طرزِ حکمرانی کا شکار ہوکر سیلابی ریلوں اور طوفانی بارشوں کی بھینٹ چڑھنے والوں کی روحیں بھی یقینا اُس احتجاج میں شامل ہو گئی ہوں گی جو ناحق مارے جانے والوں کی روحیں نجانے کب سے کررہی ہیں۔ زمینی خداؤں کی نااہلی‘ نالائقی اور غفلت کی وجہ سے ناحق مارے جانے والوں کی روحیں کس بے تابی سے روزِ محشر کا انتظار کرتی ہوں گی کہ کب یومِ حساب آئے اور کب اُن گریبانوں کو پکڑ کر ربِ کائنات کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکیں۔ یہ روحیں عرشِ بریں پر بارگاہِ الٰہی میں فریاد بھی یقینا کرتی ہوں گی کہ اے پروردگار! ہمارا اس دنیا میں جانا کیا یونہی رائیگاں جائے گا‘ ان زمینی خداؤں کی تیرے جاہ و جلال اور شانِ کبریائی کے آگے کیا حیثیت ہے‘ یہ اپنے ظلم کی کھیتی کب کاٹیں گے؟ سیلابی ریلوں میں بہتی کیچڑ میں لت پت معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر تو زمین بھی کانپ اٹھی ہوگی لیکن اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مگن سیاستدانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کوئی بیانیے کا چورن بیچ کر مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے کے بعد اپنی ہی ذات کی پرستش میں مبتلا ہے تو کوئی اقتدار کے بٹوارے اور وسائل کی بندر بانٹ میں مصروف ہے۔
یہ ناحق مرنے والے نہ کسی کرپشن میں ملوث تھے‘ نہ ہی دہشت گردی میں۔ نہ ان پر بغاوت کا کوئی مقدمہ تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی حاکمِ وقت کو للکارا تھا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ نسل در نسل ایسے افراد کومینڈیٹ دیتے چلے آئے جنہیں اُن کی کوئی فکر نہ تھی۔ باپ کے بعد بیٹا اور دادا کے بعد پوتا ووٹ مانگنے چلا آتا ہے اور ایوان میں جاکر کس شان سے عوامی مینڈیٹ کی بولی لگوا کر اپنی دنیا سنوار لیتا ہے۔ ناحق مرنے والوں کا گناہ یہ بھی تھا کہ وہ اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوئے جہاں پیدا ہونا ہی بازی ہار جانے کے مترادف ہے۔ ان جرائم کی پاداش میں سیاستدانوں کوان ناحق مرنے والوں کے خلاف بعد از مرگ مقدمہ ضرور درج کرنا چاہیے کہ ایسے مشکل حالات میں ''آوے ای آوے‘‘اور'' جاوے ای جاوے‘‘ کے نعرے لگانے کے بجائے وہ بارشوں اور سیلابی ریلوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بھلا یہ بھی کوئی مرنے کا وقت ہے۔ الیکشن سر پر ہے‘ ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ مرنے والوں نے تو کتنے ہی قیمتی ووٹوں کا خسارہ کرڈالا۔ یہ خسارہ کون پورا کرے گا؟ مرنے والوں کے محبوب رہنماؤں کو تو اسمبلی میں جانے کے لیے ایک ایک ووٹ درکار ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مرکر وہ یقینا قومی مجرم تو ضرور قرار پا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی آرڈیننس‘ کوئی قانون ضرور منظور کروا لینا چاہیے تاکہ آئندہ ووٹوں کے خسارے کا سدِباب کیا جا سکے۔
سانحات اور حادثات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحہ کے ذمے داروں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے اُسے ہمیشہ ہی حادثے کا رنگ دیا جاتا ہے۔ نجانے کتنے سانحات کو حادثات قرار دے کر فائلوں میں دفن کیا جا چکا ہے۔ جہاں راہ چلتوں کو آوارہ کتے بھنبھوڑ کھائیں۔ بارشیں جیتے جاگتے انسان اور مال و اسباب بہا لے جائیں اور حکمران اسے قدرتی آفت قرار دے کر امدادی سامان تقسیم کرکے فوٹو سیشن کرواتے ذرا عار محسوس نہ کرتے ہوں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا طرزِ حکمرانی۔ اپنی اپنی دھن میں مست کوئی طولِ اقتدار کے لیے تو کوئی حصولِ اقتدار کے لیے ملک بھر میں تماشا لگائے ہوئے ہے۔ حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مردوں کو زندہ کردے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی معجزہ ہوتا ہے۔ اس کا معجزہ اور مسیحائی اس کی فرض شناسی‘ فیصلہ سازی‘ وژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔ حکمران کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔ بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی فرض شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کل نہیں۔
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتے ہوئے پوچھا تھا کہ یا رب جب تُو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں کیسے پتا چلے کہ تُو ہم سے ناراض ہے؟ پروردگارِ عالم نے فرمایا: جب میں ناراض ہوتا ہوں تو نکموں‘ بیوقوفوں اور نااہلوں کو حکومت اور بخیلوں کو پیسہ دے دیتا ہوں‘ اور پھر بے موسم اور بے وقت بارشیں برساتا ہوں۔ ہمارے ہاں موسمی اور بے موسمی بارشوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے اور کھڑی فصلوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک گرانی‘ بدحالی اور مہنگائی کی تباہی کے سوا عوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اللہ رحم! یاخدایا رحم! حکمرانوں سے لے کر بدحالی اور بے برکتی تک یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے نمونے ہیں‘ تو پھر کون سی اصلاحات‘ کون سے اقدامات‘ کیسی پالیسیاں اور کون سی گورننس۔ جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر ہماری تقریریں اور تدبیریں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟ ہمارے حکمران ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ بے شک یہ توبہ اور استغفار کا مقام ہے۔
عوام کی حالتِ زار کے ذمہ دار پون صدی سے نسل در نسل عوام کی نسلیں تباہ کرنے کے علاوہ دھرتی ماں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اسے بیان کرنا چاہوں تو الفاظ بھی ہاتھ باندھے زار و قطار روتے نظر آتے ہیں کہ ہم ایسے حالاتِ پریشاں کی ترجمانی سے قاصر ہیں؛ تاہم ایک استعارہ پیشِ خدمت ہے جسے ہوش مند ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بچھو بچے پیدا کرنے کے بعد اُن کو اپنی کمر پہ بیٹھا دیتا ہے اور یہ بچے اپنی ہی ماں کی کمر کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ ماں طاقت رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کہتی‘ شکوہ نہیں کرتی‘ چپ چاپ تکلیف سہتی رہتی ہے اور یہ بچے اس کا گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ماں چلنے کے قابل نہیں رہتی لیکن بچے خود چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ تب تک ان کی ماں بھی مر جاتی ہے۔ دھرتی ماں کو مارنے کا یہ عمل پون صدی سے جاری ہے۔ دھرتی ماں! ہم بے بس اور شرمندہ ہیں۔آخر میں ناحق مارے جانے والے اور ان کے پسماندگان کی وہ آہ و بکا جسے سیاستدان سننے سے گریزاں ہیں۔
لٹ گئے‘ مرگئے تیرے بندے ربا
کی کریے‘ کتھے جائیے
کس نوں جا فریاد سنائیے
کیڑھے در تے دہائیاں پائیے
ریلے آئے سیلاباں دے
رُل گئے نصیب غریباں دے
لاشاں گریاں پیاریاں دیاں
بندے مر گئے روٹی پچھے
ہیگا کون جیڑا حاکم نوں پچھے
روپ انسانی وچ درندے
لہو غریب دا پی پی پلدے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved