سوشل میڈیا پر سیاست کو لے کر جس طرح کا طوفانِ بدتمیزی برپا ہے‘ اس کو دیکھ کر معاشرے کی ابتری کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ خاص طور پر ٹویٹر پر تو آپ بھروسہ کر ہی نہیں سکتے کہ وہاں جس طرح کے جھوٹے اور غلیظ ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں اور جس طرح ٹویٹس میں مخالفین کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں‘ اس نے رہی سہی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ آپ وہاں جتنا دلیل سے بات کرنے کی کوشش کریں گے‘ جتنی زیادہ مہذب اور شائستہ زبان استعمال کریں گے‘ اتنی ہی زیادہ گالیوں اور الزامات سے آپ کی تواضع کی جائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر طرف بغیر ثبوت الزامات کا ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ چل رہا ہے اور مختلف ٹرینڈز پر ایک دن میں ایک ملین ٹویٹس کے لیے یوں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے گویا اس طرح کرنے سے پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پاکستان ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ اس پر افسوس یہ کہ ٹرینڈ بنانے کے بعد اگر وہ خبر‘ جس پر ٹرینڈ بنایا گیا ہو‘ جھوٹی ثابت ہو جائے تب بھی اس جماعت یا گروہ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ کوئی اور جھوٹا پروپیگنڈا ٹرینڈ کے طور پر تلاش کر لیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
شہباز گل کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام عائد کیا کہ شہباز گل پر دورانِ حراست تشدد کیا گیا۔ ان کی طبیعت کی خرابی کے حوالے سے بھی مختلف الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس پر حکومت نے شہباز گل کی ہسپتال کے کمرے سے ایک وڈیو جاری کی جس میں وہ اچھے بھلے کھڑے‘ پولیس اہلکاروں سے باتیں کر رہے تھے۔ اس پر ٹرینڈ چلا دیا گیا کہ یہ تو شہباز گل ہیں ہی نہیں‘ یہ تو کوئی اور شخص ہے۔ یہ بھی کہا گیا کسی اور شخص کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے شہباز گل بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ویسے اب اتنی ''ڈیپ‘‘ بھی نہیں رہی بلکہ موبائل فون میں ایسے سافٹ ویئرز اور ایسی ایپلیکیشنز عام مل جاتی ہیں جن میں کسی بھی شخص کا چہرہ کسی وڈیو میں موجود شخص سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ صرف تصاویر کے ساتھ ہو سکتا تھا اور وڈیو میں ایسا کرنا مشکل ہوتا تھا کیونکہ وڈیو میں ہر لمحہ چہرہ متحرک رہتا ہے لیکن اب عام دستیاب سافٹ ویئرز اور ایپلیکیشنز نے یہ سب کچھ ممکن بنا دیا ہے؛ تاہم شہباز گل کی جاری کردہ وڈیوز کے حوالے سے حکومتی موقف یہ ہے کہ وڈیوز جعلی نہیں تھیں۔ چونکہ یہ تھوڑا دور سے اور ایک عام سے موبائل فون سے ریکارڈ کی گئی تھیں اس لیے اس میں شاید چہرہ کچھ بدلا بدلا محسوس ہوا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کے ''جنگجوئوں‘‘ نے خود بھی بالوں اور چہرے کو تھوڑا سا تبدیل کرکے ٹرینڈز میں شیئر کرنا شروع کر دیا جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ واقعی یہ کوئی اور بندہ ہے؛ تاہم گزشتہ روز ایک اور وڈیو سامنے آئی جس میں انہیں بولتے اور انتہائی قریب سے دکھایا گیا؛ تاہم ان باتوں اور دلائل کا سوشل میڈیا کے جنگجوئوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ ہر بات کے جواب میں دُور کی کوئی ایسی کوڑی لاتے ہیں کہ جس کا آپ کے سوال یا اس معاملے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یوں چیونگم کی طرح بات کو اتنا کھینچا اور مروڑا جاتا ہے کہ اصل حقیقت میلوں پیچھے رہ جاتی ہے اور آپ بھول بھال جاتے ہیں کہ آپ کیا سمجھانے یا بتانے چلے تھے۔ گزشتہ روز عدالت میں پیشی کے دوران شہباز گل نے الزامات عائد کیے کہ انہیں باندھ کر ان کی شیو بنائی گئی اور زبردستی انہیں ناشتہ کرایا گیا۔ اب اس پر بھی نئے ٹرینڈ بن چکے ہوں گے اور اگلے ایک دو دن‘ جب تک کوئی نیا ایشو ہاتھ میں نہیں آتا‘ غلاظت بھری پوسٹوں سے سوشل میڈیا کا میدانِ جنگ سجا رہے گا۔
گزشتہ دنوں برطانوی جریدے گارڈین کو عمران خان نے ایک انٹرویو دیا جس میں خان صاحب نے سلمان رشدی کے حوالے سے بھی بات کی۔ اس انٹرویو کے مندرجات جب سامنے آئے تو اس کے خلاف کافی عوامی ردعمل آیا، جس پر خان صاحب نے کہا کہ گارڈین نے ان کی بات کو غلط سمجھا اور پوری بات رپورٹ نہیں کی، میرا ملعون سلمان رشدی کے حوالے سے موقف بڑا واضح ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں صحافیوں کو جو انٹرویو دیا‘ اس میں اس ایشو کو خاصی تفصیل سے بیان کیا اور بتایا کہ بھارت میں ایک سیمینار میں شرکت سے انہوں نے محض اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ اس میں سلمان رشدی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گارڈین کو انہوں نے گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے اسلامی اور عدالتی طریقۂ کار کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بات سانحہ سیالکوٹ کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ گارڈین کے رپورٹر جولین بورگر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انٹرویو میں سے کچھ بھی ایڈٹ نہیں کیا گیا۔ ایسے حساس معاملے پر ایسی غلط رپورٹنگ پر یقینا خان صاحب کو اس اخبار کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے۔ یہ سوال میں نے پی ٹی آئی کے ایک شیدائی کے سامنے رکھا تو جواب آیا کہ انہوں نے ایک بار وضاحت کر تو دی ہے‘ اب کہاں کہاں وہ مقدمے کرتے پھریں۔ میں نے عرض کی کہ خان صاحب یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کس بات پر مجھے بیان دینا چاہیے اور کس بات پر نہیں۔ تو وہ صاحب بولے: خان صاحب کی مرضی‘ وہ ہر مسئلے کے ایکسپرٹ ہیں۔ ایک شیدائی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ صرف مغرب کو ہی مغرب سے زیادہ نہیں جانتے بلکہ فیس بک کو مارک زکر برگ سے زیادہ‘ ایپل کو سٹیو جابز سے زیادہ‘ مائیکرو سافٹ کو بل گیٹس سے بھی زیادہ جانتے ہیں‘ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ یہاں آ کر واقعی خاموشی بنتی ہے کیونکہ جہاں دلیل اور منطق ختم ہو جائے وہاں سے فضول باتوں اور بونگیوں کا ایک ایسا سمندر شروع ہو جاتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
خان صاحب کے حوالے سے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی جا چکی ہے کہ انہیں ناپ تول کر بولنا چاہیے اور ایسے حساس معاملات پر بالخصوص سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے مگر وہ دوسروں کی بات پر کان دھرنا شاید خلافِ شان سمجھتے ہیں اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اپنے ہر انٹرویو کے حوالے سے انہیں کوئی نہ کوئی وضاحت دینا پڑتی ہے۔ ہر موضوع پر لب کشائی وہ ضروری سمجھتے ہیں اور پھر ان کے متوالے‘ ان کے فینز اور سوشل میڈیائی واریئرز ان کے ہر بیان کو درست ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں۔ کیا ان میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ غلط کو غلط کہہ کر اس کے خلاف کھڑے ہو سکیں، وہ اپنے لیڈر کی کسی غلط بات‘ کسی غلط موقف کا دفاع کرنے سے انکار کر دیں۔ سوال تو بہت سے ہیں لیکن یہ سوال ان سے پوچھنا چاہیے جو جواب دینے کی اہلیت اور فہم رکھتے ہوں۔ یہ عجیب قسم کی جو نسل تیار کی جا رہی ہے یہ ایسا میزائل ثابت ہو گا جو بنانے والے کی جانب مڑ کر واپس پلٹے گا۔
گزشتہ ایک ماہ سے میں ٹویٹر پر بننے بکھرنے والے ٹرینڈز کا بغور جائزہ لے رہا ہوں‘ مجال ہے کہ سیلاب سے مرنے اور برباد ہونے والوں کے لیے کوئی ٹرینڈ بنایا گیا ہو یا اسے ایک ملین تک لے جانے کی کوشش کی گئی ہو۔ پورا ملک اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگوں کی عمر بھر کی کمائی سیلاب کا پانی بہا کر لے گیا ہے، ڈھور ڈنگر، مال مویشی، گھر بار، غرض سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کے کئی پہاڑی علاقے ایسے ہیں جہاں لاشوں کو دفن کرنے کیلئے خشک جگہ تک میسر نہیں ہے۔ ایسے حالات میں سیلاب پر ایک دو نحیف قسم کے ٹرینڈز چل رہے ہیں لیکن ان میں بھی ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہی کی جا رہی ہے۔ یہ بے حسی کیا ظاہر کرتی ہے؟ کیوں سارا زور اور وقت صرف سیاسی انارکی کو پھیلانے کے لیے لگ رہا ہے۔ کیا وہ لاکھوں ہم وطن جو موسمیاتی تباہی سے دوچار ہوئے‘ وہ ہمارے بھائی بہن نہیں؟ کیا یہ وقت خدانخواستہ کل کو ہمارے اوپر نہیں آ سکتا؟ اور اگر آ گیا تو ہمارے دیگر ہم وطنوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ہماری مدد کیلئے آواز اٹھانی چاہیے یا پھر انہیں بھی وہی کچھ کرنا چاہیے جو اس وقت ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved