کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں جا کر محمد کا کام تمام کردیتا۔ تمہاری بات سن کر صفوان نے تمہارا قرض بھی اپنے ذمے لے لیا اور تمہارے اہل وعیال کی دیکھ بھال کا وعدہ بھی کیا۔ تم مجھے قتل کرنے کے لیے آئے ہو مگر میرے اور تمہارے ارادے کے درمیان اللہ تعالیٰ حائل ہے‘‘۔
نبی اکرمﷺ دشمن کے ارادوں سے واقف تھے۔ ارادۂ قتل سے آنے والے دشمن کو آپ قتل کرنے کا حکم بھی صادر کرسکتے تھے، مگر آپﷺ رحمۃ للعالمین تھے۔ آپﷺ کے حلم اور بردباری کو دیکھتے ہوئے عمیر نے کہا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ پھر کہا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہمیں جو آسمان کی خبریں بتایا کرتے تھے اور آپﷺ پر جو وحی نازل ہوا کرتی تھی ہم اسے جھٹلاتے تھے۔ اب یہ معاملہ جس کی آپﷺ مجھے خبر دے رہے ہیں اس کا علم میرے اور صفوان کے سوا کسی کو نہ تھا۔ خدا کی قسم میں اچھی طرح جان گیا ہوں کہ اس کی خبر سوائے اللہ کے آپﷺ کو کسی نے نہیں دی۔ پس حمد وثنا اس اللہ کی جس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی اور مجھے چلا کر یہاں تک پہنچایا اور حقیقتِ حال میرے اوپر واضح ہوگئی‘‘۔ اس کے بعد عمیر نے کلمۂ شہادت پڑھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قبولِ اسلام پر خوش ہوئے اور آپﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ اور اسے قرآنِ مجید پڑھاؤ، نیز اس کے قیدی کو آزاد کردو‘‘۔ صحابہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد حضرت عمیرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حالتِ کفر میں اللہ کے بندوں کو شدید تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا اور اللہ (کے دین) کی روشنی کو بجھانے میں کوشاں تھا۔ آپﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں مکہ جاؤں اور اہلِ مکہ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور دینِ حق کی طرف دعوت دوں شاید اللہ انہیں ہدایت دیدے۔ اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو جس طرح میں اہلِ حق کو تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا اسی طرح دشمنانِ حق کو بھی ایذا پہنچاؤں گا‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمیرؓ کو اجازت دے دی اور وہ مکہ چلے گئے۔
حضرت عمیرؓ کے مدینہ کی طرف روانہ ہونے کے بعد صفوان بن امیہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ عمیر جلد ہی کوئی خوش خبری لائے گا۔ وہ اہلِ مکہ کو ہر روز بتاتا کہ عنقریب تمہیں ایک خوش خبری سناؤں گا، جس کے بعد تم بدر کے غم کو بھول جاؤ گے۔ صفوان ہر قافلے سے حضرت عمیرؓ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ ایک دن ایک سوار آیا اور اس نے صفوان کو بتایا کہ عمیر مسلمان ہوگیا ہے۔ صفوان کو بڑا افسوس ہوا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ نہ تو عمیر سے کبھی کلام کرے گا اور نہ اسے کوئی نفع پہنچائے گا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت عمیر جب مکہ پہنچے تو لوگوں کو کھلے عام اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اگر کوئی آپؓ کی مخالفت کرتا تو آپؓ اسے آڑے ہاتھوں لیتے۔ آپؓ کو کسی کا ڈر خوف نہ تھا۔ آپؓ کے ہاتھ پر کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ واقعہ اور اس کی تفصیلات درج ذیل مآخذ میں ملتی ہیں: ۱۔ سیرۃ ابن ہشام، قسم اول، ص: 663۔ ۲۔ الاصابۃ، جلد سوم، ص: 36۔ ۳۔ الاستیعاب، قسم ثالث، ص:1222۔۴۔ مغازی للواقدی، جلد اول، ص: 125۔ ۵۔ البدایۃ والنھایۃ، جلد سوم، ص: 313۔ ۶۔ اسدالغابۃ، جلد چہارم، ص: 149۔ ۷۔ طبقات ابن سعد، جلد چہارم، قسم اول، ص: 146۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved