ٹورونٹو کا موسم آج بہت سہانا ہے اور ہم نیاگرا آبشار کی طرف جا رہے ہیں۔ ٹورونٹو سے نیا گرا کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں جہاں نرم سجل دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور وسیع اجلے آسمان پر دو دھیا بادل تیر رہے ہیں۔مجھے وہ دن یاد آجاتا ہے جب آج سے ستائیس برس پیشتر ہم بچوں کے ہمراہ پہلی بار نیاگرا آبشار دیکھنے آئے تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔میں اور اسما اپنے بچوں صہیب اور ہاجرہ کے ساتھ 35 Charles Street کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے تھے۔ انہی دنوں کراچی سے ایک پاکستانی فیملی ٹورونٹو شفٹ ہوئی جن سے ہماری دوستی ہو گئی۔یہ عتیق بھائی اور نگہت بھابھی تھیں ۔ ا ن کی دو ننھی منی بیٹیاں تھیں ایک کا نام انعم اور دوسری کا نام سارا تھا۔ وہ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ایک دن ہم سب بیٹھے تھے کہ عتیق بھائی نے کہا :کیوں نا نیا گرا آبشار چلا جائے؟ مجھے یوں لگا میرے دل کی خواہش کسی نے بوجھ لی ہو۔ اگلے ویک اینڈ پر ہم نے ایک بڑی گاڑی hire کی اور نیا گرا کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ ایک یادگار ٹرپ تھا میرے اور اسما کے ہمراہ ہمارے بچے صہیب اور ہاجرہ تھے ۔اُس وقت صہیب کی عمر آٹھ سال اور ہاجرہ کی عمر چھ سال تھی ۔ عتیق اور نگہت بھابھی کے ہمرہ ان کی دو ننھی منی بیٹیاں انعم اور سارا تھیں۔ باتوں باتوں میں راستہ کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا۔اس روز نیا گرا آبشار کے اوپر دودھیادھندچھائی ہوئی تھی۔ یہاں دراصل تین آبشاریں ہیں لیکن سب سے بڑی آبشار Horse Shoe آبشار ہے جو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر واقع ہے۔ امریکہ کی طرف واقع آبشار کی زیادہ سے زیادہ بلندی 89 فٹ ہے جبکہ کینیڈا میں واقع آبشار تقریباً 160 فٹ بلند ہے۔ یہ آبشار بیک وقت خوبصورتی اور طاقت کا استعارہ ہے۔ ہم آبشار کی ریلنگ کے ساتھ بنے ٹریک پر چلتے رہے۔ چلتے چلتے ہمیں ایک بڑا پتھر نظر آیا جس پر نیا گرا آبشار کی مختصر تاریخ درج تھی ۔میں پتھر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرے سیاحوں کے ہمراہ پتھر پر Louis Hennepinکے بارے میں لکھی تحریر پڑھنے لگا۔ Louisکا تعلق بلجیم سے تھا اور وہ ایک چرچ میں پادری تھا۔ Louisایک مہم جُو شخص تھا اور مختلف ملکوں کی سیاحت اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔1698ء میں اس کی کتاب منظرِ عام پر آئی جس میں سترہویں صدی کے شمالی افریقہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ اس کتاب میں اس نے نیا گرا آبشار کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ Louis کی کتاب سے دنیا بھر کو نیا گرا آبشار کے بارے میں پتا چلا۔ یوں Louis نیا گرا آبشار کا محسن ثابت ہوا اور سیاحوں نے جوق در جوق یہاں آنا شروع کیا۔پتھر کا یہ کتبہ Louis کی یاد میں آویزاں کیا گیا ہے۔ پھر ہم نے کشتی میں بیٹھ کر نیا گرا آبشار کے پانیوں کو قریب سے محسوس کیا۔ اس سارے سفر میں پانی کی پھوار سے گزرنا ہوتا ہے ۔اس کے لیے ہمیں زرد رنگ کے رین کوٹ دیے گئے ۔یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ اس روز بچوں نے خوب لطف اُٹھایا ۔کشتی کی سیر کے بعد ہم آبشار کے قریب ادھر ادھر گھومتے رہے۔ اب ہمیں تھکن کا احساس ہو رہا تھا۔ ہم قریب ہی گھاس کے ایک قطعے پر بیٹھ گئے۔ نیا گرا آبشار کا سحر ہر طرف چھایا ہوتا تھا۔ ہمارے سامنے لوگ ریلنگ کے ساتھ بنے ہوئے راستے پر آجا رہے تھے۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ اچانک ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں کیمرہ لیے ہمیں اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر اس نے کہا: کیا میں کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے جو اب دیتے وہ بے تکلفی سے ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔ کیمرہ کندھے سے اُتار کر نیچے رکھا ۔ اس نے بتایاکہ اس کا تعلق امریکہ سے ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا: یوں توایک آبشار امریکہ کی طرف بھی ہے لیکن کینیڈین آبشار زیادہ خوبصورت ہے ‘میں ہر سال گرمیوں میں یہاں آتا ہوں۔ نیا گرا آبشار میں کوئی جادو ہے جو مجھے ہر دم بلاتا رہتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے میری ایک ہم وطن ایمی نے 64 برس کی عمر میں نیا گرا آبشار کو ایک ڈرم میں عبور کیا؟ اس کے لیے اس نے لکڑی کا ایک ڈرم بنوایا‘ اس میں داخل ہو ئی اور اس کے منیجر نے ڈرم نیا گرا کے پانیوں کے حوالے کر دیا۔ اب وہ طوفانی لہروں کے رحم و کرم پر تھی۔ یہ ناقابلِ فراموش سفر آدھ گھنٹے تک جاری رہا تب ڈرم کنارے پر ایک پتھر سے ٹکرا کر رُک گیا۔ ڈرم کو کھولا گیا تو ایمی زندہ تھی لیکن اس کے جسم پر جا بجا زخموں کے نشانات تھے۔ اس نے ناقابلِ یقین معرکہ سر کر لیا تھا۔ راتوں رات اس کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ اور وہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ ہم سب بوڑھے امریکی کی گفتگو سن رہے تھے ۔ میں نے کہا: میں نے اپنے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک شخص نے اپنی پشت پر ایک آدمی کو بٹھا کر نیاگرا کو ایک رسی پر چل کر پار کیا تھا۔ بوڑھا امریکی ہنس دیا‘ ہاں وہ Jean Graveletتھا جس نے آٹھ بار نیاگرا آبشار کو رسی پر چل کر عبور کیاتھا اور ایک بار اپنے منیجر کو اپنی پشت پر بٹھا کر نیاگرا کو رسی کے ذریعے پار کیا تھا۔
اچانک میں حال کی دنیا میں آ گیا ہوں۔ آج ہم ستائیس برس بعد پھر نیاگراجا رہے ہیں۔ صہیب کہنے لگا :ہم آبشار سے اوپر ایک ایسی بلند جگہ پر جائیں گے جہاں سے تینوں آبشاریں صاف نظر آتی ہیں۔ بل کھاتی سڑک پرآخر ہم اوپر اس مقام پرپہنچ گئے جہاں سے تینوں آبشاریں صاف نظر آرہی تھیں۔ یہ ایک دل کش منظر تھا۔ پھر ہم نیا گرا کے پرانے شہر کو دیکھنے چلے گئے۔ اس زمانے کی کچھ عمارتیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ شہر دیکھنے کے بعد ہم اس مقام پر آئے جسے Whirlpool کہا جاتا ہے۔ یہاں پانی ایک بھنور کی صورت میں گھومتا نظر آتا ہے اس کے قریب ہی ایک گفٹ شاپ ہے جس میں نیا گرا کے Souvenirsملتے ہیں۔ آخر میں ہم نیاگرا آبشار کی اس ریلنگ کے پاس آئے جس کے ساتھ ایک ٹریک ہے جس پر سینکڑوں سیاح آجا رہے ہیں۔ ہم دیر تک اس ٹریک پر آبشار کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھر اسما نے کہا :کیوں نہ کچھ دیر آرام کر لیں۔ میں اسما اور صہیب وہیں گھاس کے ایک قطعے پر بیٹھ گئے۔
دور دور تک نرم دھوپ پھیلی ہوئی ہے‘ مجھے کئی برس پہلے کا وہ دن یاد آ رہا ہے جب ہم عتیق بھائی ‘ نگہت بھابھی اور ان کی دو ننھی منی بیٹیوں سارا اور انعم کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ درمیان میں ستائیس سال کا عرصہ گزر گیا۔ عتیق بھائی اور نگہت بھابھی اب بھی کینیڈا میں مقیم ہیں‘ سنا ہے سارا کی شادی ہو گئی ہے اور اس کے دو بیٹے ہیں۔ انعم شادی کے بعد امریکہ کے ایک شہر میں رہتی ہے۔ صہیب ایک بیٹی کا باپ بن گیا ہے اور کینیڈا میں مقیم ہے۔ ہاجرہ بھی شادی کے بعد اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ اسلام آباد میں رہتی ہے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور میرے تصور میں وہ منظر اُبھر آیا جب آج سے ستائیس برس پہلے ہم یہیں نیاگرا آبشار کے پاس گھاس کے ایک قطعے پر بیٹھے تھے اور ہمارے بچے صہیب‘ ہاجرہ‘ سارا اور انعم شور مچاتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ میں نے سوچا وقت کے خوش رنگ جگنوؤں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے پتا ہی نہیں چلتا ‘زندگی کا سفر کیسے گزر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دلربا دن کہاں چلے گئے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved