تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     24-08-2022

فضائل صحابہ کرامؓ کانفرنس

اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ ہر نبی اپنے اپنے علاقے اور اپنے وقت وقت میں اپنی قوم کے لوگوں کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کرتا رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام انبیاء کرام اللہ کی توحید اور اس کے احکامات کو لوگوں تک پوری استقامت اور جہدِمسلسل کے ساتھ پہنچاتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے راستے میں آنے والی تمام تکالیف اور مخالفتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ابتلاؤں، مشکلات اور مخالفتوں کے باوجود پیغامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے بعد جمیع کائنات کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نبی کریمﷺ کو منتخب فرمایا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نبی کریمﷺ کی عالمگیر نبوت کے بارے میں سورہ سبا کی آیت نمبر 28میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 158میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرمایا : ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو جمیع کائنات کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرما یا تھا‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر رسالت ونبوت کو تمام فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے چونکہ آپﷺ کو کائنات کا آخری ہادی، نبی اور رسول بنا کر مبعو ث فرمایا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس میں اعلیٰ ترین اوصاف کو جمع فرما دیا۔ نبی کریمﷺ جرأت، شجاعت، دیانت، امانت، عدل، انصاف، ایثار، قربانی، خیر خواہی کے لحاظ سے جمیع کائنات میں سب سے ممتاز شخصیت کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی شخصیت کا ذکر قرآنِ مجید میں زندگی کے تمام شعبوں میں بحیثیت حتمی رہنما فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا ذکر سورہ احزاب کی آیت نمبر 21 میں فرماتے ہیں: ''بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اسی طرح قرآنِ مجید میں آپﷺ کی اطاعت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت قرار دیا گیا؛ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد فرمایا : ''جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی اور جو منہ موڑلے تو نہیں ہم نے بھیجا آپ کو ان پر نگہبان بنا کر‘‘۔آپﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی محبتوں کا مرکز بھی قرار دیا ہے؛ چنانچہ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیں اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔ ان آیات سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ نبی کریمﷺ کے فرمودات، ارشاداتِ عالیہ اورعمل کی آئینی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟ نبی کریمﷺ کے جملہ اعمال، افعال اور ارشادات شرعی اعتبارسے آئین اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپﷺ کی اتباع کرنا ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ آپﷺ کے اوامر کو تسلیم کرنا اور آپﷺ کے منع کردہ کاموں سے اجتناب کرنا ہر مسلمان کی بنیادی ذ مہ داری ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حشر کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو کچھ رسول تمہیں دیں تو اس سے لے لو اور جس سے وہ تمہیں روکیں تو تم رک جاؤ (اُس سے) اور تم ڈرو اللہ سے‘ بے شک اللہ سخت سزا (دینے ) والا ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ کی تمام کی تمام زندگی چونکہ اسوہ حسنہ ہے اس لیے آپﷺ کی زندگی کے تمام حصوں اور معاملات کوبنی نوع انسان تک منتقل کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا انتخاب کیا۔ اہلِ بیت نبی کریمﷺ کے گھر انے کے لوگ ہیں جن میں بنیادی طور پر اُمہات المومنین، آپﷺ کی اولادِ مطہرہ، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت فاطمۃ الزہرا، حضرات حسن وحسین رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی نبی کریمﷺ نے اپنے اہلِ بیت کا حصہ قرار دیا۔ اہلِ بیت نبی کریمﷺ کی گھریلو زندگی کے شاہد تھے۔ آپﷺ کے گھریلو شب وروز، آپﷺ کی نجی اور عائلی زندگی، آپﷺ کی شب زندہ داری اور آپﷺ کے گھر والوں کے ساتھ معاملات کی شہادت اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دی جبکہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ کی گھر سے باہر کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کے شاہد تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریمﷺ کے غزوات، آپﷺ کے فیصلوں، آپﷺ کی عدالت، آپﷺ کی سخاوت اور لوگوں کے ساتھ آپﷺ کے حسنِ سلوک کا ذکر کیا۔ ارکانِ اسلام کی بجا آوری کس طرح ہونی چاہیے‘ یہ بات ہمیں کبھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حاصل ہوئی تو کبھی اہلِ بیت عظامؓ سے؛ چنانچہ نبی کریمﷺ کی سیرت اور شخصیت کا مکمل نقشہ ہمیں اہلِ بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کی شہادات کی وجہ سے حاصل ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں سے بعض ہستیوں نے اپنے آپ کو روایتِ حدیث کے لیے وقف کیے رکھا جن میں حضرت ابو ہریر ہؓ، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ،حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام نبی کریمﷺ کی احادیث کو بطریقِ احسن روایت کرتے رہے۔ ان روایات کی وجہ سے ہم تک نبی کریمﷺ کی سیرت اور معمولات منتقل ہوتے رہے اور ان روایات کی روشنی میں اُمت اپنے عقائد، عبادات اور معاملات کو سمجھتی رہی اور ان کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتی رہی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت عظامؓکی شخصیات کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہر ذی شعور مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ ان عظیم ہستیوں کی اہمیت و منزلت سے آگاہ ہیں‘ یقینا وہ ان کی تعریف و توصیف میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتے۔
سیرت صحابہ واہلِ بیتؓسے آگہی حاصل کرنے کے لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی فضائلِ صحابہ کرامؓکانفرنس کا انعقاد چوک بیگم کوٹ میں ہوا۔ جس میں مقررین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نمایاں مقررین میں قاری یٰسین بلوچ، سید سبطین شاہ نقوی، قاری خالد مجاہد، علامہ ہشام الٰہی ظہیر، معتصم الٰہی ظہیر، انعام الرحمن یزدانی، نعیم بٹ، بنیامین عابد اوردیگر مقررین شامل تھے۔ ان تمام مقررین نے بڑے خوبصورت انداز میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت عظامؓ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ میں نے بھی سابقہ کانفرنسوں کی طرح‘ اس دفعہ بھی اپنی تقریر میں عظمتِ صحابہ کرامؓ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اس بات کو واضح کیا کہ جب تک اہلِ اسلام زندہ رہیں گے تب تک حضرت ابو بکرؓ کی صداقت، حضرت عمرؓ کی عدالت، حضرت عثمانؓ کی سخاوت،حضرت علیؓ کی شجاعت، حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاکدامنی، حضرت حسنین کریمینؓ کی عظمت اور حضرت معاویہؓکے تدبر کا ذکر ہوتا رہے گا۔ اس کانفرنس میں شرکاء کے سامنے اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ بنیادی طور صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین دو طبقات پر مشتمل تھے؛ بعض صحابہ مہاجرین تھے اور بعض انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ مہاجر اور انصار صحابہ کی شان وعظمت اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حشر کی آیات 8تا9 میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں۔مہاجر اور انصار صحابہؓ کا ذکرِ خیر کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اہلِ ایمان کا بھی تذکرہ کیا جوان کے بعد اسلام لائے یا دنیا میں آئے۔ان کے اس وصف کا ذکر کیا کہ ان کے دلوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کوئی کجی نہیں ہوتی بلکہ وہ ان کے لیے مغفرت اور بخشش کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا ذکر سورہ حشر ہی کی آیت نمبر 10میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور (ان لوگوں کے لیے ) جو ان کے بعد آئے‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے (ان ) بھائیوں کو‘ جنہوں نے ہم سے پہل کی ایمان لانے میں اور نہ ڈال ہمارے دلوں میں کوئی کینہ ان (لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے۔ (اے) ہمارے رب! بے شک تو بہت شفقت کرنے والا بڑا مہربان ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کو صحابہ کرامؓ سے محبت رکھنی چاہیے اور ان کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے مغفرت کاطلبگار ہونا چاہیے۔ یقینا اہلِ بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ سے محبت اور عقیدت کا سبب نبی کریمﷺ کی رفاقت اور رشتہ داری ہے؛ چنانچہ تمام اہلِ ایمان جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ سے محبت کرتے ہیں وہیں انہیں صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظامؓ کی محبت کو بھی اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں دین کی شہادت اور گواہی دینے والے لوگوں کے کردارو عمل سے روشناس ہو سکیں اور ان کی عظمت کا ادراک کرنے کے قابل بھی ہو سکیں۔ چوک بیگم کوٹ کانفرنس میں سامعین نے بڑی توجہ اور انہماک سے مقررین کو سنا اور یہ کانفرنس رات کے پچھلے پہر تک جاری رہی اور اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہو گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved