گزشتہ ہفتے کینیڈا کی وزیر خارجہ میلونی جولی کی اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ وڈیو لنک کے ذریعے بات چیت ہوئی۔ کینیڈا کی وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو کو ان کے منصب کی مبارکباد دی اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور بھی زیرِ بحث آئے۔ کینیڈا کے لیے اس خطے میں دلچسپی کے کئی امور ہیں۔ اس وقت کینیڈا کی فوری دلچسپی وہ افغان ہیں‘ جن سے امریکی انخلا کے وقت کینیڈا نے امیگریشن دینے اور کینیڈا بلانے کا وعدہ کیا تھا۔ کینیڈا کا خیال ہے کہ اس معاملے میں پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ امریکی انخلا کے وقت پاکستان نے کینیڈا کے کچھ شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں مدد فراہم کی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق اور عورتوں کی فلاح و بہبود جیسے مسائل میں کینیڈا دلچسپی لیتا رہا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے کینیڈا 1950ء کی دہائی سے لے کر پاکستان میں مختلف قسم کے پروجیکٹس کی فنڈنگ کرتا ر ہا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے پاکستان کو وقتاً فوقتاً دی جانے والی یہ امداد ایک خطیر رقم بنتی ہے مگر بدقسمتی سے ان شعبوں کی حالتِ زار میں واضح تبدیلی نظر نہیں آئی۔ انسانی حقوق کی حالت بدستور قابلِ رحم ہے۔ اس وقت پاکستان کے طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات‘ جن کی سیاسی طاقت کے علاوہ مختلف جگہوں میں حکومتیں بھی قائم ہیں‘ شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ جو لوگ آج مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ چند ماہ قبل ان کا شکوہ بھی یہی تھا کہ ان کے قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان حالات میں عام آدمی کے انسانی حقوق کا کیا رونا؟ رہا سوال عورتوں کی آزادی اور مساوات کا تو یہ مسئلہ آج بھی اتنا ہی گمبھیر ہے جتنا نصف صدی پہلے تھا۔ سماج میں چوبیس گھنٹے عورتوں کے احترام اور مساوات کے ڈھول تو پیٹے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اسی طرح جنسی امتیاز اور عدم مساوات کی شکار ہیں جس طرح نصف صدی قبل تھیں۔ یہ عدم مساوات معاشی‘ سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔
کینیڈا پاکستان تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اعلیٰ سطح کا پہلا دورہ لیاقت علی خان نے جون 1950ء میں کینیڈین دارالحکومت اٹاوا کا کیا تھا۔ اُس وقت لوئیس سینٹ لورنس کینیڈا کے وزیراعظم تھے لیکن کینیڈا کی جنوبی ایشیا کے معاملات میں دلچسپی اس سے بھی پہلے کی ہے۔ 1947ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر پہلی جنگ کے دوران کینیڈا نے امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے جنگ بندی لائن پر تعینات ہونے والے مبصرین میں کینیڈا بھی شامل تھا۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی لڑائی اپنے عروج پر تھی تو اس وقت اتفاق سے کینیڈا کے پاس سکیورٹی کونسل کی صدارت تھی۔ اس وقت کشمیر پر مشہور قرار داد پاس ہوئی‘ جسے قرارداد نمبر 47 کہا جاتا ہے‘ اور یہ قرارداد اقوامِ متحدہ میں پاس ہونے والی تمام قراردادوں کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ اس قرارداد میں کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت انڈریو میکناٹن سکیورٹی کونسل میں کینیڈا کی نمائندگی کر رہے تھے۔ میکناٹن نے اس قرارداد کو پاس کروانے میں کلیدی اور رہنما کا کردار ادا کیا تھا۔ جنوری 1971ء میں کینیڈین وزیراعظم پیئرایلیٹ ٹروڈو نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ دورہ تو اسے نہیں کہا جا سکتا‘ چونکہ ٹروڈو سنگاپور جاتے ہوئے پاکستان ٹھہرے تھے لیکن یہ مختصر قیام اس لیے اہم تھا کہ اس وقت پاکستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی تھی‘ جو بعد میں بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے کشیدگی اور سرد مہری کا شکار ہوگئی۔ بنگلہ دیش کی لڑائی اور انسانی حقوق کے حوالے سے آنے والی خبروں کے نتیجے میں کئی غیر ملکی سربراہوں اور سفارت کاروں نے مختلف شکلوں میں اپنا کردار ادا کیا‘ ان میں ایک ٹروڈو بھی تھے۔ وزیراعظم ٹروڈو اپنی خاص افتادِ طبع اور آزاد سوچ رکھنے والی شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ اپنی اس خاص افتادِ طبع کا اظہار وہ اس سے پہلے کیوبا کے مسئلے پر بھی کر چکے تھے۔ امریکہ کی ہمسائیگی اور قریب ترین معاشی اور ثقافتی تعلق کے باوجود انہوں نے کیوبا کے حوالے سے امریکی پالیسی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھااور ان کا شمار ٹروڈو کے قریب ترین دوستوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کیوبا کے خلاف امریکہ کی طرف سے سفری اور معاشی پابندیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود کینیڈین شہریوں نے کیوبا کے ساتھ تجارت اور کاروبار اور سیاحت کا عمل جاری رکھا تھا۔ بہرحال 1971ء میں مختلف عالمی فورمز پر وزیراعظم ٹروڈو نے بنگلہ دیش کی حمایت کی۔ بعد میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بنگلہ دیش کا ایک بڑا ایوارڈ بھی دیا۔ یہ ایوارڈ چند برس قبل ان کے بیٹے اور کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے شیخ حسینہ سے مونٹریال میں وصول کیا تھا۔ یہ ایوارڈ بنگلہ دیش نے کئی پاکستانی شخصیات کو بھی دیا تھا‘ جن میں فیض احمد فیض‘ ملک غلام جیلانی‘ پروفیسر وارث میر‘ غوث بخش بزنجو اور حبیب جالب شامل تھے‘ یہ ایوارڈ ان شخصیات کی بیٹیوں اور بیٹوں عاصمہ جہانگیر‘ حاصل بزنجو‘ سلیمہ ہاشمی‘ طاہرہ جالب اور حامد میر نے وصول کیا تھا۔ حامد میر نے بعد میں شیخ حسینہ واجد کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
1971ء کے بحران کے دوران کینیڈا نے پاکستان کے بارے میں ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی پالیسی اپنائی تھی۔ برطانوی سیاست دان رچرڈ پلکنگٹن نے اپنی کتاب ''قومی مفاد‘‘ میں اس پالیسی کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے بحران کے وقت پاکستان اور کینیڈا کے بہت گہرے تعلقات تھے۔کینیڈا پاکستان کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی امداد بھی فراہم کر رہا تھا یہاں تک کہ پاکستان کے نیو کلیئر پاور پروگرام میں اس کا پارٹنر بھی تھا۔ بنگلہ دیش کی طرف واضح جھکاؤ کے باوجود کینیڈا نے پاکستان کی امداد بند کرنے یا نیوکلیئر تعاون ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ اس کے بر عکس کینیڈا نے ایک ایسی پالیسی اختیار کی جس کے کئی پہلو تھے۔ کینیڈا نے فریقین پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں سے ضبط کی اپیل کی اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد جاری رکھی۔ پلکنگٹن کے خیال میں کینیڈا کی اس پالیسی کی وجہ سے کینیڈا اور پاکستان کے تعلقات بالکل ہی ختم ہونے سے بچ گئے۔ اس وقت چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ دونوں کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہے تھے‘ اس لیے کینیڈا کی مختلف پالیسی کے بہت زیادہ اثرات نہیں پڑ سکتے تھے‘ لیکن وزیراعظم ٹروڈو نے امریکہ کی پالیسی کے برعکس ایک آزادانہ سوچ کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کر دیا تھا۔ پاکستان نے 1998ء میں جوہری دھماکہ کیا۔ اس وقت جان کریچیئن کینیڈا کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ ان پابندیوں میں ہر قسم کے فوجی ساز و سامان کی برآمدگی پر پابندی‘ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی معطلی اور اسلام آباد سے کینیڈین ہائی کمشنر کی واپسی جیسے اقدامات شامل تھے لیکن گیارہ ستمبر کے بعد جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ پارٹنر شپ کا اعلان کیا تو کینیڈا کے ساتھ تعلقات بھی نارمل ہو گئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved